پاکستانی عوام کی تعداد اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ طالبان
سے مذاکرات ہونے چاہیئیں کہ نہیں؟اکثریت کا خیال ہے کہ ہونے چاہیئیں کیونکہ
دہشت گردی کی وجہ سے ملک کا بیڑا غرک ہو رہا ہے۔پاکستان کی معیشت پر اس کے
بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاریہاں پر سرمایہ کاری
کرنے کو تیار نہیں جس کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہے جس کے باعث انہیں اپنی
جانوں کے خطرات لا حق ہیں جبکہ ملک کی معیشت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بے
روزگاری مزید بڑھ رہی ہے گویا تمام بنیادی مسائل کی وجہ ملک میں ہونے والی
دہشت گردی ہے۔
پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہونے ہی والے تھے کہ امریکی
ڈرون حملے نے اس کو سبوتاژکر دیا ،اس ڈرون حملے کے نتیجے میں تحریکِ طالبان
پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ مسعود ہلاک ہو گیاجس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی
کہ آیا وہ شہید ہے کہ نہیں؟جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل
الرحمان نے یہ بیان داغ دیا کہ امریکہ کے مقابلے میں اگر کوئی کتابھی مرے
تو وہ بھی شہید کہلائے گا۔ایسا بیان دے کر مولانا صاحب نے شہید کی بھی
توئین کر دی۔۔۔ ساتھ ہی سونے پہ سہاگہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے
تو یہاں تک کہہ دیا کہ طالبان کے حلاف لڑکر جان دینے والے پاکستانی فوجی
شہید نہیں ہیں کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف لڑ رہے
ہیں۔میں منور حسن صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جب کوئی انتہا پسند گروپ ریاست
کی رِٹ کو چیلنج کرے یا اس ملک کے آئین کو نہ مانے اور معصوم لوگوں کا قتل
عام کرے توریاست کو اس کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے یا نہیں؟
ایک طرف تو منور حسن اور حافظ سعید احمد صاحب بھارت کے خلاف ہیں اور اسے
برا بھلا کہتے ہیں تو دوسری طرف یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تحریک طالبان
پاکستان کے افغان انٹیلی جینس کے ساتھ براہ راست روابط ہیں اور دوسرا یہ کہ
ان کو بھارتی انٹیلی جنس (را) فنڈنگ کرتی ہے۔ایک طرف تو آپ حب الوطنی کا
ڈنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف آپ کی حب الوطنی کیوں نہیں
جاگتی؟ہمیں آپ کی حب الوطنی پر ذرا بھی شک نہیں لیکن مہربانی کیجیے اور
انصاف سے کام لیجیے۔
تحریک طالبان پاکستان نے اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے اور اس نے عہدہ
سنبھالنے کے ساتھ ہی پاکستانی حکومت سے کسی قسِم کے مذاکرات کرنے سے انکار
کر دیا۔ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ مولوی فضل اﷲ سوات آپریشن کے دوران
افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہو گیا تھا اور وہاں سے پاکستانی
عسکری فورسس پر حملے کرتا رہا ہے جن میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی اور دوسرے
اعلی فوجی افسران کی شہادت ہوئی۔اس کے علاوہ یہ سوات میں بچیوں کے سکولوں
کو بھی بمبوں سے اڑاتا رہا ہے۔
اب یہ ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے کہ کس طرح وہ طالبان سے مذاکرات
کرتے ہیں کیونکہ ٹی ٹی پی نے پہلے ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار
کر چکے ہیں،اور اگر یہ مذاکرات نہیں ہوتے تو ان طالبان کے خلاف پاکستانی
ملٹری کی طرف سے ایک زبردست آپریشن ہونا چاہیے تا کہ ہم اپنی آنے والی
نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ |