وطن عزیز پاکستان میں نئے اسلامی
سال محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی امن وامان کے حوالے سے حالات پریشان کن
ہو جاتے ہیں۔ حکومتیں، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور پاکستان کا ہر فرد ایک
انجانے خوف کے احساس سے دو چار ہو جاتا ہے اور ہر زبان پر یہ دعا ہوتی ہے
کہ اللہ خیر کرے۔اس سال بھی محرم الحرام کا ایک ہفتہ گزرچکا ہے اور ہر طرف
وہی انجانا خوف جو گزشتہ کئی سالوں سے ہمارا مقدر بنا ہوا ہے۔حکومت نے اس
بار ملک بھر میں محرم الحرام کو پرامن بنانے کے لیے اپنی سی کوشش کی ہے۔
ملک بھر میں محرم الحرام کے لیے سیکورٹی انتظامات سخت کیے جارہے ہیں۔اسلام
آباد، کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، ٹانک، نوشہرہ، کوہاٹ اور پاراچنار، ایبٹ
آباد میں محکمہ داخلہ نے نو اور دس محرم کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگادی
ہے۔ جبکہ ڈی آئی خان میں یکم محرم سے سات محرم تک ڈبل سواری پر پابندی اور
سات محرم سے دس محرم تک موٹر سائیکل چلانے پر ہی پابندی لگادی گئی ہے۔ڈیرہ
اسماعیل خان میں محرم الحرام کے دوران سیکورٹی کی ذمہ داری پاک فوج کے
حوالے کردی گئی ہے، امن وامان برقرار رکھنے کے لیے شہر کے اندر اور باہر
پولیس اور فوج کی 35 مشترکہ چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ محرم الحرام
میں سیکورٹی خدشات اور شہریوں کے مطالبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شہر کے
داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کے ساتھ پاک فوج کے جوان تعینات کر دیے
گئے ہیں۔ آٹھویں محرم سے دفعہ 144 کے تحت شہریوں کو گھروں سے نکلنے پر بھی
پابندی ہوگی، صرف جلوسوں اور مجالس میں شرکت کر سکیں گے، انتظامیہ نے مساجد،
عوامی مقامات اور گلیوں کے باہر بینر بھی آویزاں کر دیے ہیں جن پر کسی بھی
ممکنہ ہنگامی صورت کے لیے پولیس کے ایمرجنسی نمبر درج ہیں۔
حکومت پنجاب نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ144(6 ) کے تحت پنجاب کے تمام
ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسران کو اپنے اضلاع میں مذہبی نوعیت کے اجتماعات کے
علاوہ5یا زاید افراد کے اجتماع پر ایک ماہ کے لیے پابندی کی ہدایت
کردی۔قابل اعتراض یا نفرت انگیز مواد کی کسی بھی شکل میں اشاعت یا
الیکٹرانک یا مکینیکل طریقے سے اس کی انفارمیشن کی سٹوریج اور ریٹریول سسٹم
،آڈیویاویڈیوسی ڈیز اور کیسٹوں کے استعمال ، خریداری اور فروخت، لٹریچر ،
پوسٹروں ، پمفلٹوں کی طباعت اور تقسیم،بینروں کی نمائش ،وال چاکنگ، اشتعال
انگیز تقاریریانعرے بازی جس سے دوسروںکے جذبات مجروح ہوں اور کسی دوسرے
عقیدے فرقے یا کمیونٹی وگروپ کی دل آزاری کرنے پر بھی پابندی ہوگی ، اسلحہ
بشمول آتشیں اسلحہ ، لاٹھی ، چاقو، خنجر، برچھا اور اس طرح کے دیگر
ہتھیاروں اور آتشیںمواد کی نمائش ماسوائے جن کی مجاز اتھارٹی نے اجازت دی
ہو ، محرم کے کسی جلوس کو روکنا جس کی مجاز اتھارٹی نے اجازت دی ہو اور اس
کا لائسنس حاصل کیا گیاہو ،محرم کے جلوس کے راستے میں واقع مکانوں یا
دیگرعمارتوں کی چھتوں پر مورچوں کی تعمیر ، پتھروںاور اینٹوں کے جمع کرنے ،
اذان اور خطبے کے سوا مجاز حکام کی اجازت کے بغیر، لاؤڈ سپیکر کے استعمال
پر پابندی کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بلوچستان میں بھی سیکورٹی کے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ کوئٹہ میں سخت
حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ جلوس کو جانے والے تمام راستے سیل کردیے جائیں
گے ۔دسویں محرم کے دوران کوئٹہ میں تین ہزار 8سو پولیس اہلکار،پولیس
کانسٹیبلری کی 70پلاٹون، ایف سی کی 62پلاٹون جبکہ پاک فوج کی ایک بریگیڈ
کوبھی تعینات کیا جارہا ہے۔ فوج کی یہ ایک بریگیڈ حساس مقامات پر تعینات
ہوگی۔ دسویں محرم کے جلوسوں کی فضائی نگرانی بھی کی جائے گی۔ جبکہ جلوس کے
ہمراہ 25جامرز بھی چلیں گے۔ فرنٹئیر کور کی باقاعدہ62پلاٹون کو لگایا جائے
گا۔ پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کے ساتھ فوج کا ایک بریگیڈ اسٹینڈ بائی
ہے۔ ان میں سے کچھ نفری حساس مقامات پر تعینات ہوگی۔خیبر پختونخوا حکومت کا
کہنا ہے کہ ہم نے محرم الحرام میں امن کے قیام کے حوالے سے تمام انتظامات
مکمل کرلیے ہیں۔اس سال محرم الحرام میں مثالی امن قائم کرکے دکھائیں گے۔
سندھ حکومت نے محرم الحرام میں سیکورٹی انتظامات بہتر بنانے کے لیے صوبے
بھرمیں دفعہ 144 کے تحت لائسنس یافتہ اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی عائد کردی
ہے ، یہ پابندی یکم محرم سے 12محرم تک کے لیے لگائی گئی ہے، محرم الحرام
میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے والے لٹریچر اور
وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیاہے۔ محرم
الحرام میں کراچی میں12ہزار سے زائد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے
اداروں کے اہلکاروں کو مرکزی جلوسوں کی سیکورٹی کے لیے تعینات کیا جائے گا،
شہر بھر میں محرم کے جلوسوں کی نگرانی 1250سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی
جائے گی، محرم الحرام میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس
اور رینجرز کے 500کمانڈوز پر مشتمل کوئیک رسپانس فورس بھی کام کرے گی، یہ
رسپانس فورس مرکزی جلوس اور حساس علاقوں میں تعینات کی جائے گی۔ سیکورٹی
پلان کے تحت کراچی کو ایسٹ، ویسٹ اور ساﺅتھ زونز میں تقسیم کیا گیا ہے اور
ہر زون کا سیکورٹی انچارج متعلقہ ڈی آئی جی ہوگا جبکہ اس کے ماتحت متعلقہ
اضلاع کے ایس ایس پی اور ایس پی لیول کے افسران ڈویژن کی سطح پر سیکورٹی
امور کے انچارج ہوں گے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے 8محرم سے 10محرم تک مرکزی
جلوسوں کے لیے سیکورٹی کے مربوط انتظامات کی ہدایت جاری کی ہے اور ان
انتظامات کے تحت متعلقہ تھانوں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو ہدایت جاری
کی گئی ہے کہ انتہائی حساس مقامات کے اطراف میںزیادہ بیدار رہیں۔انسپیکٹر
جنرل پولیس سندھ شاہد ندیم بلوچ نے پولیس حکام کو ہدایت کی ہے کہ دہشت
گردانہ حملوں، سنگین جرائم اور امن وامان پر موثر کنٹرول کے لیے کچی
آبادیوں، مضافاتی علاقوں، تجارتی علاقوں کے جائزوں، سروے، حساس مقامات،
روٹس اور اہم شخصیات کی سیکورٹی کی حکمت عملی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
سیکورٹی پلان کی تیاری میں تمام مکتبہ فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ہر سطح
پر باقاعدہ شیڈول اجلاس اور بعد ازاں ان کی تجاویز و سفارشات کو لازمی طور
پر پلان میں شامل کیا جائے۔ کنٹی جینسی پلان کے تحت صوبے بھر میں ممکنہ دل
آزار وال چاکنگ ختم کرکے ایسے بینرز، پمفلٹس کی تقسیم اور اشتعال انگیز
تقاریر کی روک تھام کی جائے۔ ذاکرین، منتظمین مجالس، جلوسوں کو ڈی آئی جیز
تا ایس ایچ اوز، مرکزی کنٹرول روم ودیگر پولیس کنٹرول رومز کے فون نمبرز پر
مشتمل فہرستیں فراہم کی جائیں تاکہ فوری اور بروقت پولیس رسپانس کے تحت
محرم سیکورٹی پلان کے جملہ اقدامات کو ٹھوس اور موثر بنایا جائے۔ بس
ٹرمینلز، ٹرک اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں وغیرہ کے علاوہ صوبے اور شہروں کے داخلی
و خارجی راستوں اور سرحدی علاقوں کے میدانی راستوں کی کڑی نگرانی، ناکا
بندی کو یقینی بنایا جائے۔ محرم کنٹی جینسی پلان میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے
جملہ امور کا بھی احاطہ کیا جائے۔ حساس علاقوں میں قائم امام بارگاہوں،
مرکزی مجالس اور جلوسوں کی مانیٹرنگ، ویڈیو ریکارڈنگ کے اقدامات کے علاوہ
خصوصی اسٹیکرز کی حامل گاڑیوں کو بھی جلوسوں میں شرکت کی اجازت جیسے
انتظامات کو بھی کنٹی جینسی پلان کا حصہ بنایا جائے۔ محرم الحرا م میں ایم
اے جناح روڈ کو تین دن کے لیے کنٹینرز، بسیں اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر کے
عام ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے جبکہ جلوس کے راستے میں آنے والی تمام
دکانیں اور کاروباری مراکزبھی بند کردیے گئے ہیں ۔ جلوس کی سیکورٹی کے لیے
رینجرز کی100 گاڑیوں کو، حساس اداروں کی 30، پولیس کی 290 سے زائد اور شہری
حکومت سمیت دیگر ایمبولنسز سروسز کی 65 گاڑیوں کو خصوصی اسٹیکرز جاری کیے
گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ محرم الحرام میں امن کے قیام کے حوالے سے سب سے بڑی
ذمہ داری تو حکومت کی ہے کہ وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے جلسے جلوسوں کو نہ
صرف مکمل تحفظ فراہم کرے بلکہ ان میں شریک ہونے والے عوام اور واعظین،
خطباء، مقررین اور ذاکرین کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ وہ کسی کے مسلک
کو چھیڑے نہیں اور اپنے مسلک کو چھوڑے نہیں کے ضابطے کے تحت رہیں گے اور
اگر کوئی اس ضابطے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کسی کے مکتب یا مسلک یا مقدس
شخصیات کی توہین کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق بلاتفریق کارروائی
کی جائے گی پھر ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ ایسے مقررین اور واعظین کا مکمل
بائیکاٹ کریں جو عوام کو فساد پر ابھارتے ہیں یا فرقہ وارانہ نفرت پھیلاتے
ہیں اور آخری اور بڑی ذمہ داری مذہبی قائدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے
اپنے مکتبہ فکر کے علماء، ذاکرین، واعظین اور خطباءکو اس بات کا پابند کریں
کہ وہ کسی کے مسلک اور مقدس شخصیات کی ہر گز توہین نہ کریں،یہ وہ نکتہ ہے
جس پر عمل کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ جو مسائل مقامی سطح
پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئے ہوں ان کو انتظامیہ حل
کرنے کی کوشش کرے ۔ |