پچھلے کچھ دنوں سے ہما رے علماء
بھی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے لگے ہیں جس کی وجہ سے غیروں میں یہ
پیغام پھیلتاجارہاہے کہ علما ء بھی سیا ست کر نے کے لئے تیا ر ہو تے جا رہے
ہیں ۔ علماء کی سیاسی اجلاس میں شرکت ایک اچھی پہل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا علماء ان سیاسی نشستوں ، جلسوں اور پارٹیوں سے قوم کو فائد ہ پہنچاسکتے
ہیں ؟۔ قومی سطح پر مولانا سید امام آحمد بخاری ، مولانا ارشد مدنی ،
مولانا محمو د مدنی ، مولانا توقیر رضاجیسے علما ء تو مسلمانوں کی تائید
میں ، مسلمانوں کے مسائل پر اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے ہر اسٹیج پر آواز
بلند کررہے ہیں لیکن انکے معاونین ان کاموں کو انجام دینے میں ناکام ہورہے
ہیں ۔ ان چوٹی کے علماء کے نظریا ت بھلے ہی الگ ہوں ، انکے فعل اور قول میں
کچھ تضاد ضروری ہے لیکن جو کام کررہے ہیں وہ قابل تسلیم ہے ۔ لیکن ہمارے
یہاں اکثر سیاسی پارٹیوں میں علاقائی سطح کے جن علماء کو بلا یا جا تا ہے
وہ اپنے آپ کو اسٹیجوں تک ہی محدود کیے ہو ئے ہیں اور انکے منہ سے جو باتیں
نکلتی ہوں اس میں اسٹیج کی اہمیت کے مطابق تعریف ہوتی ہے یا پھر وہاں موجود
سیاستدانوں کی واہ واہی ہوتی ہے ، کچھ علماء اسٹیج پر جلوہ افروز
سیاستدانوں کی شان میں اسطرح کے کلمات کہہ بیٹھتے ہیں کہ اس سے چاپلوسی کی
بُو آنے لگتی ہے ۔ ویسے مسلمانوں کے حقیقی قائد اور امیر علماء ہیں ہوا
کرتے ہیں یہ تو ہماری بدنصیبی ہے کہ انکی قیا دت کو تسلیم کر نے کے لئے ہم
تیا ر نہیں ہیں ورنہ انکی جانب سے جو قیادت ہے وہ دنیا و آخر ت کے لئے
کامرانی کاسبب بن سکتی ہے ۔ لیکن اگر یہی علماء چاپلو سی یا دلجوئی کے نظر
یہ سے اسٹیجوں پر براجمان ہوتے ہیں تو اس سے قوم کے مسائل حل نہیں ہوتے نہ
ہی قوم کی صحیح قیادت ممکن ہو سکتی ہے ۔ ہمارے خیا ل سے جب بھی علماء کو
اسٹیج پر بٹھا یا جا تاہے وہ مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھا ئیں تاکہ
عوامی نمائندوں کو مسلمانوں کے مسائل صحیح لوگوں کے ذریعے پہنچے ۔ کچھ علما
ء ایسے بھی ہیں جو مسجدوں کے منبر وں سے قوم کی قیادت کی آواز بلند کر تے
ہیں لیکن انکی یہ آواز وہیں چار دیواری کے درمیان دب جاتی ہے یا وہاں موجود
مصلیا ن کے گو ش گزار تک ہی محدود ہو جا تی ہے ۔ جب سیاسی اسٹیجوں پر سے
علماء قوم کی قیادت کی آواز بلند کر تے ہیں تو اس سے سیاسی دنیا میں ایک
طرح کی ہلچل پیدا ہوجا تی ہے اور مسلمانوں کے مسائل پر حکومتیں سوچنے کے
لیے مجبو رہو جا تی ہیں ۔ یہ تو بات ہو ئی علمائے حق کے تعلق سے ۔ اب کچھ
ایسے علماء کا بھی ہم تذکر ہ کر دیں جسے کچھ لو گ جان بو جھ کر اور زبر
دستی علماء کا پو سٹ دلواتے ہیں ، نہ ان میں علم ہو تا ہے نہ علما ء جیسا
عمل ۔ ایسے میں غیر وں کے سامنے کچھ ایسے جاہل جن کے سر وں پر ٹوپیا ں ہو
تی ہیں اور بدن پر جھبّے ہو تے ہیں انہیں علما ء کے طو ر پر پیش کرتے ہیں ،
غیر وں کو کیا معلوم کہ کو ن مسلمانوں کا عالم ہے اور کو ن جا ہل ، وہ
بیچارے تو چہر ے کی داڑھی و سر کی ٹوپی دیکھ کر انہیں علماء ہی سمجھ بیٹھتے
ہیں اور انکی اطاعت کر نے پر آمادہ ہو جا تے ہیں جس کا فا ئد ہ مفاد پر ست
اور قوم فروش لوگ اٹھا تے ہیں، انکا فائد ہ اور قوم کا نقصان ۔ درحقیقت
مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو 14؍ سو سالوں سے ہر دو ر میں یزیدوں کا سامنا کر
تی آئی ہے اور یہ قوم کسی سے ڈرنے والی نہیں ہے ، شجا عت اور علمبر داری اس
کا شیو ہ رہا ہے باوجو د اسکے ہم مسلمانوں کو للّو پنجو ں سیاستدانوں کا
خوف دکھا یا جا رہا ہے ۔ اب مودی کی ہی مثال لیں ۔ 14سوسال سے یزیدوں کا
سامناکر نے والی مسلمان قوم کو کل پر سوں کے گھمنڈی نر یندرمو دی کا ڈر
دکھا کر مسلمانوں کا استحصال کیا جارہاہے ، اگر اس خوف کو مسلمانوں کے دلوں
سے نکا لنا ہے تو اس کے لئے علما ء ہی اسٹیجوں کے ذریعے تعویذباند ھ سکتے
ہیں ۔ اپنے مسائل اور حقوق کی بنیاد پر لوگوں کو لڑنا سکھا سکتے ہیں، مساجد
کے منبر وں کے ذریعے قوم میں بیداری لا نا کو ئی گنا ہ نہیں ہے نہ ہی اسلام
نے اسے ممنو ع قرار دیا ہے ۔ اس لئے ہمارے علماء کو چاہئے کہ وہ قوم میں
بیداری لا نے کے لئے قوم وملّت کے مسائل پر نظر ثانی کریں اور قوم کو
مصیبتوں سے بچائیں ۔ |