ملیشیائی سپریم کورٹ کا فیصلہ

 ہمارا ہی نہیں،’’ اﷲ‘‘ عالمین کا ہے……!

ہمارا اخبار بین طبقہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی اتھل پتھل سے برابر واقف ہوتا رہتا ہے۔مسلم اخباربین حضرات بھی، قومی اور اردواخبارات سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔چنانچہ ایک بہت ہی اہم اور تازہ خبرایسی ہے جواِن طبقات کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ہمارے ایک مسلم اکثریتی ملک ملیشیاء میں آج کل کیا کچھ ہلچل مچی ہوئی ہے۔خبریہ ہے کہ ملیشیائی سپریم کورٹ نے عیسائیوں کو لفظ ’اﷲ ‘کے اِستعمال کی اِجازت دے کر ایک تہلکہ مچا دیا ہے اور اِس فیصلے سے’اﷲ‘کواپنا معبود ماننے والا طبقہ بے حد مضطرب اور پریشان ہے، اور اِس فیصلے کے خلاف مسلم اکثریتی ملیشیائی حکومت نے بھی اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔اپنی رولنگ میں ججوں نے کہا تھا کہ کیتھولکس عوام کولفظ’’ اﷲ‘‘ کے استعمال کا دستوری حق حاصل ہے،نیز یہ کہ وہ سابق حکومتوں کے حکم ناموں کو غیر قانونی، باطل اورکالعدم قرار د یتے ہیں۔
ملیشیاء ایک کثیر التہذیب ملک ہے۔ساٹھ فی صد مسلمان،اور دس فیصد عیسائیوں کی تعداد کے ساتھ، اِس کی آبادی ۲۳ ملین باشندوں پر مشتمل ہے،جس میں نسلی اقلیتوں کی، بشمول چینی و ہندوستانیوں کے، قابلِ قدرتعداد موجود ہے۔کچھ عرصہ قبل ہفت روزہ کیتھولک ہیرالڈ ملیشیاء نے سپریم کورٹ میں حکومت کے ایک حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا جو ملیشیاء کی وزارتِ مذہبی اُمورسے جاری ہواتھا، جس میں عیسائیوں سے لفظ’’اﷲ‘‘ کے اِستعمال سے باز رہنے کو کہا گیا تھا۔ غالباً یہ مسلم عوامی دباؤ ہی ہے جو حکام کو اِس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک طرف مذکورہ وزارت قانونی جنگ جاری رکھنا چاہتی ہے تو، دوسری طرف وہ مسلم عوام کے ردّعمل سے فکر مند ہے، جو پر تشدد ہوتا جارہا ہے۔عوام سمیت حکام بھی اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ’’ اﷲ‘‘ صرف مسلمانوں کے لیے ہے،باالفاظِ دیگر ’’اﷲ‘‘ صرف مسلمانوں کا ہے اور اِس پر عیسائی اپنا کوئی حق نہیں جتاسکتے۔اُدھر عیسائی اپنے اِس موقف کا مسلسل اعادہ کر رہے ہیں کہ لفظ’’اﷲ‘‘کے استعمال سے اُن کا مقصد کسی قوم سے معرکہ آرائی نہیں ہے ۔فادر لارنس انڈریو ، ایڈیٹر، ہفت روزہ کیتھولک نے بیان دیا ہے کہ کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ لیکن جب ہم سے اِصرار کیا جاتا ہے کہ اِس کا اِستعمال ہم نہیں کر سکتے تو ہم اِسے’’ حق مذہبی آزادی‘‘ کے خلاف سمجھتے ہیں ، جس کی ضمانت دستوردیتا ہے ، ہم اِسے ’’اِظہارِ خیال کی آزادی‘‘ کے منافی سمجھتے ہوئے اپنے قانونی و دستوری حق کو ، جس کی پشت پناہی خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعہ کی ہے، منوانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اِس کے استعمال کی اِجازت دے کر سپریم کورٹ نے ایک منصفانہ فیصلہ صادر کیا ہے۔

اِس متنازعہ فیہ فیصلے کے تناظر میں وزارتِ مذہبی اُمور کے وزیرجناب جمیل خیر جوہری اپنے قانونی اقدامات کو لفظ ’’اﷲ‘‘کے استعمال کی حفاظت کا نام دیتے ہیں اور یہ کہ توہین و اہانت کی متوقع صورتحال کے تدارک کے سلسلے میں اِسے پیش بندی قرار دیتے ہیں اورپر امید ہیں کہ تمام ضروری قانونی اقدامات،فیڈرل دستور کے مطابق اٹھائے جائیں گے، تاکہ حکومت کے حکم نامے کا دوبارہ نفاذ عمل میں آئے۔اُدھر لارنس انڈریو ، ایڈیٹر کیتھولک ہیرالڈ، دستور کے حوالے کے ساتھ مصر ہیں کہ’’ مذہبی آزادی کی اور آزادیٔ خیال اور رائے‘‘کی ،جو اسٹیٹ کے بنیادی حقوق کے چارٹر کا حصہ ہیں،ضمانت مل جائے۔
ملیشیاء کی مسلم عوام اِس فیصلے سے ناخوش نظر آتی ہے، اور اب اِن کی ناراضی رفتہ رفتہ متشددانہ رنگ اِختیار کرنے لگی ہے۔ابھی دو تین دن قبل مذکورہ فیصلے کے مخالف ہیکروں نے کیتھولک پبلیکیشن کے ویب سائٹ ہیرالڈ ملیشیاء ڈاٹ کام کودوبارہ ہیک کر لیاتھا۔دفعتاً،سافٹ انجنئروں نے مخالفانہ یورش کی اِس شکل کوبے اثر کر دیا ہے اور سائٹ کا روز مرہ کا کام بحال ہو گیا ہے۔ ویب سائٹ کے ڈائرکٹر نے فیصلہ کیا ہے کہ اِس واقعہ پر وہ کوئی لب کشائی نہیں کریں گے ، تاکہ اِس حساس موضوع پرمزید تناؤ نہ بڑھ پائے۔’’ایشیاء نیوز ‘‘ کے لیے مخصوص ،میگزین کے اگلے شمارے میں جو اداریہ ترتیب دیا گیاہے، فادر انڈریو کہتے ہیں کہ ’’عیسائیت کے ماننے والے لفظ’’ اﷲ‘‘ کا استعمال ملکّا سلطنت کے زمانے ہی سے کرتے رہے ہیں۔عیسائی عالم نے مزید وضاحت کی ہے کہ: ’’ملائی زبان کی شائع شدہ۱۶۳۱ء کی پہلی لغت ’’ملائی لاطینی ڈکشنری‘‘ میں، لفظ ’’اﷲ‘‘ کا استعمال موجود ہے۔اُنہوں نے ’’ہفت روزہ کیتھولک‘‘ ،کودستور کی دی ہوئی اُس ضمانتِ آزادی کے عین مطابق قرار دیا ہے، جو ’’اِظہارِ خیال و تقریر اورآزادیٔ مذہب‘‘ سے عبارت ہے۔

ملت اِسلامیہ آج ساری دنیا میں جس نفسیاتی مزاج کی پرورش میں مصروف نظرآتی ہے، اور جس کاانعطاف ملیشیاء کی عیسائی اقلیت کی جائیدادوں کی توڑ پھوڑ جیسے ردّ عمل میں دکھائی دیتا ہے۔ایسی خبریں واقعی بڑی تشویش کا باعث بن جاتی ہیں اور خوف ہوتا ہے کہ، خدا نہ کرے، کہیں یہ آگ وسعت نہ اِختیار کرتی چلی جائے۔بظاہر صورتحال بڑی دھماکہ خیز نظر آتی ہے۔لیکن امن پسند، سنجیدہ اورسمجھدار دانشوروں کی تھوڑی سی فکری پیش بندی اور کچھ مثبت عملی اقدامات سے صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ اِس پرسنجیدگی سے غور کیا جائے اور کچھ اہم گوشوں کی طرف سوچنے سمجھنے والوں کی توجہ مبذول کرالی جائے۔یہ چند معروضات اِسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔

پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ ہم نے بحیثیت ِقوم، قرآن شریف سے ہدایت لینا تو دور کی بات، مشکل یا بحران کی کسی گھڑی میں اِس کی طرف دیکھنا تک چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ یہ انسانوں کو کسی بھی معاملے میں خدائی ہدایت عطا کرنے والی کتاب تھی ، ہے اور رہے گی۔غفلت کی یہ مذموم روش اب صرف عوام تک محدود نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اب خواص سے بھی کتاب اﷲ سے غفلت کا یہ جرم بہ رضا و رغبت ہونے لگا ہے۔کتاب اﷲ سے ایسے ناقص رشتہ کے ساتھ نہ جانے کیوں ہم خود کو مسلم کہنے پر مصر رہتے ہیں؟آج ہم اپنے رب کی اِس عظیم کتاب سے صرف تلاوت کی حد تک متعلق ہو کر رہ گیے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف سے صرف تلاوت تک کا محدود رشتہ ہی سب کچھ ہے اوراِس سے ہماری مسلمانی میں کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، تو ایسی سوچ پر دلی دکھ اور اذیت ہوتی ہے۔

کس قدر حیرت بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ وہ افراد جو ہمارے بعض بزرگوں کی محنتوں کی بدولت قرآن شریف کے قریب آئے ہیں،اور اِس کی آیات پر تدبرکو اپنا شعار بنایاہے، وہ اپنے دانتوں میں انگلی دبائے اُن مسلم اسکالرس کی طرف دیکھتے ہیں ،جن کا مسلم معاشرے میں زبردست اثر و رسوخ ہے،اوربڑی بے چارگی سے پوچھتے ہیں کہ آخرتمہیں یہ ہو کیا گیا ہے کہ تم مسلمانوں کو قرآن شریف کے اتنے صاف و شفاف ، بین اور واضح احکامات تک نظر نہیں آتے، نہ وہ اِس قابل ہیں کہ قرآنی آیات کی روشنی میں بحران کے ایسے حالات میں اپنے متبعین کی رہنمائی کر سکیں۔ قرآن سے رجوع تو دور کی بات ہے ،یہ حضرات توباقاعدگی کے ساتھ آیات ِ اِلٰہی سے رُو گردانی کرتے نظر آتے ہیں،اور یوں محسوس ہوتا ہے ،جیسے اُنہوں نے گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کر رکھا ہے۔آج ملیشیاء کی صورتحال پر جو فتاویٰ جاری کئے جا رہے ہیں، قانونی چارہ جوئی کے جو سلسلے چل پڑے ہیں اورعدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے ذہنی تنگی کی جو عبرت ناک داستانیں سننے کو مل رہی ہیں، کاش کہ اﷲ کے اِن بندوں کو رجوع الی کتاب اﷲ کی توفیق نصیب ہوجاتی، جہاں اِس مسئلے کا حل بس چند ہی الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

مثلاً،قرآن کی پہلی ہی آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اے انسانو! تمہارا’’اﷲ‘‘ صرف تمہارا’’ اﷲ‘‘ نہیں ہے ، صرف کسی ایک قوم کا رب نہیں ہے، صرف کسی ایک عالم کا رب نہیں ہے،کسی ایک زمانے کا رب نہیں ہے،بلکہ وہ سارے انسانوں کا، سارے زمانوں کا،سارے زمانوں کے سارے اِنسانوں کا اور سارے زمانوں کی ساری مخلوقات کا رب ہے، وہ ربِّ کائنات ہے، وہ’’ رب العٰلمین‘‘ ہے۔اور وہی ’’ الحمد‘‘ کا سزاوار ہے۔’’ ا لحمد ﷲ رب العالمین۔" تمام تعریف اور حمد اﷲ کو سزاوار ہے جو رب ہے عالمین کا۔‘‘کیا دنیا کے مسلمانوں کو قرآن شریف کی یہ ابتدائی آیت دکھائی نہیں دیتی ،کہ یہ ایسی بے معنی قانونی دھینگا مشتی میں خود کو مصروف رکھتے ہیں؟اگر ہم’’اﷲ‘‘ کے لفظ کو اپنے لیے مخصوص کرہی لینا چاہتے ہیں تو پھر اس آیت کا ہم کیا مطلب بیان کر پائیں گے؟ قولاً نہ سہی،اِس آیتِ مبارکہ میں کیا ہم عملاً تحریف کے مرتکب ثابت نہیں ہو رہے ہیں اورکیا ہم قدم قدم پر دُنیا سے یہ نہیں کہہ رہے ہیں:’’الحمد ﷲ رب المسلمین‘‘۔؟’’تمام تعریف اﷲ کے لئے ہے جو رب ہے تمام مسلمانوں کا! ‘‘ (نعو ذبااﷲ)۔

قرآن شریف میں دیگر کئی مقامات پر بھی اِس موضوع پر ہدایت کا بھر پور سامان موجود ہے۔آیاتِ اِلٰہی کے چند نمونے حاضرِ خدمت ہیں:
اﷲ کی عظمتِ ذات کو محدود کرنے والی فکر پر جو آیتیں تیشہ چلاتی ہیں اُن میں سے کچھ یہ ہیں۔ ساری انسانیت سے خطاب ہے سورۂ طہٰ(۲۰)میں :’’درحقیقت ،اﷲ ہی تمہارا معبود ہے، وہ جو کہ نہیں کوئی معبود اُس کے سوا، اس کا علم ہر شے تک وسیع ہے۔‘‘(۹۸)۔ظاہر ہے جس اﷲ کا ذکر اِس آیت میں ہو رہا ہے وہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے۔ پوری کائنات میں اسکے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں۔ زمین ،آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل، بارش، درخت ،پہاڑ ساری ہی مخلوقات کا وہی رب، وہی مالک، وہی خالق اور و ہی ان ساری چیزوں اور مخلوق کو فنا کرنے پر بھی قادرہے۔ اُس کا علم ہرشے کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ایسی ہستی کبھی کسی خاص قوم ہی کی معبود نہیں ہو سکتی۔ سورۂ یونس(۱۰)میں ارشاد فرمایا گیا:’’آپ پوچھیں،کون رزق دیتا ہے تمہیں،آسمان سے اور زمین سے، یا کون مالک ہے سماعت اوربصارت کا، اور کون نکالتا ہے زندگی کو بے جان چیزوں سے اور کون نکالتا ہے جاندار سے بے جان چیزوں کو اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے، تو یہ کافر بول اٹھیں گے،’’اﷲ‘‘ آپ پوچھیں، پھر کیوں تم اس سے ڈر کر زندگی گذارنا نہیں چاہتے ؟ (۳۱)۔یہ آیت بھی ایک عظیم معبودکا پتہ دیتی ہے،جو رزق دیتا ہے، سماعت اور بصارت کی قوت عطا کرتا ہے،زندہ کو مردہ سے ، اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے،اور اِسی ہستی کا نام ’’اﷲ‘‘ ہے ، جوظاہر ہے کسی محدود تعداد رکھنے والی قوم کا معبود نہیں ہو سکتا۔

اِن آیات سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ جس معبود کا اِ ن میں ذکر ہے اور جس کا نام’’ اﷲ‘‘ ہے، وہ کوئی ایسی ہستی نہیں ہو سکتی جو ملیشیاء ، امریکہ یا کسی اورملک یاگزرے ہوئے کسی زمانے میں بسنے والے صرف مسلمان نامی کسی گروہِ افراد ہی کا قومی خدا بن کر رہ جائے(نعوذ باﷲ)۔یہ’’ اﷲ‘‘ تو وہ’’ اﷲ‘‘ ہے جو، ابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑاور اسحٰق ؑاور یعقوبؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کے زمانے سے بھی پہلے سے ہے، جسے ازل کہتے ہیں اور وہ اپنے پیدا کردہ زمانوں میں قیامت تک انسانوں کے لیے ’’اﷲ‘‘ کے نام اوربے شمارصفات کے ساتھ ہمیشہ موجود ہوگا۔جس کا کوئی خاتمہ نہیں اور جسے عرفِ عام میں’’ ابد‘‘ کہتے ہیں۔جس کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ ظلم اور فتنہ کوکبھی پسند نہیں کرتا،وہ سرکشوں کو سزا اور عذاب دینے کی ذمہ داری خود لیتا ہے،اورظالموں اور فتینوں کو کبھی مہلت نہیں دیتا۔اِسی کے ساتھ وہ غفور بھی ہے ، اور رحیم بھی ہے۔

جہاں تک اِس لفظ ’’اﷲ‘‘ کی لغوی و نحوی حیثیت ہے تواِس کے لغوی معنی میں لفظ ’’اﷲ‘‘ کا تین حرفی مادہ Root’’ ا ل ہ‘‘موجودہے۔ یہی لفظ تھوڑے سے فرق کے ساتھ قدیم زمانے سے معبود کے لئے بولا جاتا رہاہے۔مثلاً، عبرانی اور لا طینی زبان کے لفظ ’’ ا ی لEIL‘‘ کے معنی بھی معبود ہی کے ہوتے ہیں ۔یہاں تک کہ سنسکرت جیسی قدیم زبان میں بھی’ ’ای شEISH‘ ‘کا لفظ معبود کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جہاں تک لفظ ’’ ا لٰہ‘‘ کی بات ہے تویہ لفظ قرآن شریف میں۱۴۷جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔اسی سے لفظ’’ اﷲ‘‘ بنا ہے۔جس میں’’ال ہ‘‘ کی ابتدا میں’’ال‘‘لگاہوا ہے،جوانگریزی زبان کے لفظ Theکا ہم معنیٰ ہے ۔ یہ تفصیل اِس حقیقت پر دال ہے کہ لفظ’’ اﷲ‘‘اِنسانی مخلوق کی ایک مشترکہ امانت ہے اور اپنے اندر معبود ہونے کے مقدّس احساسات اِنسانی نفسیات میں قدرتی طور پر پیوست کر دیتی ہے۔خدانہ خواستہ اِس میں کوئی فرد یا گروہ کھلواڑ کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو خود اﷲ اِس کی عصمت کی حفاظت اپنے ذمہ لیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں سورۂ اعراف(۷)میں ارشاد ہوا ہے:’’اور’’ اﷲ‘‘ کے لیے احسن ترین نام ہیں،پس اُسے پکارواِن(ہی حسین ناموں)سے، اورایسے افراد کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے ساتھ جھگڑے کرتے ہیں،بہت جلد یہ اپنے کرتوتوں کی سزا پائیں گے۔‘‘(۱۸۰)۔

ظاہر ہے، خدا نخواستہ وہ لوگ جو’’ اﷲ‘‘ کے نام کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے اِستعمال کرنے کی نیت رکھتے بھی ہیں، جیسا کہ ملیشیاء کی مذکورہ وزارت کواندیشہ ہے، توکیا ایسے لوگوں کے کرتوتوں کے لیے سزا کی وارننگ اِس آیت میں موجود نہیں ہے؟ہم اِن کے خلاف واویلا مچا کر کیوں اِن کی سزا میں تخفیف کی ذمہّ داری لے رہے ہیں، جب کہ خود رب تعالےٰ ، اِنہیں سزا دینے والا ہے؟

ہم آخر میں وہ بات بھی صاف کر دینا چاہتے ہیں،جو مسلمانوں میں بہت عام کر دی گئی ہے اور وہ یہ کہ اﷲ کے ۹۹ نام ہیں۔اصل میں لفظ ’’اِسم‘‘ کے دو معنیٰ ہو تے ہیں، ایک ،’’نام‘‘ اور دوسرے،’’صفت‘‘۔اصل میں یہ ۹۹ نام، نام نہیں بلکہ یہ’’ اﷲ‘‘ کی ۹۹صفات ہیں۔اسلئے کہ سب میں اول میں ــ ال لگا ہوا ہے۔ لیکن سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ ہم اُس عظیم ہستی اور مالک ِ کائنات کی صفات کو صرف ۹۹ کے عدد تک محدود کرنے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں؟جب کہ خود قرآن ایک دوسری ہی بات ہمارے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔سورہٗ کہف(۱۸)میں اﷲ نے کہہ دیا ہے:’’فرمادیں، اگر سمندر روشنائی ہو،میرے رب کے کلمات کے لیے تو بحر کا پانی ختم ہو جائے گا، اس سے پہلے کہ کلمات رب ختم ہو ں اور اگرچہ ہم لے آئیں اس جیسا اورکوئی سمندر مد د کو،(۱۰۹)۔اِسی طرح سورۂ لقمان(۳۱) میں کہا گیا:’’اور اگر یہ ہو کہ جو زمین کے سارے درختوں کی قلمیں اور کاغذ بن جائیں، اور سمندر سیاہی بن جائیں، اس کے بعد، سات سات سمندر اوربھی ہوں، تو بھی اﷲ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، بے شک اﷲ عزیز ہے حکیم ہے۔‘‘ (۲۷)ـ

اِن آیتو ں سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اﷲ نے اپنی چند صفات کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اﷲ خود لامحدود صفات کی حامل ہستی کا نام ہے۔ہم کون ہوتے ہیں اُسے چند صفات یاچند ناموں میں محدود کردینے والے؟

اِس دور کے اہلِ ایمان کا المیہ یہ ہے کہ وہ مشہور وہی باتیں کردیتے ہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتیں یا قرآنی حقائق سے ٹکراتی ہیں ، اور اُن حقائق سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتاجو قرآن اُن کی ہدایت کا سامان بنا کر پیش کر تا ہے۔ ہم اگر تاریخ پر نظرڈالتے ہیں تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ لبنان ، شرق اردن ، شام، مصر، فلسطین اور بر اعظم افریقہ کے کئی ممالک میں آباد لاتعداد لوگ اسلام کے پیروکار نہ ہونے کے باوجود اُن کی مادری زبان عربی ہے ۔ اِس بنا پر یہ لوگ بھی چودہ سو سالوں سے اپنے معبود کے لئے عربی لفظ ’’اﷲ ‘‘ کا استعمال تواتر کے ساتھ کرتے آرہے ہیں۔کیا کسی دور میں بھی وہاں کے مسلمانوں نے یا مسلمانوں کے کسی طبقے نے اِنہیں ’اﷲ‘ کے لفظ کوبہ طورِ ’معبود‘ اِستعمال کرنے سے کبھی منع کیاہے؟ کیا اِن کا اسلام الگ ہے اور کیایہاں کابسنے والا مسلمان ان سب سے ہٹ کر کسی اور مخلوق کا نام ہے؟ایسا نہیں ہے توپھرکیوں آج ملیشیا ء یا ملیشیائی عوام بین المذاہب امن و امان کودرہم برہم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں؟

Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.