لو جی پاکستان کے وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر چلے گئے۔
اﷲ خیرکرے۔یہ امریکی صدر بھی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں کیونکہ اقتدار کے
آخری دور میں جب میاں صاحب امریکہ یاترا کو گئے تو صدر امریکہ نے انتہائی
بے ادبی اور گستاخی کا مظاہرہ کیاتھا مگر اب وہ صدر نہیں۔ جہاں تک میرا
ناقص مطالعہ ہے امریکی صدور جسمانی طور پر جداجدا ہیں لیکن انکے اند ر ایک
ہی روح مصروف عمل رہتی ہے۔ مسلمانوں کے بارے انکے نظریات میں کبھی تبدیلی
واقع نہیں ہوئی۔ مسلمان تو مسلمان غیرمسلموں کو بھی انہوں نے جبر و تشدد کا
نشانہ بنایا ۔ انکی یہ منطق کسی کی سمجھ میں شائد آئی ہوکہ امریکہ کی قومی
سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ جاپان پر ایٹم بم کا گرانا تو خیر امریکی شرافت
اور انسانیت کی فلاح کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر بے چارے ویت نام والوں کو
کیوں مارا؟ فلسطین کے مسلمانوں کے قتل عام میں امریکہ شامل ہے، کشمیر کے
مسلمانوں کے قتل عام میں امریکی شرافت کارفرما ہے، پاکستان کے وزیراعظم کا
قتل اور پاکستان کے جنرل ضیاء الحق کا قتل ، محترمہ بے نظیر کا قتل،
افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کا قتل،عراق کے مسلمانوں کا قتل عام ،مختلف
امریکی صدور کے ادوار میں وقوع پذیر ہوئے۔ ان تمام واقعات میں امریکہ ملوث
ہے۔وزیراعظم کا قتل اور دوسرے کی حکومت کا تختہ الٹنا تو محض اس بنا پر ہوا
کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا گناہ کبیرہ کیا کہ جس سے
امریکہ کی قومی سلامتی کو اپنی تباہی کا کینسر لاحق ہوا۔ ہمارے آن ایر
مفکرین بھی بڑے بھولے بھالے ہیں۔ میں نے پی ٹی وی پر محترم ڈاکٹر ظفر اقبال
چیمہ اور جناب ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم صاحب جناب وزیراعظم کے دورہ سے کچھ
توقعات اور دیگر معاملا ت پر گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے امریکہ نے اربوں
کھربوں ڈالر افغانستان پر آتش و آہن کی برسات پر خرچ کردیئے اگر وہ ان غیر
ترقی یافتہ علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرتا تو اس علاقے کے عوام کی
تقدیر بدل جاتی یہ تو ایسی بات ہے جیسے ہمارے یہاں انتخابی مہمات میں
امیدوار کروڑوں روپے کے بینر، پوسٹر اور پانا فلیکس کے پوسٹر بنواتے ہیں
اور عوام کہتے ہیں کہ یہ ملک و قوم کے خیر خواہ کسی بھوکے کو ایک وقت کا
کھانا کھلادیتے، کسی غریب طالب علم کو کتابیں خرید دیتے ، بیماروں کے لیئے
دوا کر انتظام کرتے غرضیکہ اسی طرح کی ڈھیر ساری باتیں زیر بحث رہتی ہیں،
یا ایسے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ پر غیر شرعی رسومات کی ادائیگی پر پیسہ
پانی کی طرح بہایاجاتا ہے، آتش بازی اور مہندی جیسی ہندوانہ رسومات کے
انجام دینے پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے جسے بعض لوگ شیطانی عمل قرار
دیتے ہیں اور کہتے ہیں اسی پیسہ سے یتیموں ، بیواؤں اور ضرورت مندوں کی
احتیاج پوری کی جاتی تو یہ سرمایہ اﷲ کے پاس محفوظ ہوجاتا۔ مگر شیطان کہاں
جاتا ؟ اگر امریکہ اسے مایوس کردے تو پھر تو کہیں کا نہ رہا۔ امریکہ شیطا ن
کی قدردانی میں یکہ و تنہا ہے۔شیطان نے اپنی خلافت پورے اعزاز کے ساتھ
امریکہ کو دے دی۔ جبھی تو لوگوں نے امریکہ کو شیطان اعظم تسلیم کرلیا۔ بھلا
شیطان سے انسانی فلاح کی امید رکھنا بھی کوئی دانائی ہے؟ بھلا وہ اپنی فطرت
اورخمیر کے خلاف کیوں کام کرنے لگا۔ شیطانی کام میں پاکستان کی اتحادی
خدمات کے عوض 32 کروڑ ڈالر مل گئے۔ صوبہ پنجاب دیوالیہ ہے سٹیٹ بنک سے اوور
ڈرافت لے چکا ہے۔ اب یہ جو بتیس کروڑ ڈالر ملے تو وزارت خزانہ کی بتیسی نظر
آئی ۔ جھگیوں والے بڑے چھوٹے صبح آرام سے نکلتے ہیں اور شام کو انکے خزانے
میں زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ عمدہ کھانے بھی مل جاتے ہیں
انہیں ان کھانوں کے حرام اور حلال ہونے سے کوئی سروکار نہیں۔ جب بھی انہیں
دیکھو کام کوئی نہیں کرناصرف دوردراز تک کے دورے ہوتے ہیں۔ اپنی ضروریات کے
لیئے بابا اﷲ کے نام پر دیدوکا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
لیکن ایک وصف ہے کہ انکی عورتیں اور لڑکیا ں پیسہ دینے والوں سے ہاتھ نہیں
ملاتیں اور نہ مسکراہٹیں بکھیر کر بھیک مانگتی ہیں۔پاکستان اپنے وسائل کے
لحاظ سے ایک امیر اور خود کفیل ملک ہے جو اپنے عوام اور دنیا کو بہت کچھ دے
سکتا ہے۔ مگر حکمرانوں کو ہر کام میں امریکہ سے پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے۔
جب تک امریکہ منظوری نہ دے ایران سے گیس نہیں لے سکتے، چین سے توانائی نہیں
لے سکتے، تھر کا کوئلہ بھی نہیں نکال سکتے۔کیا ہے کوئی جو جرات رندانہ
رکھتا ہو اور اپنی خود ی کو بلند کرسکتا ہو؟ یا اپنے عوام کا خون نچوڑ نے
کے ان کی ہڈیوں کا جوس ہی نکالنا شیروں کا کام رہ گیا۔ کچھ ہفتے قبل چین کے
دورے کے نتائج پر پاکستان کے عوام بڑے مطمئن تھے ۔یہ کھٹکا ضرور تھا چین کا
تعاون امریکہ کے پیٹ میں مروڑ پیدا کرے گا اور وہی ہوا۔ چین ایک قابل
اعتماد دوست ہے جس نے ہمیں دفاعی طور پر وہ کچھ کرکے دیا ہے کہ آج پاکستان
بھاری دفاعی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے جنہیں پاکستان برآمد کرکے
زر مبادلہ کما رہاہے۔ لیکن اسکے مد مقابل ہمارے بزرجمہر امریکہ کی کوئی ایک
مثال پیش کردیں۔ وزیر اعظم امریکہ سے کیا لائیں گے؟ وزیراعظم امریکہ کی
معراج سے واپس تشریف لائیں گے تو سبھی بڑے چھوٹے ان کے گرد ہوکر سوال کریں
گے کہ جناب کیا لائے؟ تو وہ فرمائیں گے کہ قرضوں کا بوجھ،بھاری سود، تمہارے
روپے کا ستیاناس کرکے دیوالیہ ہونے والے امریکی ڈالر کو حسب وعدہ اعلیٰ
مقام دے آیاہوں نیز امریکیوں کو اس ملک میں پہلے سے زیادہ ایسی آزادی کہ
گویا یہ ملک ان کا اپنا ہے ۔ڈالروں کے بورے بھی لایا ہوں لیکن یہ بورے عوام
کے لیئے نہیں خواص کے لیئے ہونگے جو پھر سے غیرملکی بنکو ں میں چلے جائیں
گے اور عوام کو غیرملکی قرضوں کا بوجھ اور انکا سود ادا کرنا ہوگا۔ غیروں
سے امیدیں اور اﷲ سے ناامیدی؟ کیا اﷲ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ میرا در
چھوڑ کر کفار کے در پر جاکر مانگو؟ اب ہم کسی کو دین کی کیا تبلیغ کریں گے؟
آگے سے جواب ملے گا ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں؟ ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے
ہمیں دین سکھانے آئے ہیں۔ مومنوں کو شان کئی ملا کرتی ہے۔ مومن کی تو تدبیر
ہی اسکی تقدیر ہے۔ کبھی سوچا کرو کہ وہ کون تھے جنکے پاس دوگھوڑے، چھ زرہیں
اور آٹھ زنگ آلود تلواریں تھیں، مگر انہیں اپنے کالی کملی والے آقا ﷺ اور
اپنے رب کریم پر بھروسہ تھا تو قیصرو کسریٰ اور شام کے خزانے مسلمانوں کے
قدموں میں پڑے تھے، کوئی زکوۃ لینے والانہ ملتا تھا۔ سبھی زکوۃ دینے والے
تھے۔ اچھا چلو امریکہ دفاعی امداد دے گا ۔ حکمرانو! بتاؤ کہ وہ امداد
امریکہ کی مرضی کے خلاف استعمال کرسکو گے؟جب ہم اﷲ کے دشمنوں سے امیدیں
وابستہ کریں گے تو اﷲ کی رحمت رک جائے گی۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے
حکمران اور امراء کی سوچ ہی نرالی ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ اپنے عوام
کو سہولیتیں دیں، ملک کی پیداواریں بڑھائیں۔ انسانی ضرورت کی ہر چیز ہمارے
ملک میں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے ۔پیداوارکو مزید بڑھا کربرآمدات میں
اضافہ کیا جائے۔سامان تعیش ، لگژری گاڑیوں کی درآمدات پر مکمل پابندی عائد
کیجائے۔ حکمران سرکاری خرچ پر غیرملکی دورے (سیر سپاٹے بند کردیں)پاکستان
کا سرمایہ فوری طور پر پاکستان میں لانے کا قانون بنائیں ۔ جو سرمایہ واپس
نہ لائے اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ لگایا جائے اور اسکے پاکستان میں موجود
اثاثے بحق عوام ضبط کیئے جائیں۔ جن کی اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کررہی
ہیں انہیں بلاتاخیر پاکستان میں لایا جائے۔ حکمران اور امراء پاکستان کے
ساتھ اپنی وفاداریوں کو شفاف بنائیں جو نظر بھی آئیں۔ اوربقول جناب مجید
نظامی علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے پاکستان کے حصول کے لیئے مکے کا
استعمال ضروری ہے۔ |