طارق لون
کئی سیاسی کارکن اس بات پہ حیران اور پریشان ہو جاتے ہیں کہ کس طرح بعض
سیاسی رہنما عوام کے حقوق پر مبنی اچھی اچھی باتیں کر کے اسے ذاتی فائدے کے
لئے استعمال کرتے ہیں۔ عام سیاسی کارکن سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنما کو عوام
کی پریشانیوں کا احساس ہوا ہے اسی لئے وہ عوامی حقوق کی بات اٹھا رہے ہیں
لیکن جلد ہی وہ سیاسی رہنما عہدہ اور دوسرے مفادات حاصل کرتے ہوئے نظر آتا
ہے۔عوام کے حقوق کی بات خیالی پلاؤ کی طرح ہوا میں بکھر جاتی ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ
(ن) آزاد جموں و کشمیر میں شامل سیالکوٹ سے جموں کے مہاجرین کی سیٹ سے آزاد
کشمیر اسمبلی کے رکن محمد حسین سرگالہ نے مہاجرین کے مسائل اور آزاد کشمیر
میں سرکاری سطح پر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اسمبلی میں بات کرنا
چاہی لیکن حکومت نے انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان کی جماعت مسلم
لیگ(ن) نے بھی اس معاملے پر ان کا ساتھ نہیں دیا۔اسی صورتحال میں حسین
سرگالہ نے مسلم لیگ(ن) کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ایک سیاسی کارکن کے طور
پر میں نے یہ تمام تفصیل اخبارات میں پڑھی تو مجھے گمان ہوا کہ حسین سرگالہ
نے مہاجرین کو درپیش مشکلات و مسائل کی آواز اسمبلی میں اٹھانے کی کوشش
کرتے ہوئے اچھا کام کیا ہے اور مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر نے مہاجرین کے مسائل
پر حسین سرگالہ کا ساتھ نہ دیتے ہوئے مہاجرین کش پالیسی کا اظہار کیا
ہے۔میں نے اس وقت حسین سرگالہ کو حق پر تصور کرتے ہوئے ان کی حمایت میں
مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔حیرت انگیز طور پر
حسین سرگالہ کی حمایت میں ایک بھی آواز بلند نہ ہوئی اور نہ ہی کسی نے حسین
سرگالہ کے اس اقدام کا کوئی نوٹس لیا۔اس کے باوجود میں یہی سوچتا رہا کہ
حسین سرگالہ نے مہاجرین کی آواز بلند کر کے بہادری کا کام کیا ہے اور مسلم
لیگ(ن) آزاد کشمیر نے ان کا ساتھ نہ دیکر مہاجرین کو نظر انداز کرنے کی
صورتحال واضح کی ہے۔ انہی دنوں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق
حیدر خان اور سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر نے مجھے طلب کرتے ہوئے میرے
استعفے سے متعلق استفسار کیا۔ان کا پوچھنا تھا کہ میرے دل کا دردابھر
آیااور میں نے جذباتی انداز میں حسین سرگالہ کے مہاجرین کے حق میں کئے گئے
اقدامات کی حمایت کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا کہ
مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر نے مہاجرین کے معاملے پر حسین سرگالہ کا ساتھ نہ
دیتے ہوئے مہاجرین کی مخالفت کا ثبوت دیا ہے۔سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے
والے صدر جماعت راجہ فاروق حیدر اور سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر میری باتیں
سن کر مسکرانے لگے۔انہوں نے میری تلخ و ترش باتیں تحمل سے سنیں۔انہوں نے
مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ حسین سرگالہ کو مہاجرین یا ان کے مسائل سے کوئی
ہمدردی نہیں ہے ۔حسین سرگالہ آزاد کشمیر حکومت کا وزیر بننے کے لئے بے چین
ہے اور اسی لئے وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق مسلم لیگ(ن) سے اختلافات
ظاہر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لئے پر تول رہے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ آپ جس شخص کو مہاجرین کا مسیحا سمجھ رہے ہیں وہ مہاجرین کا نام استعمال
کرتے ہوئے پیپلز پارٹی حکومت سے مفادات حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔انہوں نے
یہ بھی کہا کہ دیکھنا آئندہ چند ہی روز میں حسین سرگالہ کی مہاجرین سے نام
نہاد محبت بے نقاب ہو جائے گی ۔
انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں اپنا استعفی واپس لے لوں اور مہاجرین کے لئے
کام کروں۔میں نے ان کی بات مانتے ہوئے اپنا استعفی واپس لے لیا۔چند ہی دنوں
کے بعد راجہ فاروق حیدر خان اور شاہ غلام قادر کی کہی گئی بات پوری ہونے
لگی۔حسین سرگالہ باقاعدہ طور پر پی پی پی آزاد جموں و کشمیر میں شامل ہوگئے
اور اپنے بیٹے اکمل سرگالہ کو وزیر اعظم آزاد کشمیر کا مشیر مقرر کروا
لیا۔یوں اکمل سرگالہ کو اپنے والد حسین سرگالہ کی سیاسی چال بازی کی وجہ سے
بیٹھے بٹھائے وزیر اعظم کی مشیری مل گئی۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وزیر
اعظم آزادکشمیر کے مشیر کو وزیر کے برابر مراعات ملتی ہیں۔اس طرح اکمل
سرگالہ جس کا آزاد کشمیر کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں،کو گھر بیٹھے ہوئے
وزیر اعظم آزاد کشمیرکی مشیری کی سو غات مل گئی۔ یہ حسین سرگالہ کی طرف سے
اپنے بیٹے کے لئے ایک شاندار اور نایاب تحفہ تھا۔
حسین سرگالہ نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے اور اپنے بیٹے کو وزیر اعظم آزاد
کشمیر کا مشیر بنوانے کے بعد مزید ناجائز مفادات کے حصول کی کوششیں تیز کر
دیں۔حسین سرگالہ نے پیپلز پارٹی کے وزراء ماجد خان،چوہدری اکبر ابراہیم ،اظہر
گیلانی و دیگر کے ساتھ مل کر وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف کرپشن کی
ایک طویل فہرست پیش کرتے ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر
دی۔حسین سرگالہ بھول گئے کہ اسی وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے ان کے بیٹے
کو اپنا مشیر بنایا ہے۔حسین سرگالہ کی سیاسی اخلاقی حالت یہ ہے کہ انہیں اس
بات پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی کہ جس وزیر اعظم کے خلاف وہ عدم اعتماد کی
تحریک پیش کر رہے ہیں، ان کا بیٹا ان کی آشیر باد سے اسی وزیر اعظم کا مشیر
ہے۔اگر حسین سرگالہ میں ذرا برابر بھی حمیت ہوتی تو وہ وزیر اعظم آزاد
کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو وزیر
اعظم کی مشیری سے مستعفی کراتے۔لیکن وزیر کے برابر مراعات،پروٹوکول اور
اختیارات کو ٹھکرانا حسین سرگالہ کی مفاداتی ہمت کے بس میں نہیں ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کی مداخلت سے
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی
تو حسین سرگالہ نے اپنی دولت کے بل پر فریال تالپور کی ملاقات کی سعادت
حاصل کی اور ان کے پاؤں پکڑ کر زبانی ہی نہیں تحریری طور پر بھی معافی طلب
کی۔یوں دوسری بار سیاسی بدکرداری کا عریاں مظاہرہ کرنے کی صلے میں حسین
سرگالہ کا بیٹا اکمل سرگالہ دوبارہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کا مشیر بن گیا
اور خود بھی اسی وزیر اعظم چوہدری عبدلمجید کی کابینہ میں وزیر کا عہدہ بھی
حاصل کر لیا۔حسین سرگالہ کی سیاست کی غیر اخلاقی حرکات سے یہ حقیقت بھی
عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئی کہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں
شامل افراد کروڑوں روپے دیکر اپنے لئے حکومتی عہدے حاصل کر پائے ہیں۔ یوں
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی ایسی بے حمیت ،مفاد پرست اور بدعنوان حکومت
ایک شرمناک سیاسی منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔یہ سب بتانے کا مقصد یہ کہ اکثر
سیاسی رہنما کئی اوقات باتیں تو اچھی اچھی کرتے ہیں لیکن ان کا عوام کے حق
میں اچھی چھی باتیں کرنے کا مقصد ناجائزمفادات حا صل کرنے کے لئے ’’ پریشر‘‘
پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یوں ایسے افراد آزاد کشمیر کے سیاست میں رائج مفاد
پرستی پر مبنی لوٹ مار کی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں ۔ |