طالبان سے مذاکرات،سنی علما کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کاموقف

علم عمرانیات کے ماہرین کے مطابق کسی شخص کا ایک جملہ کسی نئے مکتب فکر کی بنیاد بن سکتا ہے دنیا میں موجود تمام مکاتب فکر کی تاریخ کا جایزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر مکتب فکر کی بنیاد اس مکتب کے بانی کے افکار پر منحصرہے جس نے باقاعدہ طور پر ایک مکتب کی بنیاد ڈالنے سے پہلے کسی ایک نظریہ پر بحث کی جس کے بعد اس نظریہ پر عمل کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کے بعد اس کے نظریہ نے ایک مکتب یا فرقہ کی شکل اختیار کر لی حتی تاریخ اس چیز کی بھی گواہ ہے کہ اکثر لوگوں کے افکار کو ان کی زندگی میں خاطر خواہ پزیرائی نہ ملی لیکن ان کی موت کے کافی عرصہ بعد ان کے بعد آنے والے لوگوں نے نا صرف ان کےافکار کو زندہ کیا بلکہ ان کے افکار کی بنیاد پر ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد رکھی اور یوں اپنے افکار کی بنیاد پر مذکورہ لوگ مخلتف مکاتب کے بانی قرار پائے۔
جہاں تک مخلتف افکار کی پزیرائی کی بات ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ افکار جن کی بنیاد علم و دانش پر ہو ایسے افکار کو نا صرف اہل علم و دانش کی طرف سے پزیرائی ملتی ہے بلکہ ان افکار میں ہمیشہ زندہ رہنے کی طاقت بھی ہوتی ہے لیکن افکار کی پیدایش اور ان کے پھیلاؤ میں ماحول کو کافی عمل دخل حاصل ہے پسماندہ معاشروں میں اہل علم کے افکار کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی باشعور معاشروں میں اہل علم افراد کے افکار کواہمیت دی جاتی ہے۔

پسماندہ اور علم و دانش سے عاری معاشروں میں بے بنیاد افکار کو زندہ رکھنے کے لیے لوگوں کی فکر پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اس مقصد کے حصول کےلیے مذہب کی آڑ لی جاتی ہے۔

دنیا میں موجود تمام ادیان اور مکاتب فکر میں اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو غیر معمولی حد تک غوروفکر کی دعوت دیتا ہے دین اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید نا صرف مسلمانوں بلکہ روئے ارض پرموجود ہرانسان کو غیرمعمولی حد تک غوروفکر کی دعوت دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تحریک جو انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں شروع ہوئی اس کو اتنی پزیرائی ملی کہ آج دنیا کا کوئی کوئی ایسا کونہ نہیں جہاں اسلام کے پیروکا رموجود نہ ہوں جیسے جیسے مسلمان اسلام کے پہلے دور سے دور ہوتے چلے گئے ان میں مختلف فرقوں نے جنم لیا اور مختلف اسلامی فرقے اور پھر ان فرقوں میں مزید فرقے وجود میں آئے جن میں کچھ یا تو ختم ہوگئے یا پھر انہوں نے اپنا وجود برقرار رکھا ان فرقوں کے اصل عقاید جن میں توحید نبوت اور قیامت شامل ہیں میں زیادہ اختلاف نہیں تھا بعض دوسرے جزئی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ہر فرقے نے اپنی الگ شناخت بنائی۔

اسلام کے پیروکاروں نے بغیر کسی جبر کے اپنی مرضی کا فرقہ اختیار کیا اگر کبھی کسی ایک فرقے کی طرفدار حکومت کی طرف سے لوگوں کو زبردستی کسی خاص فرقہ کو اختیار کرنے پر مجبور بھی کیا گیا تو یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور حکومت کے سقوط کے بعد لوگوں نے دوبارہ اپنا سابقہ فرقہ اختیار کر لیا دوسرے ادیان کی طرح اسلام میں فرقوں کا وجود ایک طبیعی امر ہے اوروہ فرقے جن کی بنیاد بانی اسلام ص کے پاکیزہ افکار پر ہے ان کا وجود اسلام اور مسلمانوں کے لیے کسی طرح کے خطرہ کا موجب نہیں ہے لیکن وہ فرقے جن کی بنیاد تشدد پر ہے ایسے افکار یا فرقوں کا وجود یقینا اسلام کے لیے اور مسلمانوں کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے بانی اسلام ص کے افکار روز روشن کی طرح عیاں ہیں ہاں ان افکار کی تفہیم میں تھوڑا بہت اختلاف ضرور ہو سکتا ہے لیکن تشدد پر مبنی کسی بھی فکر یا عقیدے کا تعلق بانی اسلام ص کی تعلیمات سے نہیں ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات مسلمان بانی اسلام کے عمل کو اپنے عمل کی تائید کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور تاریخی حقایق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اس صورت حال میں تاریخ کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔جہاں تک پاکستان میں موجود طالبان اور ان کی فکر کا تعلق ہے تو اسے کسی بھی صورت اسلامی فکر نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ اس فکر کا اسلام اور بانی اسلام کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بانی اسلام ص کی پوری حیات مبارکہ اس بات کی گواہ ہے کہ آپ ص نے کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی اجازت دی اور نہ طاقت کے زور پر کسی پر اپنا عقیدہ مسلط کرنے کی کوشش کی۔

انتہائی اسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں مسلحہ لوگوں کا ایک بے رحم گروپ جو خود کو پاکستانی طالبان کا نام دیتا ہے اسلام کے نام پر مسلمانوں سے لے کر غیر مسلموں کا خون بہانے میں مصروف ہے میاں صاحب نے اقتدار میں آتے ہی اس گروپ سے مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کرد دیا جس پر اکثر سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے حکومت کو یہ اختیار دیا کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں لیکن اس کے جواب میں مذکورہ گروہ نے نا صرف اپنی ظالمانہ کاروائیوں کو بند نہ کیا بلکہ ان کے ظالمانہ اقدامات میں اضافہ ہوا جس پر وطن عزیز کے اکثر دانشوروں نے حکومت کے مذاکراتی ڈرامہ پر حکومت کو متنبہ کیا اور اس گروہ کے خلاف سخت کاروائی کا مشورہ دیا لیکن حکومت نے ان اہل علم و دانش کی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

طالبانی گروہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اکثر سیاسی اور بڑی مذہبی جماعیتں مذاکرات کی حامی ہیں لیکن ان جماعتوں کے دلائل انتہائی کمزور ہیں شاید اسی وجہ سے پاکستان کے دو مکاتب فکر نے پہلی مرتبہ ان مذاکرات کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے اور ان مذاکرات کو غیر آئینی قرار دیا ہے اس حوالے سے سنی علما کونسل اور مجلس وحدت مسلیمن کا موقف سامنے آیا ہے جس میں طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر طالبان کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو مزید لاشوں کے تحفے ملیں گے۔ راقم کے نزدیک تمام مکاتب فکرکے علما کی علم و دانش اور دلیل پر مبنی ہر بات اورنظر قابل احترام ہے اس کے ساتھ ساتھ اختلاف کا بھی پوراپورا حق حاصل ہے وہ دینی جماعیتں جو بے رحم گروہ سے مذاکرات کی حامی ہیں مذاکرت کے لیے بانی اسلام کی تاریخی صلح حدیبیہ کی مثال دے رہی ہیں جو کہ سراسر تاریخی حقایق کو توڑنے کے مترادف ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بانی اسلام ص حج جیسے فریضہ کے لیے جب اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے تو آپ ص نے حکم دیا کہ تمام مسلمان غلاف میں لپٹی ایک تلوار اپنے ساتھ رکھیں تاکہ اگر حالات خراب ہوں تو مشرکین کا مقابلہ کیا جاسکے دوسری بات یہ کہ صلح حدیبیہ میں فریقین مذاکرات میں سنجیدہ تھے اس پر مستزاد جب مشرکین نے مذاکرات میں طے شدہ معاملات کی خالف ورزی کی تو بانی اسلام ص نے ان کے خلاف ایکشن لیا جس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔

اسی طرح بڑی مذہبی جماعتوں کو یہود مدینہ کی تاریخ بھی پڑھ لینا چاہیے جن کے معاہدے کی خالف ورزی کرنے پر بانی اسلام ص نے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا بانی اسلام ص کی حقیقی تعلیمات طالبان جیسے خونخواروں کے خلاف سخت ایکشن پر راہنمائی کرتی ہیں ایسے درندے جو اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں ایسے لوگ کسی بھی رحم کے قابل نہیں ہیں یہ لوگ اسلام کی جو تشریح کرتے ہیں سراسر اسلام کے خلاف ہے یہ درندے یہود مدینہ کے قبیلے بنی قریضہ سے ہزار درجہ بدتر ہیں جوعلی الاعلان وطن عزیز کے شہریوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔

بنی قریضہ نے حکومت مدینہ سے کیا گیا ایک معاہد توڑا تھا اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کا ساتھ دے کر انہیں نقصان پہنچانے کی سازش کی تھی یقینا یہ بہت بڑی سازش تھی اگر وہ اس سازش میں کامیاب ہو جاتے تو تحریک اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا اسی لیے بانی اسلام ص نے ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سعد بن عبادہ کے فیصلے پر عمل کرنے کا حکم دیا بنی قریضہ کے مقابلے میں طالبان کو دیکھا جائے تو نا صرف یہ کہ یہ ننگ وطن پاکستان کے بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں بلکہ علی اعلان پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ان حالات میں مجلس وحدت مسلمین اور سنی علما کونسل کا طالبان کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ بانی اسلام ص کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
 

ibne raheem
About the Author: ibne raheem Read More Articles by ibne raheem: 29 Articles with 28257 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.