ایک شخص بڑا بھرم باز تھا، بڑی بڑی باتیں کیا کرتا
تھا حالانکہ معاملہ ’’بات کروڑوں کی،دکان پکوڑوں کی‘‘ والا تھا۔ ایک روز
کچھ محلے دار اس کے پاس آئے اور کہا، فلاں افسر کے پاس ایک کام پھنسا ہوا
ہے، سنا ہے تمہارے ان سے بڑے اچھے تعلقات ہیں، مہربانی کرکے ہمارے ساتھ چلو
اور مسئلہ حل کرادو، وہ بولا ’’بھائیو! یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے،
وہ افسر تو مجھے دیکھتے ہی کرسی سے کھڑا ہوجاتا ہے…… قصہ مختصر، سارے لوگ
اس افسر کے دفتر کی طرف چل پڑے، وہ بھرم باز راستے بھر انہیں اپنے کارنامے
سناتا رہا، جب دفتر پہنچے تو اس نے سب کو باہر کھڑا کردیا اور خود نے دفتر
میں گھستے ہی افسر کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے، افسر کو خوب مکھن لگایا، بہرحال
منت سماجت کرکے اس نے آخر کار محلے داروں کا مسئلہ حل کراہی دیا، مونچھوں
کو بل دیتے ہوئے بڑے فاتحانہ انداز میں دفتر سے باہر آیا، ایک شخص کو فائل
پکڑاتے ہوئے کہا ’’افسر مان ہی نہیں رہا تھا، میں نے کھری کھری سنائی تو بے
چارہ ہاتھ جوڑکر کھڑا ہوگیا۔‘‘
اس بھرم باز نے منتیں ہی سہی مگر کام تو نکلوالیا تھا لیکن لوگ کہہ رہے ہیں
ہمارے وزیراعظم نے ڈانٹیں بھی سنیں اور ملا بھی کچھ نہیں۔
نوازشریف کی امریکا یاترا کامیاب رہی یا ناکام؟ ہم کوئی سفارتی امور کے
ماہر تو ہیں نہیں جو اس پر ’’ماہرانہ‘‘ رائے دے سکیں، البتہ لیگیوں کے لٹکے
ہوئے چہروں سے معاملہ کچھ کچھ سمجھ میں ضرور آجاتا ہے۔ میاں صاحب کی امریکا
روانگی سے قبل بڑے بڑے دعوے کیے جارہے تھے، قوم کو بتایا جارہا تھا کہ صدر
اوباما تو میاں صاحب سے ملاقات کے لیے مرے جارہے ہیں، وزیراعظم کے واشنگٹن
پہنچنے کی دیر ہے، پاکستان کی ساری شکایتیں دور کردی جائیں گی، مگر
نوازشریف کی اوباما سے ملاقات کے بعد سارے لیگی ’’چپ شاہ‘‘ بنے ہوئے ہیں،
کوئی بھی وزیراعظم کے دورہ امریکا پر زبان ہلانے پر تیار نہیں۔ اگر اس دورے
سے پاکستان کو ذرا سا بھی فائدہ پہنچا ہوا ہوتا تو آج لیگی بھنگڑے ڈال رہے
ہوتے۔ ان کی خاموشی اور مردہ چہرے بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب کی جھولی میں
ندامت کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی حکام کے دلوں میں پاکستان کے لیے کتنی عزت
ہے اور پاکستانی حکمرانوں میں کتنی خودداری ہے اس کا دورے کے آغاز ہی میں
پتا چل گیا تھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستانی سربراہ
امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کے لیے خود چل کر محکمہ خارجہ گیا حالانکہ اس
سے قبل وزیرخارجہ چل کر پاکستانی وزیراعظم یا صدر کے پاس آیا کرتے تھے۔
وزیراعظم نے ڈرون حملے بند کرانے کے اعلان کے ساتھ امریکا کا دورہ کیا تھا،
حکومتی حلقے سینے پر ہاتھ مارکر کہتے پھر رہے تھے کہ اب ڈرون حملے نہیں ہوں
گے، مگر امریکا نے اس معاملے پر صاف جواب دے دیا، ڈھٹائی کی انتہاء دیکھیے،
امریکا نے حملے بند کرنے کا کوئی ٹائم فریم تک نہیں دیا، اگر وہ 30 فروری
کی تاریخ دے دیتا تو بھی کچھ عزت رہ جاتی لیکن اخباری رپورٹوں کے مطابق
وزیراعظم کی جانب سے حملے روکنے کی استدعا پر اوباما نے ایک لفظ تک نہیں
کہا، یعنی انہوں نے وزیراعظم کی بات سنی ان سنی کردی۔ عافیہ صدیقی کے
معاملے پر بھی قوم کو بہت سی امیدیں دلائی گئیں، ایسا تاثر دیا گیا گویا
نوازشریف دختر پاکستان کو اپنے ساتھ وطن واپس لائیں گے مگر یہ خبر قوم پر
بم بن کر گری کہ میاں صاحب نے اوباما سے ملاقات میں عافیہ صدیقی کا سرے سے
ذکرہی نہیں کیا۔ وفاقی وزیرپیداوار رانا تنویر نے اس پر کہا ہے کہ اگر
عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھاتے تو اسٹرٹیجک ایشوز پر بات رہ جاتی۔ اگر لیگی
قیادت میں عافیہ پر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں تھی تو پھر
طرم خان بننے کے دعوے کیوں کیے گئے تھے۔ ہم اپنے ایک شہری پر ظلم کے خلاف
رو تک نہیں سکتے۔ دوسری طرف امریکی حکام کو دیکھیں انہوں نے ہر ملاقات میں
ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ اٹھایا۔ ہم اپنی شہری کا بڑی بے شرمی سے تماشا
دیکھ رہے ہیں اور وہ اپنے جاسوس کو فراموش کرنے پر تیار نہیں، قوم کو بتایا
گیا ہے ’’وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں امریکا پر واضح کردیا ہے کہ آفریدی
کا معاملہ عدالت میں ہے اور وہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گی، حکومت عدالتی
معاملات میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی‘‘ بیان بہت خوبصورت ہے، مگر قوم
کو ریمنڈڈیوس کا قصہ یاد ہے، اس کا کیس بھی تو عدالت میں تھا، اسے جس طرح
رہائی دلائی گئی وہ بھی سب جانتے ہیں، دیکھتے ہیں حکومت اس نئے ریمنڈڈیوس
کو کب تک پاکستان میں روک سکتی ہے؟
ہمارے ہاں امریکا کے حوالے سے دو بنیادی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جس کی
وجہ سے آقا اور غلامی کا یہ سارا چکر چل رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ
پاکستان میں اب بھی کئی حلقے ایسے موجود ہیں جو امریکا کو دوست سمجھتے ہیں،
بدقسمتی سے پالیسی سازی کا سارا اختیار انہی حلقوں کے پاس ہے۔ یہ لوگ اقلیت
میں ہیں کیونکہ خود امریکی سروے رپورٹوں کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت
امریکا کو دوست نہیں سمجھتی ہے۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود ان امریکا نواز
حلقوں نے پوری قوم پر امریکا کو مسلط کررکھا ہے۔ ماضی کے تجربات ہمارے
سامنے ہیں، امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں رہا، اس نے ہمیشہ ہمیں ٹشو
پیپر کی طرح استعمال کیا ہے، اس کی مثال چرسیوں جیسی ہے جن کے بارے میں کہا
جاتا ہے ’’چرسی یار کس کا، کھاپی کے کھسکا‘‘ امریکا بھی مطلب تک ساتھ ہوتا
ہے۔ اب بھی آپ دیکھیے گا، جس روز آخری امریکی فوجی افغانستان سے نکلا وہ
پاکستان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ دوسری بات، ہمیں یہ سبق پڑھادیا
گیا ہے کہ پاکستان امریکا کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہ بھی صاف جھوٹ ہے، دنیا
میں بہت سے ملک امریکا کے سہارے کے بغیر چل رہے ہیں، پاکستان بھی امریکا کے
بغیر نہ صرف یہ کہ چل سکتا ہے بلکہ بہت تیز دوڑ سکتا ہے۔ یہ ملک لولالنگڑا
نہیں، سارا فالٹ قیادت میں ہے۔ اگر ان دو باتوں کے حوالے سے ہمارا ذہن صاف
ہوجائے تو غلامی کا چکر کافی حد تک کم ہوسکتا ہے، وگرنہ وائٹ ہاؤس جاکر
جوتے اور پیاز کھانے کا سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ |