تجزیاتِ زندگی ہی دیتی ہے ہر فرد کو فرائض سے آگاہی
ریاست اگر افراد کے تابع ہو تو قوم کو دیتی ہے تباہی
ایک عرصہ ء دراز سے ہمارے معاشرے میں سیاست کو عبادت اور خدمتِ خلق جان کر
اختیار کرنے والوں کا قحط پڑا ہوا بے۔ ہر طرف بدامنی ، معاشی بدحالی ، رشوت
خوری ، ذخیرہ اندوزی ، کساد بازاری ، ظلم و جبر ، نا انصافی ، عدم تحفظ ،
دولت اور اختیارات کے ناجاہز استعمال کی لمبی داستانیں موجود ہیں۔ بدحالی
اور جہالت کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص خواہ وہ ان پڑھ ہے یا پڑھا لکھا ، اپنے
آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور اپنی ذات کے حوالے سے کسی بھی دوسرے
کے نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر اپنے فیصلے پر عمل کر دیتا ہے۔ نظام کی
بربادی کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اجتماعی ، مذہبی اور قومی فرائض اور اخلاقیات
کا جنازہ بھی پڑھ چکے ہیں۔ تیرہ سو سال پہلے ہم جس دورِ جہالت کو خیر آباد
کہ کر ایک مکمل اسلامی اور تحقیقی نظام میں داخل ہوئے تھے پھر آج گھوم پھر
کے اسی دورِ جہالت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ دنیا میں ہماری پہچان صرف اور صرف
ایک مفاد پرست قوم کی بن چکی ہے- اور معاشرے میں بہتری بزورِ عوامی تحریک
یا انقلاب کی صورت لازم ہو چکی ہے۔
کسی بھی تباہ حال ریاست یا قوم میں کوئی بھی عوامی تحریک یا انقلاب اس
ریاست یا قوم میں نوجوان نسل میں پائے جانے رجحانات اور ترجیحات کی مرہونِ
منت ہے اگر نوجوان نسل کی اکثریت تبدیلی یا بہتری کی خواہش رکھتی ہو تو اس
معاشرے میں بہتری کے خاطر خواہ امکانات موجود ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ خود مل
کر اپنا رہنما بنالیں یا پھر کوئی قد آور سیاسی شخصیت اپنے کردار اور
ترجیحات کی بدولت نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنالے۔ ارو ایک بھرپور عوامی
تحریک کی صورت ابھرے اور عوامی طاقت کے زور پر اپنی ترجیحات نافذ کردے اور
نئی آنے والی نسلوں کے لئے ایک مسحورکن اور فلاحی و نظام کی بنیاد رکھے
تاکہ آنے والی نئی نسلیں ان ترجیحات کو اپنے اندر استوار کرکے ترقی کی
منازل طے کریں اور دنیا میں شناخت اور اعلی مقام حاصل کرلے۔
١٤ اکست ١٩٤٧ ہماری انگریز اور ہندو سامراج سے آزادی کا دن ہے۔ اور اس دن
قائداظم محمد علی جناح اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور جدجہد
کی بدولت ایک مکمل اسلامی اور فلاحی ریاستِ پاکستان کا قیام عمل میں لایا
گیا۔ مگر قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی ہم اپنے عظیم قائد بانی ء
پاکستان سے محروم ہوگئے۔ اور اس محرومی نے ہمیں ایک مکمل اسلامی فلاحی
ریاست کی ترجیحات کے نفاز سے ہی محروم کر دیا۔ اور آج ٦٥ سال بعد بھی ہم
اپنے بنائے گئے اس بوسیدہ نظام میں بہتری کی امید نہیں دیکھتے۔ مگر گزشتہ ٥
سالوں میں پاکستان کی نوجوان نسل میں اس نظام کہ بدلنے کو خواہش اسطرح
پروان چڑھی کہ ہر طرف نوجوانوں کی تبدیلی سے بھر پور صدائیں گونجنے لگیں۔
تحریک کے آثار نظر آنے لگے اور مایوسیوں کی جگہ امیدوں نے لے لی۔ پھر اچانک
آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پھر وہی لوگ برسرِاقتدار آگئے جو گزشتہ ٦٥ سالوں سے
تھے۔ حیرانی ، پریشانی کی بات یہ کہ ١١ مئی ٢٠١٣ کع الیکشن میں جس نعرے اور
جس رہنما کی بدولت تاریخی ٹرن آءوٹ ٦٠ فیصد ہوا اسکو ملا تو صرف ایک بدحال
صوبے کی حکومت اور قومی اسمبلی میں چند نشستیں۔ پاکستان کے تاریخی الیکشن
میں تاریخی دھاندلی کی گئی پھر بھی تبدیلی کے علمبردار رہنما یہ کہتے ہیں
کہ انہوں نے الیکشن قبول کئے ہیں مگر دھاندلی نہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ
کہ وہ ٢٠١٨ میں آنے والے الیکشن کو تبدیلی کا ذریعہ بھی سمجھنے لگے ہیں اور
کہنے لگے ہیں کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔میرا خیال یہ ہے
کہ آپ اب دھاندلی نہیں روک سکے تو آگے بھی نیں روک سکیں گے معاف کیجئے گا
میرا اشارہ ہر دل عزیز ، تبدیلی کی علامت رہنما عمران خان کی قائدانہ
صلاحیتوں کی طرف نہیں بلکہ اس نظام کی پیچیدگیوں کی طرف ہے۔ اس بوسیدہ ،
غلیظ سیاسی ، جمہوری نظام کے ذریعے تبدیلی نہیں آہ سکتی خواہ ٹرن آءوٹ ١٠٠
فیصد ہی کیوں نا ہو جائے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مایوس کن اور بدتر
حالات میں عوامی تحریکیں ہی قوموں کے مستقبل بدلنے کی بہترین ضامن ہیں۔ اور
اس نظام پر مزید بھروسہ ١٨ کڑور عوام کی امنگوں اور قائداظم کے خوابوں کا
قتلِ عام ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ملک کی تمام کرپٹ مفاد پرست سیاسی
جماعتیں ، بیوروکریسی اور دیگر مفاد پرست عناصر کی توپوں کا آپ کی طرف ہے۔
اور ان حالات میں بھی آپ کی اس موجودہ نظام سے بہتری کی امید کرنا سمجھ سے
بالاتر ہے۔ اور اگر آپ انہی مصلحتوں کے ساتھ اسی نظام کے ذریعے اقتدار کا
راستہ ڈھوندتے رہے تو اقتدار کا حصول ناممکن ہے اور تبدیلی ناپید ہے۔ اور
تیسری اہم بات یہ ہے کہ آپ کو ان مصلحتوں کے ساتھ اقتدار میں آنے کے لئے
ایک لمبا عرصہ درکار ہے اور آپ عمر کے جس حصے میں ہیں آگے جتنے سال بھی
جئیں گے وہ بونس ہوں گے۔ اور اگر ایک لمبے عرصے بعد آپ اقتدار میں آ بھی
گئے تو آپ کی ذہنی و جسمانی اہلیت اور قابلیت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ جیسے
١١ مئی ٢٠١٣ کے الیکشن میں فخرالدین جی ابراہیم المعروف فخرو بھائی کی تھی۔
اس لئے جو بھی کرنا ہے خداراہ جلدی کیجئے عوام آپکے ساتھ ہے اور وقت کم ہے
اور مسائل زیادہ۔
فیصلہ آپکو کرنا ہے کہ آپ فخرو بھائی بننا چاہتے ہیں یا عمران خان اور آپکے
چاروں طرف ہیں سیاسی حیوان۔ کہیں بھوکا شیر ، کہیں پتنگ اور کہیں تیر کمان۔ |