۲۲ ذی الحجہ یوم وصال پر خصوصی تحریر
اسلام ایک آفاقی دین ہے۔ یہی دین مبین انسانیت کا نجات دہندہ ہے اوراسی میں
انسانی مسائل کا حل ہے۔ اﷲ کریم کا ارشاد ہے اِنَّ الدِّ یْنَ عِنْدَاللّٰہِ
الْاِسْلَامُ (سورۃ آل عمران:۱۹) ’’بے شک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘ (کنزالایمان)……اس
لیے ایک مبلغ یا داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دعوت میں اسلام کی صداقت
آشکار کرے۔ وہ حق کا داعی ہے۔ اگر وہ تمام ادیان کی تعلیمات جو درحقیقت
انسانیت کی رہ نمائی نہیں کرتیں انھیں بھی صحیح بتائے اور اسلام کو بھی
صحیح بتائے یہ دین کی تبلیغ نہیں، یہ مذاق ہے، آج کل خود کو اسلامی اسکالر
یا داعی کہلوانے والے ایسا کر رہے ہیں، اس سے وہ اسلام مخالف مشنریز کو
ضرور خوش کر لے رہے ہیں۔
ایک عرصہ سے مکالمہ یعنی ڈائیلاگ کو عیسائی مشنریز رواج دے رہی ہیں، اس سے
ان کا مقصد عیسائیت سے مسلمانوں کو قریب لانا ہے، عیسائیت جو اس کے ماننے
والوں کے ہاتھوں اپنی اصلیت کھو بیٹھی ہے اس کی تبلیغ کے لیے ایسے آلۂ کار
استعمال میں لائے جا رہے ہیں جن پر اسلامی اسکالر اور داعی کا لیبل چسپاں
کر دیا گیا ہے۔ جن کا مطمح نظر یہ ہے کہ ’’ہر مذہب کا درس ایک ہے، راستہ
الگ الگ ہے‘‘ اس سے ہندو، عیسائی، یہودی سب خوش…… ایسے ہی مرزا غلام احمد
قادیانی تھا، جو ابتداء ً عیسائیوں سے مناظرے و مکالمے کیا کرتا تھا،
مسلمانوں کی حمایت بٹورتا تھا، درپردہ عیسائیوں سے ملتا تھا، اسلامی عقائد
کے مقابل اس شخص نے جو فتنہ سامانی کی وہ اہلِ بصیرت پر عیاں ہے۔اسی روش پر
یزید کی تائید کر کے، رسول کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی کر کے
خود ساختہ ’’مبلغین و اسکالرز‘‘اسلام مخالف مشنریز کی دل جوئی کا مسلسل
سامان کر رہے ہیں۔
مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رضوی نے دین متین کی اشاعت
کے لیے ایسے دور میں جب کہ اس قدر ذرائع موجود نہیں تھے، دنیا کے بیش تر
خطوں میں نہایت کام یابی کے ساتھ اسلام کی اشاعت کی، اور مثالی داعی کا
کردار ادا کیا۔آپ کے داعیانہ نقوش داعیانِ اسلام کے لیے رہ بر و رہ نما
ہیں۔آپ نے برنارڈشا کو جو پہلے سے اسلام کے بارے میں منفی فکر و ذہنیت
رکھتا تھا، نہایت مدلل، معقول، ٹھوس جوابات سے ایسا مطمئن کر دیا کہ وہ
اسلام کی عظمتوں کا قائل ہو گیا۔ برنارڈشا سے آپ کی گفتگو در اصل مکالمے کی
ایک شکل ہے جس میں اسلام کی حقانیت اجاگر ہوتی ہے۔
اسلام کی صداقت و سچائی کے ساتھ ہی اس میں داعیانہ بصیرت و فراست ایمانی کا
مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسلام در اصل اپنی صداقت کے وہ ناقابل تردید
دلائل رکھتا ہے جو ہر عہد میں، مادی ترقیات کے ہر میدان میں اسلام کی سچائی
کی تائید کرنے پر انسان کو مجبور کرتے ہیں۔ ایک سالم الذہن شخص کے لیے
اسلام کی سچائی کے اعتراف کے بغیر چارہ نہیں۔ برنارڈشا کے ماننے والے اس کی
ذہانت کو اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ کم ہی ہوتے تھے جو اس کے سامنے کچھ
کہنے کی جرأت کرتے ہوں۔ ان کے نزدیک وہ بڑا افصح البیان شخص تھا، لیکن مبلغ
اسلام کے سامنے دم بہ خود ہو گیا، سوال کرتا اور خاموشی کے ساتھ جواب سنتا،
اسے ہر اعتراض کا شافی جواب ملا، مبلغ اسلام نے عقلی دلائل سے بھی کام لے
کر حق واضح فرمایا۔ اور یہ اسلام کی خوبی ہے کہ مادیت کے دور میں بھی
اسلامی دلائل ناقابل تردید ہیں۔
مکالمہ کے ذریعے عیسائیت نے مسیحیت کی تبلیغ و اشاعت کے اہداف متعین
کیے۔مائیکل نذیر علی کے الفاظ میں: ’’عیسائیت کی تبلیغ جتنی اور جس طرح بھی
کی جاتی ہے ساری کی ساری مکالمے کو اولین حیثیت دیتی ہے اور اسے بنیاد
بناتی ہے۔ مکالمے کے بغیر عیسائیت کی کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی کیوں کہ
مکالمہ تمام انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔‘‘(Mission and Dialogue,p58،
افکار رضاممبئی،جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ء،ص۶۰)
سیاسی و سماجی، تعلیمی و لسانی، تمدنی و تہذیبی بنیادوں پر مکالمے کے توسط
سے عیسائیت نے اپنے مذہبی اہداف کے لیے سرگرمی دکھائی، جب کہ اس سلسلے میں
انھوں نے ایسوں سے مکالمہ کیا جن کا علم اسلام کے حوالے سے سطحی تھا، جو
اسلام کی ترجمانی کی اہلیت نہیں رکھتے، نتیجہ یہ ہوا کہ ایسوں سے مکالمہ نے
مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، بہ قول خورشید احمد سعیدی : ’’مکالمے کے ذریعے
عیسائی عموماً جید مسلمان علما سے ملنے سے کتراتے ہیں، مگر ایسے علما جنھوں
نے عیسائیت کا گہرا مطالعہ نہیں کیا ہوتا یا وہ لوگ جو سرے سے علما کی صف
میں شامل ہی نہیں ہیں، سے یہ لوگ مکالمہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،مثلاً
سائنس داں،فن کار، آرٹسٹ وغیرہ۔‘‘(افکار رضاممبئی،جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ء،ص۶۲)
ایک اسلامی مبلغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر مکالمہ میں حصہ لے تو اسلام کی
صداقت واضح کرے۔ دوسرے مذاہب جن کی بنیاد اوہام پر ہے یا جو انسانوں کے
ہاتھوں اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں ان کا غیر فطری ہونا ثابت کیا جائے۔ مبلغ
اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی نے برنارڈشا سے ایک تاریخی مکالمہ
ممباسا میں۱۷؍اپریل ۱۹۳۵ء کو کیا جس میں اسلام کی صداقت و سچائی کا برملا
اظہار کیا اور برنارڈشا کی اسلام کے تئیں منفی سوچ کا خاتمہ ہوا۔
مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی کی ولادت ۳؍اپریل ۱۸۹۲ء میں میرٹھ
میں ہوئی۔ ابتدائی علوم کی تکمیل کے بعد جدید و قدیم علوم میں مہارت حاصل
کی، عالم اسلام کے نام ور عالم و مفکر مجدد اسلام امام احمد رضا محدث
بریلوی(۱۸۵۶ء۱۹۲۱-ء)کی شاگردی اختیار کی اور خلافت و اجازت سے سرفراز
ہوئے۔آپ ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ دعوت دین کا وہ جذبۂ صادق پیدا ہوا جس
نے مبلغ اسلام کو تاعمر سرگرم تبلیغ رکھا۔آپ نے دعوت و تبلیغ کے مختلف جہات
پر مثالی کام کیا۔ ۱۹۱۹ء تا ۱۹۵۴ء یورپ، افریقا، ریاست ہاے متحدہ امریکا
اور جنوبی ایشیا کے بہت سے ملکوں میں تبلیغ کی۔ مساجد، مدارس، اسلامک
سنٹرز، لائب ریریز، ہاسپٹل، یتیم خانے قائم کیے۔نومسلموں کی تربیت کے
انتظامات کیے، عربی، اردو، انگریزی میں درجنوں کتابیں لکھیں۔ دہریت، سرمایہ
داریت، لادینیت کے خلاف عالمی مہم چلائی، متعدد رسائل جاری کروائے۔ آپ کے
ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں دنیا کی
نامی گرامی شخصیات بھی شامل ہیں۔
۱۹۲۳ء میں سیلون کے عیسائی وزیر مسٹر ایف کنگن بری نے اسلام قبول کیا،
۱۹۳۶ء کے بعد کے عرصے میں مشہور امریکی سائنس داں جارج انٹن بیوف نیز
واشنگٹن میں ۳۶؍انگریز پروفیسرز نے اسلام قبول کیا،آپ کی کاوش سے بورنیو کی
شہ زادی پرنسس گلڈزپلیمر، ماریشس کے گورنر مروات، ٹرینی ڈاڈ (لاطینی
امریکا) کی خاتون وزیر مریف ڈونوا فاطمہ ،ڈاکٹر احمد فلپائن جیسی نام ور
شخصیات حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔آپ نے عیسائی مشنریز کے زیر اثر مرتد ہو جانے
والے افراد، نیز قادیانیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی جس کے نتیجے میں
۱۸؍ہزار سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔
۲۲؍ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ/۲۲؍اگست ۱۹۵۴ء کو آپ کا وصال ہوا، جنت البقیع مدینہ
منورہ میں دفن ہوئے، اور آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی:
علیم خستہ جاں، تنگ آگیا ہے دردِ ہجراں سے
الٰہی کب وہ دن آئے کہ مہمان محمد ﷺ ہو
|