مشعال حسین ملک
ہر سال کشمیری 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن سے آج تک
بھارتی فوج کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے جبکہ بھارت کشمیر
میں ریاستی دہشت گردی کہ بدترین ریکارڈ میں مسلسل اضافہ کیے جارہا ہے مگر
کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی تحریک آزادی
کشمیر کے پروانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکی۔ اس دفعہ بھی 27 اکتوبر کو یوم
سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے ساری مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال
کی جارہی ہے۔ تاہم کشمیر پر بھارتی فوجی قبضے کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر
صرف مقبوضہ کشمیر نہیں آزاد کشمیر سمیت ساری دنیا بھر میں کشمیری منائیں گے
کیونکہ کشمیر میں بھارت کی فوج کشی تقسیم برصغیر کے اصولوں اور کشمیری عوام
کے جذبات کے سراسر منافی تھی۔ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے ضمن میں کشمیریوں
کے وکیل کے طور پر اقوام عالم میں ایک واضح موقف ہے۔
27 اکتوبر کشمیر کی تاریخ کا بدترین دن ہے۔ اس دن کشمیر میں بھارتی فوجی
مداخلت ہوئی جس سے نہ صرف کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزادی کا آغاز ہوا بلکہ
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر شدید تنازع کی شکل اختیار کر
گیا جس کی وجہ سے کئی جنگیں بھی ہوئی۔ 64 برس گزر جانے کے باوجود بھارت نے
نہرو کا وہ وعدہ وفا نہیں کیا جو اس نے خود اقوام متحدہ میں کیا تھاکہ
کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ حق خودارادیت کے ذریعے کرینگے۔
تاہم ایک بات واضح رہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
تحریک آزادی کشمیر میں اتار چڑھاؤ تو آ سکتا ہے کیونکہ ساڑھے سات لاکھ سے
زائد بھارتی فوج نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا ہے مگر اس کے
باوجود بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کرسکی۔ اس لئے
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی لافانی ہے ۔ 27 اکتوبر کا دن کشمیر پر بھارتی
فوجی اور جبری قبضے سے آزادی کیلئے تجدید عہد کا دن ہے جس کا اظہار ہر سال
دنیا بھر میں کشمیری بھرپور طریقے سے کرتے ہیں۔ دنیا میں امن کی باتیں کرنے
والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کشمیر ایک متنازع اور انتہائی خطرناک علاقہ بن
چکا ہے کیونکہ یہاں سے اٹھنے والا چنگاری پورے جنوبی ایشیاء کو اپنی لپیٹ
میں لے سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں جوہری ملک ہیں اور اس لئے یہ
مسئلہ انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اب اس مسئلے کا حل بھی انتہائی
ناگزیر ہو چکا ہے۔
بھارت ایک بڑی جمہوریہ کا دعویدار ہونے کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد کو
دبانے کے لئے اپنی طاقت کا بے تحاشا استعمال کررہا ہے۔ حالانکہ جہاں تک
تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے تو بھارت ساڑھے سات لاکھ کے بجائے پندرہ لاکھ
فوج بھی کشمیر بھیج دے جدوجہد آزادی ختم نہیں ہوسکتی۔ آج تک کشمیری قوم
بھارتی فوج کے ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد آزادی کررہی ہے حالانکہ ہم بھارت سے
اس کا کوئی جائز حصہ الگ نہیں کرانا چاہتے بلکہ ہم آزادی جموں و کشمیر
کیلئے اسی طرح جدوجہد کررہے ہیں جس طرح ہندوستان کی آزادی کیلئے بھارت نے
انگریزوں کیخلاف تحریک چلائی تھی۔ دنیا اور پاک و ہند کے حالات یہ تقاضا
کررہے ہیں کہ جہاں کہیں بھی تنازعہ ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی قوم اپنے
پیدائشی حق سے طاقت کی بنیاد پر محروم کی جارہی ہو وہ حق ان کا بحال کیا
جائے ورنہ
ظلم رہے اور امن بھی ہو
تم ہی کہو کیسے ممکن ہو |