سیاسی صورتحال اور ہمارا قومی رویہ

ہماری قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بلکل ختم ہو گئی ہے۔ہم اتنے بھولے اور سادے ہیں کہ خود جھوٹ کا دست وبازو بن جاتے ہیں ہم سازشوں دھوکا دہی اور جھوٹے پرو پیگنڈے کا حصہ اکثر کیوں بنتے ہیں کیوں کہ ہم نا کچھ سوچتے ہیں نہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کسی چیز کا کھلے دل و دما غ سے تجزیہ کرتے ہیں ہم ہمیشہ تعصب کی عینک پہن کر دیکھتے ہیں اور کسی کی ایک خامی کو یا غلطی کو بنیاد بنا کر سکی تمام تر قابلیتیوں اور خوبیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ہم اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے آج اتنے مسائل کا شکار ہیں اور اگر کوئی ان مسائل سے نکالنے کیلئے قوم کو آواز دے تو ہم اسکے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہم نے خود دودھ کی رکھوالی پہ بلی کو بٹھایا اور اب بلی کو گالیا ں دیتے ہیں۔اگر پاکستان کو کسی سیاستدان نے لوٹا ہے کسی نے پاکستان کو برباد کیا ہے تو انکو گالیا ں دینے کی بجائے اپنا گریبا ن پکڑنا چاہئے کیوں کہ انکو مسند اقتدار پر بٹھانے والے ہم ہیں جب خود ایک چور اور لٹیرے کے حوالے اپنا ملک کر دیا تو اب رونے کاکیا فائدہ کہ وہ ملک لوٹ کر لے گیا اسکا تو کام ہی لوٹنا تھا تم نے خوداسکو اپنے خزانے کی چابی دی اب بھگتو مزے سے۔ابھی کچھ دن پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کی انقلاب کی کال دی تھی ۔انھو ں نے لانگ مارچ کیا اور ایک منظم پرامن مارچ کر کے نئی تاریخ رقم کردی ۔اسوقت صرف انکے کارکنان انکے ساتھ تھے انھوں نے پوری قوم کو پکارا مگر قوم باہر نہ صرف گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی رہی۔انھوں نے ۲۳ دسمبر سے ۱۱مئی تک قوم کو اس کرپٹ نظام ان کرپٹ لوگوں اور کرپٹ اداروں کا اصلی چہرہ دکھا دیا اس جعلی جمہوریت کوننگا کر دیا اور آئین پاکستان بچہ بچہ کو پڑھاد یا قوم کو بتایا کہ آئین نے آپ کو کیا کیا حقوق دئے ہیں جو ان کرپٹ لوگوں نے غصب کر رکھے ہیں۔اسوقت عمران خان بے تبدیلی کے نعرے لگا رہے تھے وہ عوام کوسبز باغ دکھا رہے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ کردیں گے بجلی کا مسئلہ حل کردیں گے بیروزگاری ختم ہوگی وغیرہ وہ الیکشن سے تبدیلی چاہ رہے تھے اور طاہر القادری نے انکو خبردار کردیا تھا کہ الیکشن سے تبدیلی نہیں آئے گی الیکشن کے بعد تبدیلی والے دھاندلی کا رونا رو رہے ہوں گے ۔اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ ۱۱مئی کی شام تحریک انصاف کے کارکن دھاندلی کے خلاف دھرنا نے کے بیٹھے تھے اور جو کچھ طا ہر القادری نے اس الیکشن کے متعلق جو کہا تھا وہ سب ۱۰۰فیصد ٹھیک تھا لیکن بجائے یہ دیکھنے کے کہ انھوں نے جو جو کہا سب کچھ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا مگر یہ قوم کہتی ہے کہ وہ چار دن بیٹھ کے واپس آگئے انکو یزید کہ رہے تھے پھر ان سے معاہدہ کرلیا۔ان سوالات کے جوابات تو بہت آسان ہیں اگر کوئی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے تب۔انھوں نے کرپٹ نظام کے خلاف پوری قوم کو آواز دی انکے ساتھ کوئی نہیں نکلا تو اب اعتراض کیسا ؟ پھر انھوں نے انکو جو یزید کہا تو یہ علامتی طور پہ تھا کیا آج کے حکمرانوں کا کردار یزیدی نہیں ہے ؟یزید کیا کرتا تھا وہ کرپٹ تھا قوم کا خزانہ لوٹتا تھا اور یہ سب خوبیاں آج کے حکمرانوں میں موجود ہیں یم این اے ہاؤس فحا شی کے اڈے بنے ہوئے ہیں یہ حکمران جس طرح قوم کو لو ٹ رہے ہیں اس پہ بولنے کے ضرورت نہیں اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے۔اور رہی بات معاہدے کی تو امام حسین علیہ اسلام بھی جب گئے تو پہلے فرمایا کے میں یزید سے مذا کرات کرنا چاہتا ہوں۔اور جب کربلا میں سب گھر والے قربا ن ہو گئے تھے تب بھی حجت تمام کی تھی اور فرما یا تھا اب بھی رک جاؤ میں سارے خاندان کے قتل تمھیں معاف کر دوں گا۔طاہر القادری نے بھی امام حسین علیہ اسلام کی سنت ادا کی بس وہ یزید نہ مانا اور یہ مذاکرات کرنے آ گئے در اصل اور تو اصلی یزید تھا اور یہ اسکے پروکار ہیں اسلئے یزیدیت میں اس یزید سے تھوڑے کم ہیں۔اور اگر اس کی ایک کوشش سے بالفر ض کام نہیں بھی ہوا تو کیا اب کوشش چھوڑدی جائے ؟ملک کو ان لٹیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے جناب عالی اگر ۱۰۰ چوٹوں کے بعد کوئی چٹان ٹوٹتی ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ پہلی چوٹ بیکار تھی ۔ اسکے علاوہ اگر بلکل غیر جانب دار ہو کر دیکھا جائے تو آپ خود دیکھے کہ ایک طرف وہ آدمی ہے جس نے قوم کو اس کرپٹ نظام کے خلاف خبردار کیا اور اسکی باتیں وقت نے سچ ثابت کردیں اور ایک طرف اور آدمی ہے جس نے قوم کی خواب تو بہت دکھائے مگر حاصل کچھ نہیں ہوا قوم کے پاس اب بھی وہی خواری ذلت اور مسائل ہیں کچھ بھی نھیں بدلا ۔تو اب آپ کس کے ساتھ چلیں گے؟؟یہ فیصلہ آپ اپنے شعور سے کریں۔

Hamid Raza
About the Author: Hamid Raza Read More Articles by Hamid Raza: 20 Articles with 20850 views i am Electrical in engineer with specialization in Power... View More