امریکہ، اسرائیل، ایران اور سوء تفاہم

بدھ 16 اکتوبر 2013ء کو جنیوا میں اسلامی جمہوریہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دن ایک مشترکہ اعلامیے کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ آئندہ مذاکرات تین ہفتوں بعد متوقع ہیں۔ ایران کی بھرپور کوشش ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے ایران کے متعلق عالمی برادری کی غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کو دور کیا جائے۔ اگر یہ مذاکرات شفاف طریقے سے انجام پاتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا بنایا ہوا محاذ کافی حد تک پسپا ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ موجودہ دور میں امریکہ اور اسرائیل کے لئے یہ پسپائی ایک گہرے گھاو کا درجہ رکھتی ہے۔ ان چند سالوں میں امریکہ اور اسرائیل کو مختلف سیاسی اور نظریاتی میدانوں میں ایران کے ہاتھوں مسلسل سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کے لے پالک جہادیوں کی نقاب کشائی، طاغوت کے مقابلے میں شام کی استقامت، حزب اللہ کی مقبولیت، آل سعود اور آل خلیفہ جیسے ڈکٹیٹروں اور آمروں کی امریکی و اسرائیلی حمایت کا بھانڈا پھوڑنا اور دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو ایک شیطان کے طور پر پہچانوانا، یہ سب ایران کی کامیابیوں کی داستان ہے۔

یاد رکھیں امریکہ، اسرائیل اور ایران کے درمیان کسی قسم کا سوء تفاہم بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان کی باہمی دشمنی اور مخالفت ٹھیک ٹھاک نپی تلی اور سوچی سمجھی ہے۔ ان کے درمیان شخصیات اور حکومتوں کی تبدیلی کے بجائے عقائد اور نظریات کا اختلاف ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ادارے جس اسلامی جمہوریہ کے نظریئے کو مارنا اور مٹانا چاہتے ہیں، ایران اس نظریئے کی بقا اور ارتقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ جنگ صر ف لفظی، کلامی اور کتابی نہیں ہے بلکہ اس جنگ کی تاریخ کے اوراق ایران کی پارلیمنٹ میں بم دھماکوں، ایران کے مسافر طیارے کو تباہ کرنے، ایرانی سائنسدانوں کے قتل اور صدام کی جارحیت سے عبارت ہیں۔

اگر آپ کو یاد ہو تو تدبیر و امید کی بات کرنے والے ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی نے 04 اگست 2013ء کو جب تہران میں پارلیمنٹ ہاﺅس میں حلف اٹھایا تھا تو تقریب حلف برداری میں امریکہ اور اسرائیل کے سوا تمام ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس عراقجی نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں کسی ایسی اہم تقریب میں مدعو کیا جائے۔ مجلس شوریٰ کے اسپیکر علی لاریجانی نے ڈاکٹر حسن روحانی سے حلف لے لیا تو اس کے بعد اپنے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’’میں ایران کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی کوشش کروں گا، اگر آپ (عالمی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے) ایک تسلی بخش ردعمل چاہتے ہیں تو آپ کو پابندیوں کی زبان میں بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ آپ کو احترام کے ساتھ مخاطب ہونا چاہیے۔"

25 ستمبر 2013ء کو میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اڑسٹھویں اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ ملت ایران علاقائی اور عالمی طاقتوں سے باہمی احترام کی بنیاد پر گفتگو اور تعاون کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کو براہ راست مخاطب کرکے کہا کہ اگر وہ تہران سے اپنے اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو جنگ پسند گروہ کے کوتاہ مدتی مفادات کو نظر انداز کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کی دفاعی اسٹریٹیجی میں جوہری ہتھیاروں اور عام تباہی کے اسلحے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ہتھیار ہمارے دینی و اخلاقی عقائد سے متصادم ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر واضح کیا کہ ایران کے مسلمہ، فطری و قانونی ایٹمی حقوق کو تسلیم کر لینا قائد انقلاب اسلامی کے بقول ایٹمی مسئلے کا سب سے آسان اور بہترین حل ہے اور یہ بات محض سیاسی نعرہ نہیں ہے۔

اس اجلاس کے دوران ایرانی صدر کے ٹیکنیکل نرم رویے نے بین الاقوامی برادری کی رائے عامہ کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔ اسلامی جمہوريہ ايران کے وزير خارجہ جواد ظريف نے واپسی پر ایک انٹرویو میں کہا کہ شايد ہی دنيا کے کسی اہم ملک کا وزير خارجہ ايسا رہا ہو، جس نے ايرانی وفد سے ملاقات کی خواہش ظاہر نہ کی ہو۔ سیاسی دنیا میں ٹیکنیکل نرم رویہ اسی رویے کو کہا جاسکتا ہے جو دشمن کی زبان سے سب کچھ اگلوا دے اور دشمن کے ارادوں کو بے نقاب کر دے۔ زبان چاہے دوست کی ہو یا دشمن کی، اپنا کام کر دکھاتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے گیارہویں صدارتی انتخابات میں 50.70 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے امیدوار ڈاکٹر حسن روحانی کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو "بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا" کہتے ہوئے یہ بھول گئے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمام تر سفارتی آداب اور سیاسی اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دل کھول کر ایران کے خلاف الزامات لگائے اور حواس باختگی کے عالم میں دھونس اور دھمکی کی زبان استعمال کرتے چلے گئے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دعویٰ کیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام صرف اور صرف ایٹم بم بنانے کے لئے ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی دنیا کو دھوکہ دینا چاہتے ہيں۔ جھوٹ اور الزامات کی بوچھاڑ کے دوران نیتن یاہو کی زبان سے ان کے دل کی یہ بات بھی پھسل کر نکل آئی کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لئے اکیلے ہی کارروائی کرنے پر تیار ہیں۔

عالمی سیاسی ماہرین اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کے دوران ایران کو اس کے حریفوں پر واضح سیاسی فتح حاصل ہوئی۔ ایران کی اس سیاسی فتح سے جہاں اسرائیل اور عرب ریاستوں نے اپنی تنہائی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، وہیں امریکی صدر نے بھی ایرانی صدر کو ٹیلی فون کرنا ضروری سمجھا۔ صدر اوباما کا یہ ٹیلی فون دراصل ایران کی سیاسی فتح کا پانسہ پلٹنے کی ایک ادنٰی سی کوشش تھی اور بس۔ اس حقیقت کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یکم اکتوبر2013ء کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب امریکی صدر سے وائٹ میں ملاقات کی اور صدر اوباما کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے نرم گوشہ ظاہر کرنے پر تشویش کا اظہار کیا تو اس موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ، ایران کے جوہری پروگرام پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے اور امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے فوجی کارروائی سمیت کسی بھی آپشن کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔

امریکی صدر اوباما کا نیتن یاہو کو یہ یقین دلانا اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ "ایک مضبوط اسلامی ایران" کا وجود صرف اسرائیل کے لئے ہی نہیں بلکہ امریکہ کے لئے بھی خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جو ایران پر الزامات لگا رہا ہے وہ بھی دیرینہ دشمنی پر مبنی ہیں اور امریکی صدرنے جو ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پیش رفت کی بات کی ہے وہ بھی ایک دشمن کی مکارانہ پیشکش ہے۔ جنیوا مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے اگر عالمی برادری امریکہ اور اسرائیل کے مفادات سے ہٹ کر اپنی ترجیحات کو طے کرے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ایران کے ساتھ رویہ اختیار کرے تو اس کا ثمر پوری عالمی برادری کو ملے گا اور اگر امریکہ اور اسرائیل کی لاٹھی سے ہی ایران کو ہانکنے کی کوشش کی گئی تو اس کا خمیازہ بھی پوری عالمی برادری کو بھگتنا پڑے گا۔

نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 32502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.