سیاسی صورتحال اور ہمارا قومی رویہ

 بیسویں صدی کی اہم شخصیات میں مولانا ابو الکلام آزاد کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ صرف ہندوستان کے ایک اہم سیاسی لیڈراور دینی رہنما ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے مفکرِ اسلام تھے جنہوں نے دنیائے اسلام کے عروج وزوال کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیاتھا اور وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کازوال نتیجہ ہے ان کے اس غیر علمی کاموں کا جس میں وہ پچھلے چارسو سال سے الجھے ہوے ہیں ۔ اپنی تقریروں اور تحر یروں کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ زوال اسلامی کا سبب خود ان کا غیر اسلامی اور غیر عقلی رویہّ ہے چنانچہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف غبارِ خاطر میں وہ مسلمانوں کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں:
’’غفلت اور شرساری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں اب خدا کے لئے بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک پہنچ چکا ہے آپ کے ہم سفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔( غبارِ خاطر)

زوال اسلامی کی بابت ان کا خیال تھا کہ سولہویں صدی کے بعد علم کی بساط الٹ سی گئی اور مسلمانوں نے عیسائیوں کا غیر علمی طریقہ اپنانا شروع کردیا جب کہ یورپ کے عیسائیوں نے عہد وسطیٰ کے اسلامی دور میں مسلمانوں کے عقلی رویہ کو اپنا نا شروع کردیا اوریہی وجہ بنی مسلمانوں کے زوال کی اور یورپ کے عروج کی۔اس حقیقت کا اظہار وہ یوں فرماتے ہیں:
’’اب دونوں جماعتوں (مغرب اورمشرق) کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیار کر لیاتھا‘‘ ( غبارِ خاطر)

مولاناآزاد کا نظریہ تھا کہ عہد وسطیٰ میں اسلامی عظمت کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ’’ علم ودانش کے علمبردار تھے جب کہ یورپ دعاؤں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتاتھا ۔مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیار سے لڑتے تھے ۔یورپ کا اعتمادصرف خدا پر تھا مسلمان کا خدا کی مدد پر بھی تھا لیکن خدا کے پیدا کئے ہوئے سرو سامان پر بھی تھا ۔ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا دوسرا روحانی اور مادّی دونوں کا ۔پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتظار کیا دوسرے نے نتائج عمل کے ظہور کا ۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہوکر فتح وشکست کا فیصلہ کرد یا۔‘‘ ( غبارِ خاطر)

مولانا کے نقطۂ نظر کے اعتبارسے بے عمل اور بے علم انسانوں کے لئے دعائیں ترک عمل کا حیلہ بن جاتی ہیں ۔اسی ترکِ عمل کی مثال دیتے ہوئے مولانا تحریر فرماتے ہیں ’’انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھاجائے۔ ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار کررہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب ۔ یا محول الاحوال کے نعرے بلند کررہے تھے۔ آخر وہی نتیجہ ہوا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلناتھاجس میں ایک طرف گولہ بارود ہودوسری طرف ختم خواجگان۔ دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کوجو عزم وہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لئے وہ ترکِ عمل اور تعطل قوی کا حیلہ بن جاتی ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے غیر عقلی عمل اور سبب زوال کی ایک اور مثال دیتے ہوئے مولانا رقم طرازہیں:
’’1798ء میں نپولین نے مصر پر حملہ کیا تھا اور مراد بک نے بجائے کسی عملی قدم اٹھانے کے دعاء کاسہارا لیا اور بچاؤ کے لئے صحیح بخاری کا ختم شروع کروادیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم ختم نہیں ہوا تھاکہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا ‘‘ ( غبارِ خاطر)۔مولانا آزاد نے اس واقعہ کا حوالہ شیخ عبد الرحمن الجبرتی کی تصنیفات سے دیا ہے جس میں انہوں نے زوال مصر کے چشم دید حالات قلمبند کئے ہیں

خطبات آزاد (مرتب مالک رام۔ساہتیہ اکادیمی) میں مولانانے مسلمانوں کے عروج و زوال پرنہ صرف اپنا نظریہ پیش کیا ہے بلکہ ان دانشوروں کے بھی خیالات قلمبند کئے ہیں جو یا تو مسلمان تھے یا مسلمانوں کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے مثال کے طور پر انہوں پروفیسر آرمین ویمبری کے نظریات کو بزی اہمیت دی ہے اور ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ پروفیسر ویمبری ہنگری کا رہنے والا تھا اور ترکوں کا بہی خوا تھا ۔اس نے مسلمانوں کے ساتھ زندگی کا بڑا حصہ گزارا لیکن آخر میں وہ زوال پذیرمسلمانوں کے رویہ سے سخت مایوس ہوا اور اپنے وطن واپس چلا گیا جہاں اس نے ایک مضمون میں ان خیالات کا اظہار کیا جس نے مولانا آزاد کو بہت تکلیف پہنچائی ۔1901ء میں بُڈا پسٹ ہیرالڈ(Budapest Herald) اخبار کے ایک شمارہ میں اس نے ایک مضمون کے ذریعہ اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ’’مسلمانوں کی حمایت سے اب کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس میں نہ تو طبیعت(علوم طبعیہ۔Physical Sciences, Materialism (کا وجود ہے اور نہ وہ طبیعت کو محسوس کرسکتے ہیں۔ دنیا میں کام کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔تمام انسانی حس وشعور ان سے سلب ہوچکے ہیں صرف ایک دینی جذبہ ان میں باقی ہے ۔نہ ان کا کوئی مسلک اور نہ کائنات میں کوئی مقصد۔ پس اب یورپ کے لئے یہی باقی رہ گیاہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹ لیں‘‘ ) خطبات آزاد( ۔مولانا آزاد نے اس تحریر کو اپنے ایک خطبہ میں جگہ دی ہے اور فرمایا کہ مسلمانوں کی بابت اس کے ہمدرد کا اگریہ خیال ہے تو یورپ کے اسلام دشمن حکمراں کیا خیال رکھتے ہوں گے ۔ اسی لئے مولانا نے یورپ کے دانشورمیکسن ہارڈن کے مضمون کا بھی حوالہ دیاہے جس میں وہ لکھتاہے ’’اب اور کب تک اسلام کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا ۔اسلام ایک خطرہ ہے اور اس کی بقا تمام تر خطرہ۔ یورپ اسلام سے جو زمین کا ٹکڑا لے لیتاہے وہ اس کا قدرتی حق ہے اور دولِ یورپ کے لئے مال غنیمت ہے جس کی واپسی کا خیال بھی جنون ہے‘‘ (لندن ٹائمس 1910ء)۔مغرب کے انہی اسلام دشمن نظریات کی بنیاد مولانا اپنے غم و غصہ کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
’’یورپ اسلامی تمدن کو فنا کردینا بیسویں صدی کی سب سے بڑی تمدنی خدمت سمجھتاہے یورپ کی رقیب حکومتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ جسم اسلام کی اس طرح بوٹیاں نوچی جائیں کہ ہر بھیڑئیے کے منھ میں مساوی تقسیم کے ساتھ ساتھ ایک ایک لقمہ آجائے ‘‘ ۔ مغرب کی اسلام دشمنی کے باوجود مولانا عالمی امن و صلح کے حامی تھے لیکن جانتے تھے کہ قومی اور ملی عزت و وقار بغیر طاقت کے حصول کے ممکن نہیں اسی لیے انکا ارشاد ہے:
’’ وہ ہاتھ نہایت مقدس ہے جس میں صلح کا سفید جھنڈا لہرارہاہو مگر زندہ وہی رہ سکتاہے جس میں خونچکاں تلوار کا قبضہ ہو یہی اقوام کی زندگی کا منبہ ،قیامِ عدل ومیزان کا وسیلہ ، انسانی سبیعت ودرندگی کا بچاؤ اور مظلوم کے ہاتھ میں اس کی حفاظت کی ایک ہی ڈھال ہے ‘‘۔ (خطبات آزاد(

ملت اسلامیہ کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نے مسلمانوں کی بابت غلط فہمیاں پھیلانے کے مہم سولھویں صدی ہی سے شروع کردی تھی اور انیسویں صدی کے آتے مغرب کے لیے یہ ایک ضروری عمل بن چکا تھا چنانچہ مولانا تحریر فرماتے ہیں :
’’ اسلام تمام سچائیوں کے باوجود لوگوں کی غلط فہمیوں کا نشانہ بناہوا ہے. اس کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں اور پھیلائی جارہی ہیں اور وہ ذوق ِ طلب پیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے تھا ۔مسلمانوں پر جو الزامات یوپ نے کبھی لگائے تھے اس کو سن کر سب کو حیرت ہوگی کہا گیا کہ مسلمان کو توحید سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جو دنیا میں صرف لوٹ مار کرکے اپنا پیٹ بھر نا چاہتی ہے۔ اسی قسم کے اعتراضات ہندوستان میں بھی عیسائی مشنریوں نے اسلام پر کئے تھے اور سب سے پہلے مخلص مسلمان سرسید تھے جنہوں نے عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی‘‘ (خطبات آزاد(
مولانا آزادعلم کو ایک اکائی مانتے تھے جس کی تقسیم کے وہ قائل نہ تھے۔ عصری علوم کے حصول کو وہ نہایت ضروری سمجھتے تھے جس کا اندازہ ان کے اس خطبہ سے لگایا جاسکتاہے جس میں انہوں نے فرمایاتھا کہ
’’ مسلمانوں کے لئے سب سے مقدم امر یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک یونیورسٹی علی گڑھ میں بنائی جائے اور ایسا کرنا مسلمانوں کے قومی مقاصد کا اصلی نسب العین اور رہنمائے اول(پیغمبر اسلام) کی دی ہوئی شریعتِ تعلیم کا یوم تکمیل ہے ‘‘ (خطبات آزاد( ۔

مولانا آزاد خود ایک جید عالم تھے اور دینی مدارس کی اہمیت سے خوب واقف تھے لیکن وہ تیزی سے بدلتے زمانہ کے تقاضوں کا علم بھی رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے مدارس میں مناسب تبدیلیوں کے لیے نہایت مفید مشورے بھی دئے۔اپنے متعدد خطابات میں انہوں نے فرمایا :
’’اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرا نہ جائیں اور اس لئے ہے کہ اس پر فرشتے عمل کریں تو تمہیں اختیار ہے ۔۔۔۔ آج سے ایک سو برس پہلے ہم نے اس چیز کو محسو س کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کیا تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم ازکم یہ تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے۔۔۔ آج اپنے مدرسوں میں جن چیزوں کو ہم معقولات کے نام سے پڑھا رہے ہیں وہ وہی چیزیں ہیں جن سے دنیا کا دماغی کارواں دوسو برس پہلے گزر چکا ہے آج ان کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔ یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ جو فلسفہ آج پڑھانا ہے وہ زمانہ کے مسائل ہیں ۔اگر آپ یہ نہیں کرتے تو آپ زمانہ سے واقف نہیں ہیں بلکہ آپ زمانے سے لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ تاریخ شاہد ہے کہ قدامت پرستی نے جب ہتھیار اٹھایا تو نتیجہ یہ نکلا کہ کشمکش ہوئی مگر اس کشمکش کا یہ نتیجہ نکلا کہ قدامت پرستی کو ہارنا پڑا اور وقت جیت گیا ۔یہ صحیح ہے کہ ابو الفضل اور فیضی جیسے دانشور مدرسوں سے نکل کر شہنشاہی امور میں اونچے عہدے پر پہونچے ۔ملک کے انتظام کی باگیں اپنے ہاتھ میں لیں لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے تعلیم بھی بدل گئی ہے۔ کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہوسکتی اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو ۔۔ زمانہ اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہا اور آپ وہیں بیٹھے رہے آپ انہیں مدرسوں میں بیٹھے رہے جن مدرسوں میں آپ نے آج سے پانچ سو برس پہلے قدم رکھا تھا۔ اس پانچ سو برس کے اندر دنیا بیٹھی نہیں رہی زمانہ بھی چلتارہا ۔ وہ پانچ سو برس کی مسافت طے کرچکا ہے اور آپ وہیں کے وہیں بیٹھے ہوئے ہیں آج جو تعلیم ان مدرسوں میں آپ دے رہے ہیں وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں جوڑ سکتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ زمانے میں اور آپ کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی ہوگئی ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم جس سے ملک کے بہترین مدبرملک کے بہترین منتظم اور ملک کے بہترین عہدے دار پیدا ہوتے تھے آج انہیں مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ بالکل نکمے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم زمانے سے دور ہوگئے ہیں۔۔ آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانے کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں ۔زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانے کی مانگوں سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا اور زمانے نے آپ کے خلاف آپ کو نکمّا سمجھ کر فیصلہ کردیا ۔زمانے نے آپ کو بیکار سمجھا ہے۔ ہم کو ماننا چاہئے کہ ماضی میں ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا ‘‘ (خطبات آزاد( ۔

ملت اسلامیہ کے زوال کے باوجود ا سلام کے بنیادی اصولوں سے دستبردار ہو کرمولانا نے کبھی بھی کوی قدم نہیں اٹھایا۔بین مذاہب اتحاد کو وہ اسلام کی رو سے نہایت ضروری سمجھتے تھے چنانچہ ہندستان میں ہندو مسلم اتحاد د کو بھی اسلام کی روشنی میں ضروری مانتے تھے۔اس مسئلہ پر انکا نقطہ نظر تھا کہ

’’میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین فرائض انجام نہیں دے سکتے جب تک وہ احکامِ اسلامیہ کے ماتحت ہندوستان کے ہندوؤں سے پوری سچائی کے ساتھ اتحاد واتفاق نہ کرلیں میرا یہ اعتقاد قرآن مجید کی نصع قطعی پر مبنی ہے ۔اﷲ کے رسولؐ نے لکھوایا تھا کہ ہم سب مل کر قریش کے مقابلے میں ایک نیشن ہوجائیں اگر رسولِ خداؐ مٹھی بھر قریش ِ مکہ کے مقابلے میں اطراف مدینہ کے تمام قبائل سے اتفاق کرسکتے تھے تو کیا ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک ہوجائیں مسلمان کے لئے ایسا کرنا ان کا مذہبی عمل ہے ‘‘ (خطبات آزاد( ۔ ایک دوسرے موقعہ پر اس مسئلہ کی اہمیت اس طرح بیان فرمائی
’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اترآئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتاہے بشر طیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاؤں گا مگر ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار نہ ہوں گا کیوں اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہے لیکن اگر ہمارا اتحا د جاتارہا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہے(خطبات آزاد( ‘‘۔
(ماخذ: دنیائے اسلام کا عروج و زوال از ڈاکٹر محمداقتدار حسین فاروقی )

Dr. Mohammed iqtedar Husain Farooqi
About the Author: Dr. Mohammed iqtedar Husain Farooqi Read More Articles by Dr. Mohammed iqtedar Husain Farooqi: 11 Articles with 22866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.