مولانا ابوالکلام آزاد

ہندوستان کو آزادی اورملک کے تقسیم کی قیمت چکا نی پڑی، ہندو مسلم میں آزادی کے وقت گھمسان جنگ ہوئی ۔ لیکن ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا بھی اہم رول رہا ہے۔ ہندوستان کے آزادی میں آپ کو ایسی کئی مثالیں ملیں گی جہاں مسلمانوں نے بھی اپنا قربانی دے کر اس ملک کو آزاد کرانے میں مدد کی ہے،ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں مسلم حکمراں اور مسلم مجاہدین کی اہمیت کو کسی طرح کم نہیں کہا جا سکتا ، آزادی کے لئے جن مسلمانوں نے اپنی کاوشیں اور کوششیں کی ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کو آج بھی ہم تہہ دل سے یاد کرتے ہیں۔ہندوستان کے سب سے بڑے ایوارڈ بھارت رتن سے مولانا ابوالکلام آزاد کو مرنے کے بعد نوازہ گیا۔مولانا آزاد وہ مشہور معروف شخصیت ہے جنہیں آج بھی پورا ہندوستان عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔

عالم دین انشاء پرداز سیاستداں محی الدین احمد آزاد کو آج ملک کا ہر شخص جانتا اور پہچانتا ہے ،انہوں نے ہندوستان میں وہ انقلاب لایا جس نے ہندوستان کی صورت ہی تبدیل کردی ،آپ کا آبائی وطن دہلی اور مادری وطن مدینہ تھا۔آپ کے والد مولانا خیر الدین 1857 کی جنگ آزادی کے بعدمکہ میں مقیم ہوگئے تھے ۔انہوں نے آپکی والدہ سے مدینہ منورہ میں نکاح کیا ۔مولانا آزاد 11 نومبر 1888کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔آپ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔آپ کا تاریخی نام فیروز بخت رکھا گیا ،1898 میں مولانا خیر الدین کلکتہ چلے آئے جہاں آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش 11 نومبر، 1888 کو ہوئی تھی ۔ ابوالکلام آزاد کی سالگرہ 11 نومبر کو ہر سال تعلیم کے دن کے طور پر منائی جاتی ہے۔مولانا آزادکا تعلق افغانی علما کے خاندان سے تھا جو بابر کے وقت ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔

مجاہد آزادی حکمراں اورپہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کی پڑھائی بھی زمانے کی روایت کے مطابق مسجد اور مدرسے سے شروع ہوئی تھی،والد نے آپ کو مشرقی علوم کی ابتدائی تعلیم دینا شروع کی ۔گھریلوماحول مذہبی اور دینی عظمت سے رچا بسا تھا،اس لئے مولانا آزاد وقت سے پہلے سنجیدہ ہوگئے کتابیں کھلونا بن گئیں ۔والد نے عربی فارسی کی تعلیم دینا شروع کی اردو ممنوع قراردے دیا تاہم مولاناچوری چھپے اردو کتابیں بھی پڑھتے رہے۔اسی زمانے میں مولانا کو شاعری کا شوق پیدا ہوا ،پہلے اردو اور پھر فارسی میں شاعری کرنے لگے ۔سب سے پہلی غزل بمبئی کے رسالہ ’’ارمغان فرخ ‘‘میں شائع ہوئی ۔اس کے علاوہ ’’خذنگ نظر ‘‘لکھنؤ اور ’’پیام یار‘‘میں بھی آپ کی غزلیں چھپنے لگیں ۔1903 میں درس نظامیہ سے فارغ ہوگئے ۔اس کے بعد فرانسیسی ، انگریزی ادب، عالمی تاریخ اور سیاست جیسے کئی جدید موضوعات میں اعلی تعلیم حاصل کی ۔چونکہ شاعری کا شوق بہت زیادہ تھا اس لئے ’’نیرنگ عالم ‘‘کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو آٹھ ماہ تک برابر شائع ہوتا رہا۔1904 میں جب آپ کی ملاقات مولانا شبلی سے ہوئی تو انہوں نے کہا’’تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں‘‘اس پر آزاد نے کہا’’ نہیں میں خود ۔مولانا ایک بہترین صحافی اور اعلیٰ درجہ کے مفکر بھی تھے ،ان کی صحافتی زندگی کاآغاز ’’نیرنگ عالم‘‘سے شروع ہوگیا تھا،لیکن باقاعدہ طور پر ماہنامہ ’’لسان لصدق‘‘کلکتہ کو آپکی صحافتی زندگی کاسنگ میل کہا جاتا ہے ۔یہ رسالہ 20 نومبر 1903 ء کو جاری ہوا۔اس رسالہ نے اہل علم کے دلوں پر آپکی اہمیت کا سکہ بٹھا دیا۔مولانا شبلی نے آپ کو رسالہ’’الندوۃ‘‘کی ادارت کے لئے منتخب کرلیا ،یہاں آپ اکتوبر 1905 سے 1906 تک رہے ۔اس کے علاوہ امرتسر کے اخبار ’’وکیل ‘‘اور کلکتہ سے شائع ہونے والے دارالسلطنت کی بھی ادارت کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں،لیکن ذاتی آراء کی خاطر اپنا اخبار نکلنے پر مجبور ہوگئے ۔ آخر کار 13 جولائی 1912 ء کو اپنا اخبار ’’الہلال ‘‘جاری کیا ۔اور اس کے صفحات پر ایسے قومی اور مذہبی مسائل زیر بحث آئے جن سے ملت اسلامیہ کے ذہنی نقشے بدل گئے ۔مولانا نے پرانے انداز سے ہٹ کر آزاد صحافت کو جنم دیا ۔جس کی وجہ کر اس وقت کی حکومت کو آپ کا وجود کھٹکنے لگا ۔انہدام مسجدکانپور کے سلسلے میں ’’الہلال ‘‘کے مضامین نے حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا۔اور16 نومبر1914 ء کو’’ الہلال‘‘کی ضمانت ضبط کرلی گئی ۔1915 میں انھیں بنگال سے خارج کردیا گیا ۔’’الہلال‘‘کے بعد مولانا نے’’ البلاغ‘‘کو نئے رخ پر نکالا۔اس میں عمل نفسیات کا درس اور فکرو بصیرت اور روحانی عزم کا پیغام دینا شروع کیا ۔’’البلاغ‘‘کا سلسلہ بند ہوا تو ایک اور اخبار ’’پیغام ‘‘کلکتہ سے جاری کیا ۔1927 ء میں الہلال کو دوبارہ جاری کیا گیا۔اس کے بعد انہیں رانچی میں نظر بند کردیا گیا۔1920 میں جب آپ نظر بند سے واپس آئے تو آپکی ملاقات گاندھی جی سے ہوئی ۔1920 اور1921 کے دوران آپ نے سینکڑوں تقریریں کیں ۔اکتوبر 1921 ء کو آپ نے صوبائی خلافت کانفرنس آگرہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو گاندھی جی کے اصول اختیار کرنے کی دعوت دی اسی سال علی برادران پر مقدمہ چلایا گیا چنانچہ تمام لیڈرگرفتارہوئے اورآپ کو ایک سال کی سزا دی گئی ۔سائمن کمیشن کے خلاف اور آل پارٹیز کانگریس میں مولانا آزاد بے خوفی اور بے پرواہی سے تقریریں کیا کرتے تھے ۔1940 میں مولانا آزاد ایک بار پھر کانگریس کے صدر چنے گئے ۔جولائی1942 میں انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑو‘‘کا نعرہ بلند کیا۔ان کا کہنا تھا کہ
" آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی شخص خدا کے بندے کو غلام نہیں بنا سکتا،غلامی کو چاہے جتنے سیاسی ظلموں کے ذریعہ آزادٹھہرایا جائے لیکن غلامی تو آخر غلامی ہے۔یہ خدا کی منشا کے خلاف ہے۔ہندوستان آزاد ہو گا اور اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی‘‘ ابوالکلام آزاد نے اپنے انہی خیالات سے انگریز حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں۔ آزاد کے خیالات اور ان کی حب الوطنی کبھی بھلائی نہیں جا سکتی۔

انہوں نے قومی اتحاد کی چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کر انگریزوں کے ناپاک منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کے فوراً بعد 9 اگست کو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔1943 میں آپ کی بیگم کا انتقال ہوگیا۔1946 میں آپ نے کابینہ مشن کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا۔1948 میں ہندومسلم اتحاد کے لئے مرن برت رکھا ۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ ایک اہم سیاستدان رہے۔ وہ مہاتما گاندھی کے اصولوں کی حمایت کرتے تھے،انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا، خلافت تحریک میں ان کی اہم کردار رہا 1923 میں وہ انڈین نیشنل کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنے، وہ 1940 اور 1945 کے درمیان کانگریس کے صدر رہے۔
آزادی کے وقت انہوں نے تقسیم کی حمایت نہیں کی اور اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔اگرچہ بہت سے لوگ آج بھی مانتے ہیں کہ جس طرح گاندھی جی نے تقسیم کے وقت حالات کو سمجھنے میں دیر لگائی اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اس وقت اتحاد کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے۔

آزادی کے بعد وہ بھارت کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔ وزیر تعلیم کے عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے بہت سے ایسے کام کئے جن کی وجہ کر آج بھی انہیں اس ملک میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ملک کی پہلی آئی آئی ٹی کھولنے کا سہرا بھی انہیں کے سر ہے ۔

مذہبی معاشی سیاسی غرض کے زندگی کے ہر شعبہ میں آپ نے مسلمانوں کی رہبری اور رہنمائی کی،آپ نے مسلمانوں کو بارہا ان کی حقیقت اور حیثیت سے آشنا کرایا۔انہیں دنیا میں ان کا مقام وہ کردار یاد دلایا۔مولاناکا یہ نقطہ نظر تھا کہ مسلمان مقام مصلحت سے آگے بڑھ کے مقام عزئیت کو اختیار کریں اور دنیا کی امامت کریں ۔انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ انسان دوستی میں صرف کیا ،آپ انسان کی حقیقی کامیابی کے لئے فکر مند تھے ،اس کے لئے آپ نے ہر ذریعہ اور طریقہ کا استعمال کیا ۔جہاں قلم کی سیاہی دلوں کو منور کرسکتی تھی وہاں قلم کا استعمال کیا،جہاں بیان کی سحر آفرینی کا دخل ہو وہاں خطابات کو موقعہ دیا۔غرض زندگی کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں آپ اپنے مقصد سے غافل ہوئے ۔

22 فروری، 1958 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اور آپ کو جامع مسجد کے سامنے کے میدان میں دفن کیا گیا۔بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد ہندو مسلم اتحادکے بانی کے طور پر آج بھی سمجھا جاتا ہے ۔انہوں نے ملک میں اتحاد بڑھانے کے لئے جو بھی کام کئے ان کو یہ ملک ہمیشہ یاد رکھے گا۔ان کی اہم تصانیف میں ’’ترجمان القرآن‘‘جو قرآن مجید کی تفسیر ہے دوسری اہم کتاب ’’البیان ‘‘اور تیسری ’’البصائر ‘]یعنی مقدمہ قرآن ،اس کے علاوہ آپ کی مشہور ادبی اور علمی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں ۔تذکرہ ،غبار خاطر ،جامع الشوہد ،مسئلہ خلاف و جزیرت العرب ،انڈیاونزفریڈم (آزادی ہند)اسلامی جمہوریت کے تقاضے ،اسلام اور آزادی اصحاب کہف وغیر ہ شامل ہیں ۔ان کے خیالات اور افکار آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ،اور مستقبل کا ہندوستان بھی آپکو امام الہند کے خطاب سے نذرانہ عقیدت پیش کرتا رہیگا۔
Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 12286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.