طالبان ،امریکہ اور پاکستان

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضورؐ کی خدمت میں گیا حضورؐ کو بخار چڑھا ہوا تھا ۔آپؐ نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی میں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ رکھااورعرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ آپ ؐ کو کتنا تیز بخار چڑھا ہوا ہے ۔حضورؐ نے فرمایاہم (انبیاءؑ )پر اسی طرح سخت تکلیف وآزمائش آیا کرتی ہیں اور ہمارا اجروثواب بھی دگنا ہوتا ہے میں نے کہاکہ یارسول اﷲ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ آزمائش کن لوگوں پر آئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نبیوںؑپر میں نے کہاپھر کن پھر آپؐ نے فرمایا علماء پر ،میں نے کہاپھر کن پر آپؐ نے فرمایا نیک بندوں پر۔ بعض نیک بندوں کے جسم میں اتنی جوئیں پڑ جاتی تھیں کہ اسی میں ان کا انتقال ہو جاتا تھا اوربعضوں پر اتنی تنگدستی آتی تھی کہ انہیں چوغہ کے علاوہ کوئی اور چیز پہننے کو نہ ملتی تھی لیکن تمہیں دنیا ملنے سے جتنی خوشی ہوتی ہے انہیں آزمائش اور تکلیف سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

قارئین! اس وقت وطن عزیز میں عجیب وغریب قسم کی افراتفری دیکھنے میں آرہی ہے قیام پاکستان کے فوراًبعد پاکستان کی قیادت کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ سپر پاور روس کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کرتے اور خارجی سطح پر ایک ایسا مقام حاصل کرتے جو آزاد قوموں کوحاصل ہوتا ہے لیکن اسے برٹش ایمپائر کے تربیت یافتہ سول سرونٹس کی کارستانی کہیے یا ہمارے نابالغ سیاسی ذہنوں کی کارروائی کہ پاکستان کے وزیراعظم نے یہ سنہری موقع گنوادیا اور پہلا دور ہ امریکہ بہادر کا کیا گیا ۔معاملہ صرف یہیں تک رہتا تو شاید خرابی پیدا نہ ہوتی لیکن معاملہ کچھ یوں ہوا کہ منافقت پر مبنی امریکی دوستی کو پاکستان کی قیادت یا تو سمجھ نہ پائی اور یا پھر اپنے مفادات کے چکر میں اس پاکستانی قیادت نے پاکستانی قوم کو امریکہ کے آگے گروی رکھ دیا ۔ہوتے ہوتے صورتحال یہاں تک خراب ہوئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی اشارہ ابرو کی محتاج ہو گئی اس حوالے سے شاہکار ادبی و تاریخی کتاب شہاب نامہ کے مصنف قدرت اﷲ شہاب لکھتے ہیں کہ ایک محفل میں جہاں سفارتکار مدعو تھے وہاں امریکی سفارتکار نے انہیں دیکھا تو ان کے پاس آکر ان پر گویا برس پڑے ،امریکی سفارتکار کو یہ شکایت تھی کہ قدرت اﷲ شہاب چونکہ صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے سیکرٹری ہیں اور پالیسی سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں اور رائٹر گلڈ تنظیم میں بھی موجود ہوتے ہوئے وہ صدر پاکستان کو روس کے قریب لا کر دنیا میں ’’ درانتی ‘‘ والی قوتوں کو طاقت و دوام بخشنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس لحاظ سے امریکی سفارتکار کو شک تھا کہ قدرت اﷲ شہاب ’’ روس کے پٹھو ‘‘ ہیں ۔قدرت اﷲ شہاب مزید تحریر کرتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر گزری تو روس کے سفارتکار کی نظر ان پر پڑی اور وہ ان پر آ کر یہ شکایت کرنے لگے کہ پاکستان کی پالیسیاں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں اور گرمیء گفتا ر میں روسی سفارتکار نے قدرت اﷲ شہاب کو گویا ’’ امریکی پٹھو‘‘ قرار دے دیا ۔قدرت اﷲ شہاب کہتے ہیں کہ میں آزردہ خاطر ہو کر ایک طرف اداس انداز میں کھڑا ہو گیا اس دوران کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون قدرت اﷲ شہاب کے پاس آئیں اور ان سے اداسی کا سبب پوچھا تو قدرت اﷲ شہاب نے انہیں پورا واقعہ سنا دیا اس پر وہ خاتون زور سے ہنسیں اور انہوں نے کشمیری گوجری زبان میں ایک کہاوت انہیں سنائی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ اگر ایک بھینگے کو تم کسی دوسرے کی گود میں دکھائی دیتے ہو اور دوسرے بھینگے کو کسی اور کی گود میں نظر آتے ہو تو یقین رکھو کہ تم اپنے اصل مقا م پر موجود ہو ۔

قارئین اس وقت پاکستان بد قسمتی سے واضح طو رپر امریکہ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے 1971میں جب سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آیا اور ساتویں امریکی بیڑے کی آمد کی خبریں صرف خبریں ہی ثابت ہوئیں تو اس حوالے سے ابن انشاء نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان ’’دیوار ِگریہ ‘‘تھا اس طویل نظم کا ایک مختصر سا حصہ ہم آپ کی نذر کرتے چلیں ۔

ایک دیوار،گریہ بناؤ کہیں
آج یاروں کو روؤ رلاؤ کہیں
اپنے دشمن تو ملعون و ناخوب ہیں
ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں
ایک بھبکی سے دشمن کی جو ڈھیر ہے
وہ اگر شیر ہے کاغذی شیر ہے

ایک جانب وہ طیارہ بردار تھے
جن پہ مغرب کے بمبار اسوار تھے
وہ تو اڑتے رہے اور جھپٹتے رہے
آگے بڑھتے رہے پیچھے ہٹتے رہے
روکا یاروں کا ایک فکر انجام نے
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
آئے بمبار جو کارواں کارواں
ان کی یلغار سے تھا سیا ہ آسماں
ان کی زد میں عرب کے سجیلے جواں
جن کے نیزوں نے جیتا تھا آدھا جہاں
جن کی تاریخی فتحیں سر افرازیاں
کوئی دم میں ہوئے اس طرح بے نشاں
سینہء دشت تھا خون اور ہڈیاں
وہ بھی جھلسا دیا نار ِنیپام نے
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت
جن کے وعدے بہت تھے و عیدیں بہت
بیٹھے لفظوں کے راکٹ چلایا کیے
یا بیانوں کے بم آزما یا کیے
دھمکیوں کے میزائل اڑایا کیے
کوئی گِرتوں کو آیا مگر تھا منے
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے

قارئین ابن انشاء کی اس نظم کے اندر جو جذبا ت تحریر کیے گئے ہیں وہ امریکہ کی دوستی نما دشمنی کے بارے میں ایک فرد جرم سے کم نہیں ہے آج تو امریکہ کے متعلق پاکستانی عوام اور امت مسلمہ کے جذبات اس سے کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں آج امریکہ براہ راست امت مسلمہ کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے ’’ کرو سیڈ ‘‘ کو انتہا تک لے جا رہا ہے 9/11کا واقعہ جب پیش آ یا تو آپ کو یاد ہو گا کہ گرتے ہوئے ٹون ٹاور ز کے مناظر پوری دنیا میں دکھائے جا رہے تھے اس دوران امریکی صدر بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے غیض و غضب سے اعلان کیا تھا کہ ’’ کروسیڈ ‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے بعد میں اگرچہ انہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے لیکن الفاظ میں چھپے معنی و مفاہیم پر پورا پورا عمل کیا افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ،عراق کو جلا کر رکھ دیا اور اس سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے ’’ وفادار دوست ‘‘ پاکستان کو بھی اسی آگ کی لپیٹ میں لے لیا جو انکل سام نے ’’امن کے دشمنوں ‘‘کے خلاف بھڑکائی تھی طبلے والی سرکار جنرل مشرف کے دور میں امریکی محکمہ خارجہ کے سیکرٹری نے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دیتے ہوئے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر ’’ بلینک چیک ‘‘ حاصل کیا اور بلوچستان سے لے کر صوبہ سندھ تک پاکستان کے تمام اہم ترین دفاعی ہوائی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا انہی ہوائی اڈوں میں اڑنے والے امریکی جہازوں نے افغانستان پر بم گراتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور جب افغانستان میں کرزئی حکومت قائم ہو گئی تو انہی پاکستانی ہوائی اڈوں سے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں افغان مجاہدین طالبان کی مدد اور سرپرستی کرنے والے غیور پاکستانی مجاہدوں پر ’’ ڈرون حملوں ‘‘ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔تحریک طالبان پاکستان نے پہلے تو اپنی کاروائیوں کا نشانہ امریکی مفادات کی نگہداشت کرنے والے اداروں کو بنایا ہوا تھا جب قبائلی علاقہ جات میں افواج پاکستان کو پاکستانی طالبان کے مقابلے پر اتارا گیا تو انہی طالبان نے علماء سے فتویٰ حاصل کیا کہ امریکہ چونکہ افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے اور ہم امریکہ کے خلا ف جہاد کر رہے ہیں اب چونکہ پاکستانی فوج امریکی فوج کی مدد کر رہی ہے تو کافروں کی مدد کرنے والی پاکستانی فوج ’’مرتد ‘‘ ہو چکی ہے اس لیے پاکستانی فوج کا مقابلہ کرنا بھی جہاد ہے ۔ہماری اس بات کی تصدیق فرنٹئیر کور کے کمانڈنٹ اور خود کش بمباروں کو نا رمل انسان بنانے والے ادارے ’’ نوائے سحر ڈی ریڈیکلا ئزیشن سنٹر‘‘ باجوڑ کے سربراہ بریگیڈئیر حیدر علی نے بھی ایف ایم 93میرپور کے ایک انتہائی اہم اور علمی پروگرام ’’ فورم 93ود جنید انصاری ‘‘ میں کی بریگیڈیئر حیدر علی نے اس طویل انٹرویو میں بتایا کہ جب ہم باجوڑ میں نما ز ادا کرتے تو مقامی آبادی ہمیں تعجب سے دیکھتی اور جب ہماری ان سے بات چیت شروع ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ قبائلی علاقہ جات میں عوام میں یہ تاثر انتہائی مضبوط ہے کہ پاکستانی فوج چونکہ کافر امریکی فوج کا ساتھ دے رہی ہے اس لیے پاکستانی فوجی مرتد ہو چکے ہیں اور شعائر اسلام نماز وغیرہ سے پاکستانی فوجیوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ان غلط فہمیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس ہزار سے زائد پاکستانی فوجی شہید ہو گئے اور پچاس ہزار کے قریب پاکستانی شہری امریکی جنگ کی زد میں آکر لقمہ ء اجل بن گئے دوسری جانب امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور جس طرح افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف بر سر پیکار افغان طالبان ،ملا عمر ،ایمن الظواہری ،اسامہ بن لادن اور القاعدہ سمیت دیگر مجاہدین کے گروپس امریکہ کے دشمن ٹھہرے اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کی قیادت بھی امریکہ کی دشمن قرار پائی اور ان سب کے ’’ سروں کی قیمتیں ‘‘ مقرر ہو گئیں ۔ڈرون حملوں ہی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان نے اپنی جدوجہد کا رخ پاکستان اور پاکستانی افواج سمیت تمام سیکیورٹی فورسز کی جانب کر دیا ۔آخر کار میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان بنے تو انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد یہ مینڈیٹ حاصل کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ’’ امن ‘‘ قائم کیا جائے ۔مذاکرات کا سلسلہ شروع ہی ہونے والا تھا کہ امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود کو نشانہ بنادیا گیا اور مذاکرات سبوتاژ ہو گئے اب تحریک طالبان پاکستان کی جدوجہد کے متعلق جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی پاکستان کے قائد منور حسن یک زبان ہو چکے ہیں اور وہ امریکہ کے خلاف جدوجہد کرنے والے طالبان کو مجاہد بھی قرار دے رہے ہیں اور حکیم اﷲ محسود کو شہید قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج اور طالبان کے ساتھ بر سر پیکار وفات پا جانے والے پاکستانی فوجیوں کی ’’ شہادت ‘‘ پر بھی سوالیہ نشان اٹھا چکے ہیں افواج پاکستان اس وقت اضطراب کی حالت میں ہیں اور آئی ایس پی آر نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت پر وہ اعتراضات کیے ہیں جو آج تک کبھی بھی نہیں کیے گئے ان اعتراضات کے جواب میں ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کی قیادت بھی ڈٹ گئی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ افواج پاکستان اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر سیاسی معاملات پر پالیسی بیانات دینے سے گریز کرے ۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف افواج پاکستان اور شہداء افواج پاکستان سے مکمل اظہار یکجہتی کر چکے ہیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی ،اے این پی ،ایم کیو ایم اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف بھی سید منور حسن امیر جماعت اسلامی کے بیان کی مذمت کرتے دکھائی دے رہی ہیں ۔

قارئین کچھ بھی ہو ہم بقول مولانا فضل الرحمن جو بات انہوں نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی کہ جس طرح امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’ اگر کوئی کتا بھی برطانوی سامراج کی طرف بھونکتا ہے تو میں اسے آزادی کا سپاہی تصور کروں گا‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام مسلمان مجاہد ہیں اور ان مجاہدین کا راستہ روکنا ہر گز جائز نہیں ہے یہاں ہم قدرت اﷲ شہاب ہی کی ایک اور بات نقل کرتے چلیں جو انہوں نے شہاب نامہ میں تحریر کی پاکستان کے مستقبل کے متعلق پیش گوئیاں کرتے ہوئے قدرت اﷲ شہاب لکھتے ہیں کہ مختلف سفارتکار جو پاکستان سے محبت رکھتے تھے انہوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ مستقبل میں پاکستان کے دشمن یہ کوشش کریں گے کہ پاکستان کے واحد قابل فخر ادارے افواج پاکستان کو نا صرف سیاست میں الجھایا جائے بلکہ افواج پاکستان کو بد نام اور خراب کرنے کے لیے انہیں ’’ دیگر غیر ضروری معاملا ت ‘‘ میں ملو ث کیا جائیگا تا کہ عوام میں افواج پاکستا ن کے خلاف غلط فہمیاں پیدا ہوں اور نفرت پھیلے ان سفارتکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی فوجی قوت کو سامراج اور اسلام دشمن طاقتیں ’’ اسلامک پاور ‘‘ تصور کرتی ہیں اس لیے ان تمام اسلام دشمن قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس قابل فخر اسلامی قوت کو کسی طرح پارہ پارہ کیا جائے ۔

قارئین آج کے کالم میں ہم پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے یہی استدعا کرتے ہیں کہ ’’ ساتویں بحری بیڑے والے دوست ‘‘ سے جان چھڑائی جائے اور دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کی جائے یہی وقت کا تقاضہ ہے آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔

ایک بار ایک بیوقوف میلہ دیکھنے گیا وہاں سوتے میں کسی نے اس کا کمبل چوری کر لیا
جب وہ گھر واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا ’’ کیوں بھائی ‘‘ میلہ کیسا رہا

بیوقوف نے جلدی سے جواب دیا
’’ وہاں میلہ ویلہ کچھ نہیں تھا لوگ وہاں دراصل میرا کمبل اٹھانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے ‘‘

قارئین ہم یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان سے دوستی نبھانے یا دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے افغانستان نہیں آیا بلکہ سارا میلہ ’’ پاکستانی ایٹمی طاقت کا کمبل ‘‘ چرانے اور افواج پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے لگایا گیا ہے اﷲ پاکستان اور افواج پاکستان کی حفاظت کرے ۔آمین۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336933 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More