احتساب ۔۔۔مگر کیسے ۔۔۔۔؟

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا جب تم کسی بیوقوف کو دیکھتے ہو کہ وہ لوگوں کی بے عزتی کررہا ہے تو تم اس پر انکار کیوں نہیں کرتے ؟لوگوں نے کہا ہم اس کی زبان درازی سے ڈرتے ہیں حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا اس طرح تو تم ( قیامت کے دن نبیوں کے) گواہ نہیں بن سکوگے ۔

حضرت عثمان ؓ نے فرمایا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اہتمام سے کرتے رہو اور اﷲ کے دین کے لیے کوشش کرتے رہو ورنہ ایسے لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے جو تمہیں درد ناک عذاب دیں گے اور اﷲ تعالیٰ انہیں عذاب دے گا ۔

حضر علی ؓ نے فرمایا تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرضرور کرتے رہنا ورنہ تم پر تمہارے بُرے لوگ مسلط کر دیئے جائیں گے پھر نیک لوگ بھی دعا کریں گے پھر بھی قبول نہیں ہو گی ۔

حضر علی ؓ نے ایک بیان میں ارشاد فرمایا اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ لوگ گناہوں کے ارتکاب کرتے تھے اور ان کے ربانی علماء اور دین مشائخ نے انہیں ان گناہوں سے روکا نہیں جب وہ گناہوں میں حد سے بڑھ گئے اور ربانی علماء اور دینی مشائخ نے انہیں نہ روکا تو آسمانی سزاؤں نے انہیں پکڑ لیا اس لیے تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ تم پر بھی وہی سزائیں نازل ہوں گی جو ان پر ہوئی تھیں اور اس بات کا یقین رکھو کہ امر بالمعروف نہی عن المنکر سے روزی ختم نہیں ہوتی اور موت کا وقت قریب نہیں آتا ۔

قارئین یہ بات طے ہے کہ روز ازل سے لے کر روز ابد تک خیر و شر کی جنگ جاری تھی ،ہے اور جاری رہے گی انسان کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ غلطی کرتا ہے اور اس کے بعد توبہ کرتا ہے یہ توبہ کرنے والا انسان رب کائنات کو بہت محبوب ہے نادم ہونے والا ،شرمندگی کا اظہار کرنے والا اور اپنے خالق سے معافی طلب کرنے والا خطاؤں کا پتلا یہ انسان اسی لیے زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا گیا اور اسی لیے شیطان مردود کو ایک معین مدت کے لیے رب کائنات نے مہلت دے دی ۔ہمارے آج کے کالم کے موضوع کے ساتھ اس تمہید کا براہ راست تعلق ہے دنیا کے تمام ممالک میں یہ بات نوٹ کی جا سکتی ہے کہ وہاں پر تمام حکومتی عہدیداروں سے لے کر ہر جگہ پر کام کرنے والے اہلکاروں کے لیے دو طرح کے احتساب کے نظام کام کر رہے ہوتے ہیں احتساب کا ایک سیٹ اپ ’’خود احتسابی ‘‘ کہلاتا ہے جو کسی فرد کے ضمیر سے لے کر کسی ادارے کی اندرونی احتسابی سلسلے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے او ردوسرا سیٹ اپ ریاستی اداروں کی شکل میں دیکھنے میں آتا ہے جو افراد اور اداروں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کہیں ایسی حرکت تو نہیں ہو رہی جو مفاد عامہ اور مفاد مملکت کے خلاف ہے اس حوالے سے ہم اپنے مہربان دوست برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تا حیات رکن لارڈ نذیر احمد سے ہونے والی ایک اہم گفتگو کا حوالہ بھی نقل کرتے چلیں ۔لارڈ نذیر احمد نے کچھ عرصہ قبل ہم سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ برطانیہ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ حکمران جماعت کے با اثر ترین لوگوں نے اگر عوامی ٹیکس کے ادا کردہ بجٹ کی رقم میں سے کوئی بھی خرچ اگر قانون اور ضابطے سے ہٹ کر کیا اور میڈیا پر یہ بات رپورٹ ہو گئی یا خود احتسابی کے عمل یا اداراتی احتساب کے نتیجے میں یہ بات سامنے آگئی تو ان با اثر ترین لوگوں کو اپنی نشستوں سے استعفیٰ دینا پڑا ۔لارڈ نذیر احمد نے اس حوالے سے ان خاتون برطانوی پارلیمنٹرین کی مثال بھی پیش کی کہ جس نے اپنے شوہر کے ہمراہ ایک دورے کے دوران ہوٹل میں قیام کیا اور اس پارلیمنٹرین کے شوہر نے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر ایک ویڈیو فلم دیکھی او ر اس کے اخراجات بھی چارج کیے ۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا انٹر نل آڈٹ کے بعد ثابت ہو گیا کہ خاتون پارلیمنٹرین کے شوہر نے قانون کے خلاف یہ رقم خرچ کی ہے اور یہ امر قابل احتساب ہے یہ بات منظر عام پر آتے ساتھ ہی اس خاتون وزیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ۔اسی طرح برطانیہ سے لے کر یورپ کے مختلف ممالک کی طرف آپ دیکھیں تو آپ دنگ رہ جائیں گے احتسابی عمل کی ایسی ایسی کہانیاں اور داستانیں دکھائی دیتی ہیں کہ پاکستان او رآزاد کشمیر ایک شہری ہوتے ہوئے ہمیں یہ سب کی سب ’’ الف لیلا‘‘ کی داستانیں معلوم ہوتی ہیں ۔ڈنمارک ،سویڈن ،ناروے ،سوئٹزر لینڈ سے لے کر یورپ کے مختلف ممالک کے ان واقعات کو جب آپ پڑھتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ عوام کے خون پسینے سے ادا کردہ ٹیکس کے پیسے کو یہ ریاستیں کتنا مقدس خیال کرتی ہیں اور اس پیسے کی حفاظت کے لیے کیسے کیسے انتظامات انہوں نے کر رکھے ہیں ۔اسی طرح امریکہ جسے ہم صبح شام مسلمانوں کا دشمن اور شیطان کا پیروکار قرار دیتے ہوئے گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں وہاں پر بھی پبلک منی کے تحفظ کے سلسلے میں نا صرف قوانین موجود ہیں بلکہ اس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی قانون توڑ دے تو اس کے لیے انتہائی سخت سزائیں موجود ہیں اور قانون کی عمل داری اس حد تک موثر ہے کہ صدر مملکت سے لے کر وزراء تک اور بڑے بڑے مافیا ڈانز سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیز کے سربراہان تک قانون کی گرفت سے ہر گز نہیں بچ سکتے ۔

قارئین دوسری جانب آئیے اب کچھ نظر اپنے آپ پر دوڑا لیں ۔پاکستان اور آزادکشمیر میں آزادی سے لے کر اب تک کرپشن اور لوٹ مار کی اب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کہانیاں منظر عام پر آچکی ہیں لیکن جو جتنا بڑا بدمعاش ہے وہ اتنا ہی زیادہ قابل احترام ہے جس نے اس قوم کو جتنا زیادہ لوٹا ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے جس نے اس مملکت کی معاشی و نظریاتی سرحدوں کو جتنا زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ اتنا ہی بڑا خیر خواہ اور ولی اﷲ بن کر گھومتا ہے ۔لوٹ مار کی یہ تمام داستانیں میڈیا کے ذریعے اور سینہ گزٹ کے ساتھ ایک جہان کو معلوم ہیں ۔بظاہر دیکھنے میں تو کرپشن کی روک تھام کے لیے احتسابی ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں ،انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ بھی کام کر رہا ہے ،اداروں کا خود احتسابی کا نظام بھی موجود ہے ،محتسب اعلیٰ کا دفتر بھی زمین پر قائم دکھائی دیتا ہے لیکن ان تمام اداروں کے ہونے کے باوجود کرپشن کا مقابلہ یا روک تھام کرنے میں ان اداروں کا ’’ ہونا یا نہ ہونا ‘‘ ایک برابر ہے ۔ہم نے اسی سلسلہ میں گزشتہ روز ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایک مذاکرہ ’’ احتسابی اداروں کی کارکردگی ‘‘ کے عنوان سے رکھا ۔اس مذاکرہ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی و رہنما پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی ذہنی حالت اس طرح کی ہے کہ وہ اپنے وزراء کو گالیاں دیتے ہیں ،سیکرٹری صاحبان سے لے کر بیوروکریسی کے بڑے بڑے آفیسران تک کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے پارٹی ورکرز سے لے کر میڈیا سے تعلق رکھنے والے معزز دوستوں کو بھی گالیاں سے نوازتے ہیں اور اس تمام گالم گلوچ کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ ریاستی وسائل کو لوٹا جائے اور دل کھول کر کرپشن کی جائے اور قانون اور ضابطے کے نام پر اگر اس کرپشن کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے تو ان شخصیات اور اداروں کو گالیوں سے نوازا جائے ۔پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر یہ سمجھتی ہے کہ آزادکشمیر میں احتساب کے نام پر قائم کردہ چاروں ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں احتساب بیورو کا سربراہ ایک شریف انفس انسان ہے لیکن انکی آرام کرنے کی عمر میں انہیں ایک انتہائی فعال ادارے کی سربراہی دے کر ادارے اور ان کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئیں ہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ،انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور محتسب اعلیٰ کے ادارے بھی اسی طرح غیر فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے لوگوں کا ہاتھ کوئی بھی نہیں پکڑ رہا ۔چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ ایک کشمیری ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ہم کاسۂ گدائی لے کر وفاقی حکومت کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اس وقت کشمیری قوم کا وقار بُری طرح مجروح ہو رہا ہے چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید اس وقت ریاست کے چوتھے ستون صحافت کو بھی تباہ کرنے کے در پے ہیں اور میرپور میں ایوان صحافت میں انہوں نے معزز صحافیوں کے ساتھ جو زبان استعمال کی اس کی ہم نے آزادکشمیر اور پاکستان بھر میں مذمت کی ہے ریاست کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سنجیدہ سوالوں کے جواب میں اس رویہ اور زبان کا استعمال کرے ۔چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ اگر شروع سے ہی احتساب کرنے والے ادارے اپنا کام بہتر طریقے سے کر رہے ہوتے تو آج آزادکشمیر کی وہ حالت نہ ہوتی جو سب کو نظر آرہی ہے کرپشن کرنے والی تمام شخصیات کو عبرت کا نشانہ بنائے بغیر ہم کرپشن نہیں روک سکتے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومتی شخصیات نے اپنی کرپشن جاری رکھنے کے لیے احتساب کرنے والے تمام اداروں کو غیر فعال کر دیا ہے اور اس کا خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون کی عمل داری ختم ہو تی جا رہی ہے ۔چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ یہ حکمرانوں کی نیتوں کا فتور ہو تا ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں میڈیا اور صحافیوں میں کیڑے دکھائی دیتے ہیں او ر جب وہ اقتدار چھن جانے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو یہی میڈیا اور صحافی ان کی آنکھوں کے تارے بن جاتے ہیں یہ سراسر منافقت پر مبنی رویہ ہے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے راہنما خواجہ فاروق نے کہا کہ احتساب بیو رو آزادکشمیر کے سربراہ سردار رفیق محمود ایک انتہائی دیانت دار شخصیت ہیں لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے ان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ زیادہ بھاگ دوڑ کر سکیں ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی مجاور حکومت اور مجاور کابینہ اپنی کرپشن جاری رکھنے کیلئے احتساب بیورو سمیت تمام احتسابی اداروں کو اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرنے دے رہے ۔خواجہ فاروق نے کہا کہ بد قسمتی سے سابق دور حکومت میں احتساب بیورو سے سو مو ٹو ایکشن لینے کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھے جس سے اس ادارے کی کارکردگی پر بہت بُرا اثر پڑا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ احتساب بیور و کو سوموٹو ایکشن لینے کا اختیار واپس دیا جائے ۔خواجہ فاروق نے کہاکہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے میرپور میں ایوان صحافت میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے کی بجائے جس ترش روئی کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے اس پر ملک بھر میں شدید ترین احتجاج کیا ہے مجاور حکومت جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل ،میڈیکل کالجز سکینڈل ،کلک آئی ڈیز سکینڈل سے لے کر مختلف سکینڈلوں میں براہ راست ملوث ہے اور ہم نے مجاور حکومت کی کرپشن کے تمام تر ثبوت پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک پہنچا دیئے ہیں ایک ڈیڑھ مہینے کے اندر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور کشمیری قوم کی ذلت کا سبب بننے والے ان کرپٹ حکمرانوں سے نجات مل جائے گی ۔خواجہ فاروق نے کہا کہ اس وقت اربوں روپے لوٹے جا چکے ہیں اور احتساب کرنے والے تمام اداروں کو غیر موثر کر کے موجودہ حکومت اپنی کرپشن جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے ۔

قارئین یہ تو وہ گفتگو ہے جو ان معزز سیاستدانوں نے احتساب اور احتسابی اداروں کے حوالوں سے آزادکشمیر کے پس منظر میں کی اگر ہم پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنرل مشرف نے جب 2008میں اقتدار چھوڑا تھا تو پاکستان پر قرضوں کا حجم 34ارب ڈالر کے قریب تھا جو کھپے والی سرکار آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور اقتدار میں دگنا ہو کر 70ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا گویا 60سال کے دوران پاکستان پر جتنا قرضہ چڑھا اس سے بھی زیادہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان کے سر پر چڑھا دیا گیا اس چھوٹی سی مثال ہی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں بھی نیب سمیت دیگر احتسابی ادارے ’’ کتنا موثر ‘‘ کردار ادا کر رہے ہوں گے یہاں ہم نام لیے بغیر یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان کے مختلف سیاسی خاندان اور شخصیات جو شاعر انقلاب حبیب جالب او ر فیض احمد فیض کے دور میں ’’ بائیس گھرانے ‘‘ کہلاتے تھے اب وہ بڑھتے بڑھتے ’’ دو سو بائیس گھرانے ‘‘ بن چکے ہیں گویاپہلے بائیس خاندان پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے پر پلتے تھے آج ان کی تعداد دو سو بائیس ہو چکی ہے ۔کاروباری اور صنعت کاری کے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات کے مالیاتی اثاثوں میں جس طریقے سے ریکارڈ اضافہ ہوا ہے وہ بھی انتہائی مشکوک اور قابل دست اندازی احتسابی ادارہ جات ہے لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ‘‘ کیوں کہ اگر میڈیا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ولی خان بابر سے لے کر مختلف میڈیا کے شہیدوں کی فہرست سامنے آ جاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں بلا مبالغہ ’’ اٹلی کے ڈان مافیا ‘‘ کی حکومت ہے ۔کراچی کے مختلف علاقوں میں جس طرح بھتہ اکھٹا کرنے کے لیے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں اسی طرح پاکستان اور آزادکشمیر بھر میں بھی مختلف علاقوں اور اداروں میں ’’مختلف کن ٹٹے اور ڈان ‘‘ معزز عہدوں پر براجمان ہو کر اپنی غنڈہ گردی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہاں ہم آزاد کشمیر کی ایک میونسپل کارپوریشن کے ایک ایسے سربراہ کی طرف بھی اشارہ کرتے جائیں کہ جو چیف سیکرٹری آزادکشمیر خضر حیات گوندل کے واضح احکامات کے بعد دو ماہ سے شہر میں ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے اعلانا ت تو کرتے پھر رہے ہیں لیکن تمام شہر ان پر ہنستا ہے کیوں کہ ان کا اپنا گھر محکمہ صحت کی جگہ پر قبضہ کرنے کے بعد بنایا گیا گویا شیشے کے گھر میں بیٹھ کر وہ دوسروں پر سنگ باری کر رہے ہیں اگر پتھروں کا نشانہ بننے والے لوگوں نے ’’ ایک آد ھ وٹہ ‘‘ جوابی طور پر انہیں مار دیا تو خدا جانے انکا اور ان کے مربی و محسن وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کیا بننے گا۔یہاں ہم چچا غالب کی زبان میں کہتے چلیں ۔

درد منت کش ِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا ،بُرا نہ ہوا
جمع کرتے ہوئے کیوں رقیبوں کو ؟
اک تماشہ ہوا گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں ؟
تو ہی جب خنجر آزمانہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہو ا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی ؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

قارئین اسلامی تاریخ دیکھ لیں یا انسانی تاریخ پر نظر دوڑا لیں جو قومیں اپنا احتساب کرنا جانتی ہیں آج وہ زمانے میں ترقی کی منازل طے کر چکی ہیں اور جن قوموں نے ہماری طرح احتساب سے دوری اختیار کی وہ مٹی میں مل گئیں ۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم عروج پر پہنچنا چاہتے ہیں یا زوال در زوال کے عمل سے گزرتے ہوئے مٹتی ہوئی تاریخ کا حصہ بننا چاہتے ہیں فیصلہ دیجیے اور کچھ کیجئے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
رات کے وقت ایک گھر میں چو ر گھس آیا مختلف چیزیں اٹھانے کے بعد جب چور گھر سے جانے لگے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ جاگ رہا ہے اس بچے نے چوروں سے کہا
’’ میرا بستہ بھی ساتھ لے جائیں ورنہ میں امی ابو کو جگا دو ں گا ‘‘۔

قارئین احتساب کرنے والے تمام ادارے بستہ ب کے تمام بدمعاشوں کو قابو کریں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بدمعاش اپنی اپنی بدمعاشیوں کے تمام بستوں سمیت ملک سے فرار ہو جائیں ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336958 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More