بھارت ،ترکی، اور دیگر مملک سے دفاعی ہھتیاروں کی خریداری
کے معاہدوں نے امریکی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں
چینی نے امریکہ کے راستے بند کر دیئے۔ بھارت ،ترکی، اور دیگر مملک سے دفاعی
ہھتیاروں کی خریداری کے معاہدوں نے امریکی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اب
یہ سوال امریکہ کے سامنے ہے کہ چین کے اقتصادی انقلاب کا مقابلہ کیسے کیا
جائے؟ یہ امر عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ چین میں
اس انقلاب کے پہلے مرحلے یعنی صنعتی ترقی نے عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ
دیا تھا۔چین میں اقتصادی ترقی کے پہلے مرحلے میں اس ملک نے اپنی صنعتی ترقی
کی بدولت دنیا بھر میں اپنی برآمدات کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی
تھی۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ چین نے متعدد ممالک میں ہر قسم کے صارف کے
لیے مختلف قیمتوں کی مصنوعات کو متعارف کرایا۔ جس نے چین کی اقتصادی ترقی
میں اہم کردار ادا کیا۔ عالمی سطح پر اقتصادی ترقی کے اس مقابلے میں اس
دوران چین نے کئی اہم ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔چینی اقتصادی ترقی کا دوسرا
مرحلہ اور بھی تابناک خیال کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کے بقول چین میں مستقبل
میں خدمات مہیا کرنے پر زیادہ زور دیا جائے گا جب کہ صنعت میں سکڑاؤ پیدا
ہو گا۔ اس حوالے سے وہاں سستی لیبر ایک نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک
اور میدان ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے ہے۔ جس میں چین امریکہ کو پیچھے
چھوڑ رہا ہے۔ امریکہ کے نا چاہنے کے باوجود اس وقت چین پاکستان کو ہتھیار
فراہم کرنے والا اولین ملک ہے اور لگتا یوں ہے کہ وہ اپنی اس پوزیشن سے
ہٹنے والا نہیں ہے۔ چین اور پاکستان کے مابین کئی نئے سمجھوتے کئے گئے
ہیں۔امریکی وال سٹریٹ جرنل نے پاکستانی فضائیہ کے ذرائع کے حوالے سے لکھا
ہے کہ دونوں ممالک نے پاکستان کو سٹینتھ ٹکنالوجی کی بنیاد پر تیار کردہ
پچاس چینی جنگی طیاروں جے ایف 17 کی فراہمی کا سمجھوتہ کیا ہے۔ ایک پائلٹ
کے لیے نشست والے ایسے طیاروں کی ایک کھیپ پاکستان کو اس سے پہلے مہیا کی
جا چکی تھی۔ ایسے ایک طیارے کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہے، پاکستانی فضائیہ کا
ارادہ ہے کہ آئندہ چند سال کے دوران ڈھائی سو جے ایف 17 طیارے خریدے جائیں۔
پاکستان اور چین نے 1999 میں ایسے طیاروں کی پیداوار میں تعاون کا سمجھوتہ
کیا تھا جس کے باعث مغربی ممالک سے پرزوں کی فراہمی پر پاکستان کا انحصار
کم ہو چکا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ چینی فوجی مشینوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے،
چینی ساخت کے کئی قسم کے ہتھیار مغربی ہھتیاروں سے بہترہورہے ہیں۔ اس کے
علاوہ چین ہتھیاروں کی فراہمی کو سیاسی یا کسی طرح کی دوسری شرائط سے منسلک
نہیں کرتا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھہ ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے
اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے چین نے بیان دیا ہے کہ
ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی میں اضافہ قطعی نامناسب ہے۔ چین بلاشبہ
خلیج فارس اور اس پورے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے کوشش
کر رہا ہے۔ چین نے رسمی طور پر اس خطے کو اپنے لیے خاص اہمیت رکھنے والا
خطہ قرار نہیں دیا لیکن چینی حکام کے ہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ بیجنگ
امریکہ کو ایشیا میں اپنا اثر بڑھانے سے روکنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ توقع ہے
کہ اس سال اور اگلے سال چین امریکہ تعلقات میں تناؤ بڑھتا رہے گا۔ چین
امریکہ کو ایشیا سے ہٹانے، افریقہ میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور
خلیج فارس میں امریکہ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوششیں جاری رکھے
گا۔دنیا بھر میں ہتھیاروں کی منتقلی کے حوالے سے اعداد و شمار اکھٹاکرنے
والے سوئیڈن کے ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کچھ
عرصہ قبل دنیا میں ہتھیاروں کی درآمدو برآمد کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی
تھی۔ جس کے مطابق سال دوہزار نو کے دوران امریکا نے سب سے زیادہ ہتھیار
فروخت کئے۔ مالی بحران نے امریکا کے بڑے بڑے بینکوں کو دیوالیہ کردیا تھا
مگر اس کے باوجود امریکا ہتھیاروں کی برآمد میں سر فہرست رہا۔ امریکا دنیا
کے ستر ممالک کو ہتھیار برآمدکرتا ہے۔ان ممالک میں جنوبی کوریا، متحدہ عرب
امارات اور اسرائیل شامل ہیں۔ روس دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو امریکا کے
بعد سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ان دونوں ممالک کی مجموعی برآمدات
تریپن فیصد بنتی ہیں۔اس میں تیس فیصد امریکا اور 23 فیصد حصہ روس کا بنتا
ہے۔جرمن کا نمبر تیسرا اور فرانس کا نمبر چوتھا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے
دوران جرمنی نے ہتھیاروں کی برآمدات دوگنا کرلی ہیں۔ یہی حال فرانس کا
ہے۔فرانسیسی ہتھیاروں کی بیرون ملک برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔لیکن اب
چین نے امریکہ کو مات کر دیا ہے۔ حال ہی میں چینی وزیراعظم نے دورہ بھارت
کے دوران تنازعات کے باوجود 8 معاہدوں پر دستخط کئے۔ چینی وزیراعظم نے کہا
ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کھلے دل سے تمام معاملات پر بات چیت کی گئی
ہے۔دنیا کا سب سے بڑا سلحہ درآمد کنندہ ہونے کی وجہ سے بھارت ہتھیاروں کو
جدید بنانے میں سالانہ 30ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔بھارت 70فی صد انحصاردرآمد
شدہ دفاعی سازوسامان پر کرتا ہے۔ امریکا،برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل سے بھی
دفاعی سازوسامان لے رہا ہے۔ لیکن اب اس کی توجہ چین پر ہے۔ توقع ہے کہ
2020تک بھارت سالانہ65.4ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کرے گا۔ ادھر چین ترکی
کو بھی دفاعی ساز وسامان دے رہا ہے۔ترکی کے ایک سینئیر عہدیدار نے کہا کہ
ان کا ملک آئندہ چھ ماہ میں ایک چینی کمپنی کے ساتھ میزائل کے دفاعی نظام
کی مشترکہ تیاری سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دے سکتا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ
مستقبل میں کئی عشروں تک چین عالمی اقتصادیات کا ایک اہم ملک رہے گا۔ اس
تناظر میں چائنیز اکیڈمی آف انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ اکنامک کارپوریشن سے
وابستہ ماہر اقتصادیات لی جیان کہتے ہیں کہ یہ امر اہم ہے کہ یہ کیمونسٹ
ملک مستقبل میں صرف اہم خام مال کی پراسیسنگ اور ان کو دوبارہ برآمد کرنے
پر ہی اکتفا نہیں کرے گا۔ چین میں کامرس کی وزارت کیاس تھنک ٹینک سے منسلک
جیان نے مزید کہا کہ چین نے یہ احساس کر لیا ہے کہ وہ اندھا دھند صرف
سرمایا کاری یا برآمدات کی بدولت اپنی اقتصادی حیثیت کو برقرار نہیں رکھ
سکتا ہے، اس لیے چین کی اقتصادی ترقی میں اب طلب و رسد میں مزید توازن پیدا
کرنے کی کوشش کی جائے گی۔چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت نے
یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ پائیدار ترقی کے لیے سنجیدہ ہے، رواں برس کی
پہلی ششماہی میں اپنی اقتصادی نمو کو دانستہ طور پر کم رکھا ہے تاکہ طویل
المدتی اسٹریکچرل ترجیحات کی وجہ سے کسی قسم کے منفی پیغام سے بچا جا
سکے۔واشنگٹن میں قائم ورلڈ بینک سے منسلک ماہر اقتصادیات فلیپ شیلکنز کے
بقول بیجنگ حکومت کی طرف سے نئی اقصادی اصلاحات عالمی سطح پر اہمیت کی حامل
ہوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے چین میں تبدیلیاں پیدا ہوں گی، ویسے ویسے
دنیا پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔بیجنگ میں واقع ’ہونگیان سکیوریٹیز‘
سے وابستہ تجزیہ کار ’ہی ڑیفنگ‘ کہتے ہیں کہ چین میں ایسی اقتصادی تبدیلی
دو دھاری تلوار سے کم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی اقتصادیات میں بہتری
کی اس کوشش سے بالخصوص امریکا اور یورپی ممالک کو عالمی سطح پر سخت مقابلے
کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چین اس وقت امریکا کے بعد دوسری سب سے بڑی اقتصادی
طاقت ہے جب کہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر بالترتیب جاپان اور جرمنی ہیں۔دنیا
کے بیشتر ممالک امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت خیال کرتے ہیں لیکن
حقیقت کچھ اور ہے۔ چین بننے جارہا ہے دنیا کی معاشی سپر پاور، یہ بات سامنے
آئی ہے 39 ممالک میں ہوئے ایک تازہ سروے کے نتائج میں،
یہ سروے ’پیو ریسرچ سینٹر‘ نے منعقد کروایا۔ اس سروے کے دوران ’پیو ریسرچ
سینٹر‘ نے39 ممالک میں 37653 افراد کو انٹرویو کیا۔ اس دوران یہ بات سامنے
آئی کہ عالمی کساد بازاری نے امریکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ
چین نے اس دوران انتہائی تیز رفتار ترقی کی ہے۔ جائزے کے نتائج ظاہر کرتے
ہیں کہ چین ایک بڑی معیشت کے طور پر اب دنیا کی قیادت کرے گا۔اس سروے میں
شامل 39 میں 22 اقوام آج بھی یہ سمجھتی ہیں کہ امریکا اس دنیا کی سب سے
طاقتور معیشت ہے۔ آٹھ ممالک کے نزدیک چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور
ان آٹھ میں امریکا کے بڑے اتحادی کینیڈا،برطانیہ، جرمنی اور فرانس بھی شامل
ہیں۔امریکا کے خلاف سب سے زیادہ نفرت مصر میں دیکھنے میں آئی۔غالبا پاکستان
کے بعد کسی دوست ملک میں اسقدر امریکہ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی ہے تو وہ مصر
ہے۔ امریکی کے لیے سب زیادہ نفرت مشرق وسطی کی اکثر ریاستوں میں دیکھے گئے۔
وہاں سات میں سے پانچ ممالک میں امریکا مخالف جذبات دیکھنے میں آئے۔ ان میں
مصر 81 فیصد کے ساتھ پہلے اور ترکی 70 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر
تھا۔امریکی امداد وصول کرنے والے بڑے ممالک مصر اور پاکستان میں لوگوں کی
اکثریت کا خیال ہے کہ اس امداد کے ان کے ملک پر منفی اثرات ہو رہے ہیں۔سروے
کا سب سے دلچسپ اور حیران کن پہلو یہ ہے کہ امریکی خود بھی اس حوالے سے
تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ چین دنیا کی
سب سے بڑی عالمی طاقت ہے یا امریکا عالمی معاشی لیڈر ہے۔ 44 فیصد امریکی یہ
سمجھتے ہیں کہ چین نمبر ایک عالمی طاقت ہے جبکہ 39 فیصد امریکا کو آگے
دیکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حالیہ سروے کے مطابق سن 2008ء میں جو لوگ یہ
سمجھتے تھے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اب ان کی تعداد میں بہت زیادہ
اضافہ ہوچکا ہے۔ اسپین، جرمنی اور برطانیہ میں یہ تعداد دگنی، روس میں تین
گنا اور فرانس میں اس تعداد کو 22 پوائنٹس دیے گئے ہیں۔ Pew Research
Center's Global Attitudes Project کی جانب سے یہ سروے پہلی بار سن 2008ء
میں اور اب دوسری بار سن 2013ء میں منعقد کروایا گیا ہے۔ اس بار کے نتائج
میں جو واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اکثریت اب یہ مانتی ہے
چین دنیا کی سب سے بڑی عالمی طاقت ہے۔یہ سروے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی
کی جانب سے پرزم جاسوسی پروگرام کے انکشاف سے قبل منعقد کروایا گیا تھا۔ اس
سروے میں اکثریت کا ماننا تھا کہ امریکا شخصی آزادیوں کے حوالے سے دنیا بھر
میں سب سے آگے ہے۔39 ممالک میں سے صرف تین میں لوگوں نے دہشت گردوں کے خلاف
امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کی، ان اسرئیل 64 فیصد، امریکا 61 فیصد اور
کینیا میں 56 فیصد۔ چین کی تیز رفتار ترقی سے حکومت بھی پریشان ہے، اور کئی
سخت اقدام اٹھا رہی ہے۔
دنیا میں اسلحے کی تجارت میں آئینی بنیاد کی تشکیل کے لئے اقوام متحدہ اور
سول سوسائٹی تنظیموں کے درمیان جاری اسلحے کی تجارت کے سمجھوتوں سے متعلق
مذاکرات نیو یارک میں جاری ہیں۔مذاکرات کا ہدف اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی
تنظیموں کے درمیان اسلحے کی تجارت میں حد بندی کے لئے معاہدوں کا طے پانا
ہے اقوم متحدہ اسلحے کی تجارت کو متعینہ اصولوں کا تابع کرنے کے لئے ایک
ایسی اہم دستاویز تشکیل دینے کی توقع کر رہی ہے۔ جو آج تک حاصل نہیں کی جا
سکی۔واشنگٹن کا مطالبہ ہے کہ دھماکہ خیز مادوں کو اس تجارتی معاہدے سے باہر
رکھا جائے جبکہ چین ہلکے اسلحے کو معاہدے سے باہر رکھنے کا خواہش مند ہے
تاہم ترکی سمیت یورپی ممالک اسلحے کی تجارت کو زیادہ شفاف شکل میں لانے کے
لئے کوششیں کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق عالمی اسلحے کی تجارت
کا بڑا حصہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے اس کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی
اور روس بھی اسلحے کے اہم تاجروں میں شمار ہوتیہیں۔واضح رہے کہ دنیا میں ہر
سال اسلحے کی خرید کے لئے ستر بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں ایک سوئیڈش تھنک
ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین دنیا میں اسلحہ برآمد کرنے والا
پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے
مطابق 1950ء کے بعد سے پہلی بار برطانیہ پانچویں مقام سے چھٹے نمبر پر آگیا
ہے اور چین نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ میں کہا گیا
ہے کہ گزشتہ پانچ برس (2012-2008) میں اس سے پہلے کے پانچ برس کے مقابلے
میں چین کے اسلحہ کی برآمدات میں 162 فیصد اضافہ ہوا ہے۔خبر رساں ادارے اے
پی اور اے ایف پی کے مطابق ایس آئی پی آر آئی نے کہا ہے کہ اسلحے کی عالمی
برآمدات میں چین کا حصہ دو فیصد سے بڑھ کر پانچ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔واضح
رہے کہ چینی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے جو اپنے پچپن فیصد
ہتھیار چین سے حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد میانمار اور بنگلہ دیش بالترتیب آٹھ
اور سات فیصد ہتھیار چین سے برآمد کرتے ہیں۔اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک
میں امریکہ تیس فی صد، روس چھبّیس فی صد، جرمنی سات فی صد، فرانس چھ فی صد،
اور چین پانچ فی صد ہے۔ ایس آئی پی آر آئی کے ڈائریکٹر پال ہالٹوم نے کہا
ہے کہ ’چین کی برآمدات میں اضافے کی وجہ پاکستان کا بھاری تعداد میں اس سے
اسلحہ حاصل کرنا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’حالیہ چند معاہدوں سے یہ اشارہ
ملتا ہے کہ چین نے اپنے آپ کو اہم اسلحہ فراہم کرنے والے ملک کے طور پر
منوانا شروع کر دیا ہے کیونکہ اس سے اسلحہ حاصل کرنے والے ممالک کی تعداد
میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘ایس آئی پی آر آئی کے مطابق چین نے حال ہی میں
الجیریا کو تین فریگیٹ، وینزویلا کو آٹھ مال بردار ہوائی جہاز اور مراکش کو
54 ٹینک فروخت کیے ہیں۔جہاں دنیا میں اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں
امریکہ، روس، جرمنی، فرانس اور چین شامل ہیں وہیں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد
کرنے والے ممالک میں بھارت 12 فیصد کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔۔چین ایک عالمی
طاقت بننے کے راستے پر گامزن ہے لیکن یہ راستہ اکثریت کی توقع کے مطابق
نہیں ہے-
گذشتہ دنوں چینی حکومت نے 19 صنعتوں سے متعلق قریب 14 سو کمپنیاں بند کرنے
کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ بیجنگ حکومت نے اضافی پیداوار کے منفی اثرات
سے بچنے اور اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلی کی خاطر یہ سخت قدم اٹھایا ہے۔چینی
ماہر اقتصادیات ڑوائی ڑھانگ کے بقول حکومت معیشت کی ری اسٹرکچرنگ بابت
سنجیدہ ہے اور اس کے لیے ’ناگزیر درد‘ سہنے کو بھی تیار ہے۔ چین میں کئی
صنعتی شعبوں میں جیسا کہ شمسی بجلی پیدا کرنے والے پینلز کی پیداور کے لیے
حکومت کی سبسڈیز اور بے دریغ سرمایہ کاری سے اس قدر پراڈکشن ہوگئی کہ اسے
فروخت کرنے کے لیے قیمت گراتے گراتے بعض اوقات لاگت سے بھی کم دام پر اشیاء
فروخت کرنا پڑیں۔ رواں برس Suntech نامی کمپنی کا دیوالیہ ہونا اس کی ایک
مثال ہے۔ماہرین اقتصادیات پہلے ہی طویل مدت کے لیے چین کی اقتصادی ترقی کے
حوالے سے خدشات ظاہر کرچکے ہیں۔ بالخصوص ریٹیل سیکٹر اور فیکٹری آؤٹ پٹ میں
کمزور نمو اور دیگر اشاریے اس کا سبب ہیں۔ رواں ماہ ہی بین الاقوامی
مالیاتی فنڈ نے چین میں 2013ء کے لیے اقتصادی نمو کی پیشن گوئی کو آٹھ
اعشاریہ ایک سے کم کرکے ساتھ اعشاریہ آٹھ کیا ہے۔ نجی شعبے کی پیشن گوئی کے
مطابق اگلی مالیاتی ششماہی میں اقتصادی نمو کی شرح سات فیصد تک بھی گر سکتی
ہے۔چین کا شمار دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر
برامدت میں کم ہونے کے بعد اپنی معیشیت میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا
ہے۔دوسری جانب عام تاثر یہ ہے کہ چین کے برامدی کمپنیاں ملک میں رقم لانے
پر عائد ہونے والی پابندیوں کو نظر انداز کرنے کے لیے اصل فروخت سے زیادہ
برآمدات ظاہر کر رہے ہیں۔ان خدشات کی بنا پر چینی حکام نے ملک میں سرمائے
کی آمد اور منتقلی پر کڑی نگاہ رکھی ہے اور زرِ مبادلہ کے نگران ادارے (ایس
اے ایف ای) نے برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن اور دارمدی ادائیگیوں کی غلط
معلومات فراہم کرنے پر جرمانہ عائد کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غلط
معلومات فراہم کرنے پر حکومتی کارروائی سے تجارتی سرگرمیوں کمی ریکارڈ کی
گئی ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چین کے تجارتی اعدادوشمار اب کسی حد
تک معیشت کی عکاسی کر رہے ہیں۔چین کی مجموعی قومی پیداوار گذشتہ تیس برسوں
میں سو ارب ڈالر سے بڑھ کر پانچ ٹریلین ڈالر ہوگئی ہے لیکن یہ اب بھی
امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار کے صرف ایک تہائی کے برابر ہے ۔چین کو دنیا
کے اسٹیج پر زیادہ بھر پور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ دنیا کی نظریں چین پر
لگی ہوئی ہیں اور اس بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے کیوں کہ ہمارا
خیال ہے کہ چین اکیسویں صدی میں ایک منفرد لیڈر بن سکتا ہے۔ ’’ اکیسویں صدی
کی طاقت بننے کے ساتھ ساتھ جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں قبول کرنے سے
چین کے لوگوں کو ترقی کے ایسے عظیم مواقع ملیں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا
جا سکتا۔۔ امریکہ اور چین کے تعلقات بڑے نازک موڑ پر ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب
امریکہ اور چین کے درمیان باقاعدہ تعلقات بحال ہوئے تقریباً تین عشرے گذر
چکے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بحرالکاہل کے دونوں طرف چین کے عروج اور امریکہ اور
چین کے تعلقات کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ علاقے میں اور یہاں امریکہ
میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چین کی ترقی خطرناک ہے اور اس سے سرد جنگ کے طرز
کی کشمکش یا امریکہ کا زوال شروع ہو جائے گا اور دوسری طرف چین میں کچھ لوگ
پریشان ہیں کہ امریکہ چین کے عروج اور اقتصادی ترقی کو محدود کرنے پر تلا
ہوا ہے۔ اس نظریے نے چین میں شدید نوعیت کی قوم پرستی کو جنم دیا
ہے۔پنٹاگون نے حال میں چین کے حوالے سے خطرات کے بارے میں ایک رپورٹ جاری
کی ہے۔ان کا فوجی بجٹ بڑھ رہا ہے۔یہ اس وقت اس بجٹ کا پانچواں حصہ ہے جو
امریکہ عراق اور افغانستان میں خر چ کرتا ہے اور یقیناً یہ امریکی فوجی بجٹ
کا ایک معمولی حصہ ہے۔زیادہ عرصہ کی بات نہیں ہے جب امریکہ چین کے قریب
سمندر میں بحری مشقیں کررہا تھا۔ چین نے اس موقع پر احتجاج کیا تھا اور خاص
طورپر ایٹمی طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری بیڑے ’’یوایس ایس جارج
واشنگٹن‘‘ کو مشقوں میں لانے پر اس نے شدید احتجاج کیا تھا کیونکہ چین کا
کہنا تھا کہ اس بیڑے کے ذریعے امریکہ بیجنگ پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔اس پر
امریکہ کا موقف تھا کہ چین جارحانہ طرز عمل اختیار کررہا ہے کیونکہ وہ
سمندروں کے حوالے سے آزادی میں مداخلت کررہا ہے۔اب اگر اس حوالے سے دفاعی
اور فوجی تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں اس کو سلامتی کا ایک کلاسیک
المیہ کہا جاتا ہے جس میں دونوں فریق ٹکراؤ کا شکار ہیں۔۔چین سپر طاقت کے
طور پر کیسا ہو گا؟ شاید آپ کے خیال میں یہ پہلے سے ہی ایک سپر طاقت ہے تو
ایسا نہیں ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ چینی فوج کا امریکی فوج سے موزانہ
کرنا درست نہیں ہے۔ اس وقت امریکہ کے پاس گیارہ طیارہ بردار بحری جہاز ہیں
جبکہ چین نے اس قسم کے پہلے بحری جہاز کو گزشتہ ماہ ہی بحریہ میں شامل کیا
ہے۔ جبکہ عالمی سیاست میں اس کا اثر ورسوخ بہت کم ہے۔صرف معاشی میدان میں
چین کی قوت ایک عالمی طاقت کے طور پر سمجھ آتی ہے۔ اس وقت چین کی معیشت کا
حجم امریکی معیشت کے مقابلے میں آدھا ہے اور ایک اندازے کے مطابق چینی
معیشت سال دو ہزار اٹھارہ تک امریکی معیشت پر برتری حاصل کر لے گی لیکن
ٹیکنالوجی اور زندگی کا معیار امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔لیکن چینی اپنے گھر
میں رہنا چاہتے ہیں، وہ ’مڈل کنگڈم‘ چین کے پرانے نام پر یقین رکھتے ہیں،
اس کا ادبی ترجمہ ہو گا کہ ہم زمین کے مرکز میں ہیں اور انسانی تہذیب کی
اعلیٰ ترین قسم ہیں۔یورپ کے برعکس چینیوں کی وقت کے بارے میں سوچ بہت مختلف
ہے۔ جہاں امریکی سمجھتے ہیں کہ وقت بہت کم ہے وہیں چینی سوچتے ہیں کہ بہت
زیادہ ہے۔ ان کے خیال میں ایک صدی کچھ بھی نہیں۔ |