حضر ت وا صف علی واصف فر ما تے ہیں جو ذا ت شکم ما در میں
بچے کی صورت گر ی کر تی ہے وہی ذا ت خیال کی صورت گر بھی ہے اور وہی ذا ت
عمل کی صورت بھی پیدا فر ما تی ہے ۔ ہر چہرہ ایک Range میں تا ثیر رکھتا ہے
اسی طر ح ہر خیال ایک دا ئرہ تا ثیر رکھتا ہے ۔ اور ہر عمل کا ایک دو ر ہے
جس میں وہ مو ئثر ہو تا ہے ۔ اپنے دا ئرے سے با ہر ہرمو ئثر شے بے تا ثیر
ہو جا تی ہے کچھ چہر ے ، خیال اور اعمال صدیو ں پر محیط ہو تے ہیں اور زما
نو ں پر حا وی ہو تے ہیں ۔ بیر ونی دنیا میں انتہا ئی فہم و فراست اور سوچ
بچا ر کے بعد دیا نتداری اور اخلا ص کے ساتھ ملکی آئین و قانو ن کی پیر وی
اور حکو متی مشینری کو بہتر سے بہتر چلا نے کے لیے ایسی زبر دست پا لیسیز
اور دا ئرہ کا ر تر تیب دیا جا تا ہے جو بنیا دی طو ر پر ملکی سٹرکچر اور
اداروں کو مضبوطی سے جو ڑے رکھتا ہے ۔ کوئی بھی اربا ب اختیا ر اور انفرادی
حثیت کی ما لک قوت اس ضا بطے اور قانون سے ہٹ کر اپنی ذا تی را ئے اور پسند
نا پسند مسلط کر نے کی جرات بھی نہیں کر سکتی ہے ۔ وہ حقیقی قواعدو ضوابط
اور اصولو ں کی خو بصو رتی ہے جو وہا ں کی حکو مت کو اجتماعی طو ر پر اور
انفرادی طو رپر ہر ادارے کو مضبو ط اور مو ئثر بنا تی ہے ۔ وہا ں کتنی بھی
جا ندار ، اقتدار اور طا قت کی مالک شخصیا ت محدود لمحا ت کے لیے متحرک
اورفعا ل دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن انہی شخصیا ت اور قوتو ں کا بنایا ہو ا قا
عدہ اور ضابطہ ہی ان کی صدا بہا ر تا ثیر اور تقویت کا با عث بنتا ہے ۔
شخصیت پر ستی کے خول کے خا تمہ کیلیے تمام تر صلا حیتیں بر وئے کا ر مثبت
پہلو میں لا ئی جا تی ہیں کوئی گو را ہو یا سیا ہ فا رم کسی شخصیت کے رد و
بدل سے وہا ں کا آئین دستو ر اور ضا بطے نہیں بد لے جا تے ۔ بلکہ ہر اقتدار
اختیا ر کر نے والا اور منتقل کر نے والا انسٹیٹیو شنز کی مضبوطی اور پا
ئیدا ری کو ہمیشہ ملحوظ خا طر رکھتا ہے ۔ بلا شبہ یہی وہ کامیا بی اور
تعمیر و ترقی کا بنیا دی را ز ہے جو ان لو گو ں کو ہم سے نمایا رکھتا ہے ۔
کسی حقیقت کو تسلیم کرنا گناہ نہیں بلکہ اعلیٰ ظرفی اور بہت بڑی عقلمندی ہے
بے شک ایمان سے بڑی کوئی قوت اور طا قت نہیں لیکن دنیاوی اعتبا ر سے کسی کی
کو الٹی اور صلا حیتو ں کو ہر گز جھٹلا یا نہیں جا سکتا ہے ۔ بڑی معذرت کے
ساتھ ہما رے ہا ں ایک مخصوص لمحے اور مد ت کے لیے کسی شخصیت کو محض عہدہ
اور منصب کی مرہون منت فر ش سے عرش پر پہنچا دیا جا تا ہے اسکے کردار یا
اخلا ق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو ملنے وا لے منصب یا اقتدار کی بناء پر
اغرا ض کے گہر ے پردو ں میں، الفا ظ کے گہرے رنگو ں میں ہر شخص محبت کرتا
ہے ،حا لا نکہ محبت کچھ بھی نہیں
ہما رے ہا ں مذ ہب ہو ، علم ہو ، صحا فت ہو یا سیاست تعلیم و تر بیت سے
بیزار لو گ ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ جن افراد کو اﷲ رب العزت نے عزتو ں ،
عظمتو ں ، رفعتو ں ، صلا حیتو ں ، سعا دتو ں ، حکمتو ں ، چا ہتو ں ، را حتو
ں اور فضیلتو ں سے نوازا ہے ان سے حقیقی استفادہ حاصل کر نا سبق سیکھنا اور
پیروی کر نا بھی حقیر،کمتر، اور معیوب ہی جا نا جا تا ہے ۔ ہما رے ہا ں
معیا ر سے زیا دہ مقدار کو ترجیح دی جا نے لگی ہے یہا ں پر قابلیت کی کمی
ہر گز نہیں ہے کمی ہے تو صرف اور صرف انتخا ب کی ایسے نا اہل ، لا علم ، جا
ہل اور غیر متعلقہ افراد کو مختلف شعبو ں کا سرپر ست تعنیا ت کر دیا جا تا
ہے جو اس شعبہ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہو تے اسی لیے ہر نیا آنے والا
شخص نئے اصول اور قوانین متعا رف کرانے کی سعی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے
مثال کے طو ر پر ایک نگران وزیر اعلیٰ بسنت و بہا را ں میلے کا اہتمام کر
نے کی باتیں کرتا اور لو گو ں کو پتنگ با زی کے زریعہ سے تفریح کا سامان
مہیا کرنے کے جذبا ت کا اظہا ر کرتا ہے تو دوسرا موجودہ وزیر اعلیٰ پتنگ با
زی کو جان و مال کا ضیا ع اور قواعد و ضوابط کے خلا ف قرار دیتا ہے ۔ کوئی
صدر پھانسی کی سزا معا ف کرتا ہے تو کوئی وزیر اعظم اس کو اسلامی اور مذہبی
طو ر پر انصاف کے تقا ضو ں میں گردانتا ہے، کوئی ملک کا سربراہ بن کر تین
تین عہدوں کامالک بن کر خود کو فرعون سمجھنے لگتا ہے تو کوئی 17 18,
وزارتیں اپنے پاس رکھ کر اپنے آپ کو ہر فن مولا جا نتاہے یہا ں تضا د کیو ں
پا یا جا تا ہے؟ کوئی بھی پالیسی لانگ ٹرم کے لیے کیو ں دکھائی نہیں دیتی ؟کیونکہ
قاعدہ قانون ہر آنے والا صاحب اقتدار اپنی من مرضی اور منشاء کے مطابق لا
گو کرنا چا ہتا ہے ۔ یہی تو نظام کی خرابی اوردرحقیقت نظم و ضبط اور پالیسی
کا فقدا ن کہلا تا ہے ۔ جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے ورنہ ملک کو مزید
بحرانو ں ، عذابو ں اورمسائل کے گرداب سے نکالنا دشوار ہے ۔ اسی بنیا دی بد
نظمی اور بد انتظامی کی بد ولت با قی ما نندہ مسائل اور دشواریا ں روز بروز
جنم لیتی جا رہی ہیں ۔ اگر بنیا دی سٹرکچر اور نظام درست کرلیا جا ئے تو
چھو ٹی مو ٹی خرابیا ں تو خو د بہ خو د ہی مٹ جا ئیں گی ۔ محکمہ پولیس کی
خاص طور پر اہمیت و حثیت کسی بھی معا شرے اور ملک میں بہت زیا دہ ہے عوام
النا س کے جان و مال کی حفاظت اور بقاء کے لیے پولیس پیش پیش ہے ۔ جہا ں
سیاست نے ریلو ے ، سٹیل ملز ، پی آئی اے ، او جی ڈی سی ایل اور دیگر ز
اداروں کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیاہے وہا ں اس ادارے میں بے جا سیاسی
مداخلت نے دیمک کی طر ح چاٹنا شروع کردیا ہے ۔ گذ شتہ سے پیوستہ اپنے ملکی
معاملا ت میں نظر دہرائی جا ئے تو محکمہ پولیس کے حوالہ سے ایک Symbol کی
حثیت سے جو شخصیت ماضی کے جھرونکو ں میں ابھر کر سامنے آتی ہے وہ کسی تعارف
کی محتاج نہیں ذوالفقار احمد چیمہ وہ شخصیت کن خوبیو ں اورخصوصیا ت کی مالک
ہے جن کی بد ولت انہو ں نے اپنے ہم عصروں میں نمایا ں اور جداگا نہ مقام
حاصل کرلیا ڈی آئی جی اور آر پی او کی حثیت سے انکی سروس لا جواب رہی پولیس
کے حقیقی کردار کو اجا گر کرتے ہو ئے شب و روز مثبت نام کمایا کہ اس ایک
نام سے بدنام زمانہ ، کرپٹ ، غنڈہ گرد عنا صر اور ڈاکو چورسفا ک قاتل بھی
کا نپتے تھے کیا محکمہ پولیس ذوالفقار احمد چیمہ کا کوئی نعمل البد ل دینے
میں کامیاب ہو سکا ؟ گھر میں سیاست کا غلبہ ہو نے کے با وجود بھی کبھی اپنی
پیشہ وارانہ ذمہ داریو ں میں اسے حائل نہیں ہو نے دیا ۔ اپنی خواہشات کے
دائرہ کا ر کو محدود رکھتے ہو ئے با کردار اور باعمل کام کر کے دکھایا ۔ ڈا
ئر یکٹر جنرل پا سپو رٹ بنے تو ملک بھر میں ادارہ نمایا ں دکھائی دینے لگا
اور چند ہی دنو ں میں یہا ں وہا ں سب جگہ انقلا ب برپا ہو گیا کرپٹ ، نااہل
اور کام چو ر طبقہ کام کاج کرنے میں دلچسپی لینے لگا اور ایجنٹ مافیا کی
راتو ں کی نیندیں بھی حرام ہو گئیں ایسی ہی جداگا نہ اور منفرد حثیت انکی
مو ٹر وے پولیس کے سربراہ کے طو ر پر دکھائی دیتی ہے سیاسی وابستگی کے
باوجود آغا ز میں اعلان کیا کہ مو ٹر وے پولیس کا عملہ وی آئی پی پروٹو کول
کے لیے ہر گز نہیں جا ئے گا یہ ہمارا کام نہیں یہی ان کا بڑا پن اور عملی
اقداما ت تھے کہ انکے Man of Principle والی خوبی تمام تر کمیوں کوتائیو ں
پر حاوی آگئی لاکھ سیاسی مخالفتو ں اور منفی پروپیگنڈہ کے باوجود بھی انکا
مقام اپنے پراؤ ں کی نظر میں بڑا مثبت ، قابل رشک اور قابل تقلید ہے ۔ وہ
کیا لگن کیا جستجو اور جذبہ تھا کہ ایک شخص جہا ں بھی گیا حقیقی طو ر پر نہ
صرف اپنے ہو نے کا احساس اجا گر کراتا رہا اور عملی سطح پر انقلاب برپا
کردیا ۔ لیکن مدت بعد بھی کوئی انکی پیروی کرنے والا انکا خلا ء پورا کرنے
والا دکھائی نہ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا ایک وسیع تر حلقہ اثر ملک
بھر میں موجود ہے گا ہے بگا ہے سیاسی ، مذہبی ، سماجی اور تمام مکا تب فکر
انکی سوچ ، عمل اور کردار کو سراہتے اور یا د کرتے ہو ئے سنائی اور دکھائی
دیتے ہیں ۔ انکی غیرمعمولی خدما ت اور نایا ب شخصیت کو تا ریخ کبھی گرد آلو
د نہیں ہو نے دے گی ۔ پولیس کے موجودہ کما نڈر اور آفیسران کو چاہیے کے
اپنے پیش رو آفیسر کی پیروی کرتے ہو ئے اپنے عہد ے کا لحا ظ کریں اور عوامی
ریلیف اور فا ئد ے کی خا طر کوئی کام کردکھائیں جسے رہتی دنیا تک یا د رکھا
جا تا رہے ۔ انسان چلے جا تے ہیں لیکن انکی یا دیں باقی رہ جا تی ہیں با
کردار ، با عمل اور با صلا حیت وجود کبھی مرتا نہیں بلکہ بعد والو ں کے قلو
ب و اذہا ن پر حکومت کرتا ہوا زندہ و جا وید رہتا ہے ۔ یہ محض بلند و بانک
نعرے لگا نے یا اعلانات کرنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عملی سطح پر
کام کاج کی ضرورت ہے ۔ حکمران اور سیاست دان طبقے کو بھی چا ہیے کہ اداروں
میں بے جا مدا خلت اور اپنے اختیا رات کو ناجا ئز حد تک استعمال کر نے سے
گر یز کریں اور خاص طو ر پر محکمہ پولیس کو اس بد نما لعنت سے پاک کردیں
ورنہ کراچی سی صورتحال پنجا ب سمیت تمام صوبو ں اور اضلا ع میں پیدا ہو نے
کا غا لب خدشہ ہے ۔کر اچی کو آج صرف اور صرف سیاستدانو ں اور پا رٹی با زیو
ں نے دہشتگردی ، بھتہ خو ری ، بد امنی اور بے چینی کا گڑھ بنا دیا ہے ۔ اس
میں محکمہ پولیس اور سیاست دان دونو ں مشترکہ طو ر پر ملو ث ہیں ۔اس با ت
کا واضح اظہا ر خیال جیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چو ہدری اور مختلف
عدلیہ سے وا بستہ شخصیا ت با رہا کرچکی ہیں کہ ملک کے اندرونی و بیرونی
شاہراہو ں پر موجود پولیس اور کسٹم کا عملہ دہشتگردوں اور اسلحہ داخل کر
انے میں معاون و مدد گا ر ثا بت ہو تے ہیں جن کے پس پشت سیاسی شخصیا ت اور
حکومتی کا رندوں کا ہا تھ ہو تا ہے ۔جب سیاست اور پو لیس ایک دوسرے کے جا
ئز ناجا ئز معاملا ت میں مداخلت کرتے رہیں گے تو پھر مسائل جو ں کے توں ہی
چلتے رہیں گے ۔ آج پولیس میں سیاسی مداخلت،ناکامی اور نااہلی کی بدولت
محرالحرام کی سیکیورٹی کے حوالہ سے بھی رینجرز کو مختلف علا قوں میں زحمت
دی جا رہی ہے ۔ ملک کا اندرونی سٹرکچر جب مضبوط ہو اور وہا ں ڈسپلن اور
میرٹ کو قدم قدم پر ملحوظ خا طر رکھا جا ئے تو ممکن ہی نہیں ملک دشمن
بیرونی قوتیں سازشو ں اور پروپیگنڈہ سے اپنے مطلوبہ عزائم کی تکمیل میں
باآسانی کامیا ب ہو جائیں ۔۔۔۔ ذرا سوچئیے ؟ |