قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی ؒکے
والدگرامی حضرت مولاناشاہ عبدالعلیم صد یقی کا سلسلہ ء نسب 38 ویں پشت میں
خلیفہء بلافصل سیدنا حضرت ابو بکرؓسے جا ملتا ہے ،7 اولادیں ہوئیں جن میں 4
بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں ، شا ہی دربار میں قا ضی القضات کا منصب آپ کے
خاندان کو حاصل رہا، حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؓ نے نا صرف ہندوستان بلکہ
دنیا کے بیشتر ممالک میں مدارس دینیہ قائم کیے آپ ؒکاانتقال 12 اگست 1954ء
کو مدینہ منورہ میں ہوااورآپؒ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا ۔
مبلغ اعظم حضرت شاہ عبدالعلیم صد یقی کا شمار بھی بر صغیر کے چند نامور
علماء دین میں ہوتا تھاآپؒ 13 اپریل 1892ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی ۔ درس نظامی کی سندھ جامعہ قو میہ میرٹھ
سے حاصل کی ، اٹاوہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا ،1917ء میں ڈویژنل کالج میرٹھ
سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔آپ ؒکو بچپن ہی سے روحانیت سے دلچسپی تھی اور کچھ
گھر کے پاکیزہ ماحول کا تقاضا تھا وہ بر صغیر کے بے بدل عالم دین اور
روحانی شخصیت حضرت احمد رضا خان (اعلیٰ حضرت بریلوی ) کی خدمت میں حاضر
ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی بعد میں اعلیٰ حضرت نے انہیں خلافت کے اعزاز سے
نوازا۔
حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒمتعد د زبانوں پرعبوررکھتے تھے انہوں نے پوری
دنیا کا تبلیغی دورہ کیا ۔ انگلستان ،فرانس ، اٹلی ، گیانا، سعودی عرب
،ٹرینی ڈاڈ، ٹویاگو، امریکہ ، کینیڈا، فلپائن ، سنگا پور ، ملا ئیشیا،
تھائی لینڈ ،انڈو نیشیااور سری لنکا کا دورہ کرکے تمام مذاہب کے لوگوں کو
اسلام کی دعوت دی پاکستان کے مراکش کے غازی عبدالکریم، فلسطین کے مفتیء
اعظم سید امین الحسینی ، اخوان المسلمین مصر کے قائد شیخ حسن الناصر ، سری
لنکا کے جسٹس ایم مروانی ، کولمبو کے جسٹس ایم ٹی اکبر ، سنگا پور کے رہنما
ایس این دت اور مشہور ڈرامہ نگار جار ج برنارڈ شا سے ان کی ملاقاتیں ہوئی
۔آپؒنے متعدد ممالک میں خوبصورت مساجد بھی تعمیر کرائیں جن میں جامع مسجد
حنفیہ کولمبو ،مسجد ناگریا جاپان قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے عر بی یونیور سٹی
ملائیشیا،پاکستان نیوز، مسلم ڈائجسٹ ،ٹرینی ڈاڈ مسلم اینو ول کی بنیاد رکھی
، سنگاپورمیں تنظیم بین المذاہب قائم کی ۔قیام پاکستان سے قبل اہلسنت کی
طرف سے بلائی گئی آل انڈیا سنی کانفرنس میں شر کت کی اور تحریک پاکستان کی
حمایت میں تقریر کی ۔ مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقیؒ صرف مبلغ ،مقر ر و خطیب
ہی نہ تھے منصف بھی تھے انہوں نے ذکر حبیب (دو حصے) ،کتاب تصوف ، بہار شباب
، احکام رمضان ، اسلام کی ابتدائی تعلیمات ، مکالمہ جارج بر ناڈشا، مرزائی
حقیقت سمیت بے شمار کتابیں تصنیف کیں۔ حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒکے دینی
وسیاسی کارنامے روزروشن کی طرح عیاں ہیں،حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ نے
جدیدوسائل کے بغیردنیابھرکادورہ کیا،افریقہ سے یورپ تک مساجد ،مدارس اور
دینی ادارے آج بھی ان کی قدروقیمت کااحساس دلاتی ہیں،عقیدہء ختم نبوت سے ان
کی وابستگی بے مثال تھی، حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ میرٹھی کاعشق رسول ﷺ
اپنی انتہاپرتھاانہیں درباررسالت ﷺ ایسی وابستگی اور نسبت تھی کہ وہ اس
نسبت اور تعلق کے آگے ہرتعلق کوکم تر سمجھتے تھے،ایک طرف انہیں قطب مدینہ
حضرت ضیاء الدین مدنی سے بالواسطہ نسبت حاصل تھی تو دوسری جانب وہ اور ان
کے بڑے بھائی اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمدرضا فاضل بریلوی ؒ کے خلفاء تھے۔
اعلیحضرت امام الشاہ احمدرضاؒ نے انہیں سفرحرمین سے واپسی پر نہ صرف
اپناقیمتی جبہ عطاکیا بلکہ ان کی شان میں اشعار بھی کہے۔آپ ؒ کی علمی وفکری
استعداد کاعالم یہ تھاکہ یورپ کے رئیس المتکلمین جارج برنارڈ شااور کیمسٹری
کے عظیم سائنسدان آئن اسٹائن سے ان کے مکالمے آج بھی تاریخ کاحصہ ہیں،انہوں
نے بین المذاہب مکالمے کوفروغ دیااور اﷲ کے ماننے والوں کواﷲ کے نہ ماننے
والوں کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں کیں،یہ ان کا فیض
تربیت ہی تھاکہ پاکستان میں جب بھی فرقہ واریت کے فتنے نے سراٹھایاآپؒ کے
فرزندارجمندحضرت علامہ شاہ احمدنورانی ؒ نے اس کی سرکوبی کے لئے قائدانہ
کردار اداکیااور متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل جیسے پلیٹ فارم تشکیل
دے کر تمام مکاتب فکر کوان پر جمع کیا۔ افریقہ کے دوردرازکئی خطے ایسے ہیں
کہ جہاں آج بھی بے شمار سفری وسائل ہونے کے باوجود پہنچنا انتہائی دشوار ہے
لیکن مبلغ اعظم شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ بے شمار صعوبتوں کوبرداشت کرتے ہوئے
ان علاقوں میں پہنچے اور مدارس مساجد کی بنیاد ڈالی،فلپائن اور دیگر ممالک
میں آج بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ کے نام سے
پہچانی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کاایساعبورتھاکہ ان کی روانی اور
برجستہ گفتگوسن کر بڑے بڑے انگریز دانشور ششدر رہ جایاکرتے تھے اور یہ
سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ ہندوستان کاایک مسلمان کیونکر اتنی شستہ
،بامحاورہ اور بلند پایہ انگریزی بول سکتا ہے ، اس کے علاوہ بھی انہیں
دنیاکی کئی زبانوں پر عبورحاصل تھا۔ تحریک پاکستان کے موقع پر انہوں نے
علماء کی صف میں ہراول دستے کاکردار اداکیا، قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ قیام
پاکستان سے پہلے حج کے موقع پر ان کودنیابھر مشاہیر اور زعماء کی ذہن سازی
کے لئے بھیجا اور انہوں نے دنیابھر کے علماء مشائخ اور دیگر اہم شخصیات
کوپاکستان کے قیام کی ضرورت سے نہ صرف آگاہ کیابلکہ ان کی اخلاقی مددبھی
حاصل کی جس پر قائد اعظم نے انہیں سفیراسلام کاخطاب پیش کیا۔قیام پاکستان
سے ابل اور مابعدانہوں نے کئی مرتبہ بانی ء پاکستان محمدعلی جناح ؒ کو
نوزائیدہ مملکت میں اسلام کے نظام کے قیام کے اصولوں سے آگاہ کیا۔
|