اصلی جمہوریت کا مستقبل

صدر مملکت جناب پرویز مشرف نے باالاخر یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ اب ملک میں اصلی جمہوریت آگئی ہے، تاہم انہوں نے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اس جمہوریت کی ابتداہ آٹھ سال قبل مرحلے وار انہوں نے کی تھی۔

نہ جانے کیوں لوگ حالات کے تحت نا صرف بیانات تبدیل کردیتے ہیں بلکہ کئی الفاط کے معنی بھی تبیل کردیا کرتے ہیں جیسے سب سے پہلے پاکستان ، صدر مملکت کا سب سے دلچسپ سلوگن رہا حالانکہ صورتحال باالکل اس کے برعکس رہی لوگ یہ سوچتے تھے کہ شاید پرویز مشرف صاحب نے اپنا نام پاکستان رکھ لیا ہے۔ اسی طرح وہ مکمل آمریت کو جمہوریت کی ابتداء سے منسوب کرتے رہے حالانکہ ١٢اکتوبر ١٩٩٩ء کو انہوں نے جمہوریت کی حقیقی جمہوریت کی شروعات نہیں کی تھی بلکہ دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے جمہوریت کا خاتمہ کیا تھا اور ایک منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ اور پھر ایک ایسی اسامی تخلیق کرلی تھی جسے انہوں نے چیف ایگزیکیٹو کا نام دیا تھا اور بعد ازاں فوجی طرز عمل اور روایت کے مطابق منتخب صدر کو رخصت کرکے خود صدر مملکت کے عہدے پر براجمان ہوگئے تھے جو تاحال ہیں۔

ہم اگر اس سارے دور کو جو تقریباً آٹھ سال پر محیط ہے جمہوریت کی ابتداء مان بھی لیں تو پھر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسی جمہوریت تھی جس کا سربراہ چیف آف آرمی اسٹاف تھا اچھا ہوا کہ یہ جمہوریت جیسے تیسے ختم ہوئی اور اب بقول صدر مملکت اصلی جمہوریت کا آغاز ہوگیا ، اگر یہ اصلی جمہوریت اسی کا تسلسل ہوتی جس کا بیج مشرف صاحب نے اآرمی کی وردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بویا تھا تو پھر مشرف کو وردی اتارنے کے بجائے صوبوں کے گورنرز کو بھی وردی پہنانا پڑتی یا وردی والے شخص کو گورنر بنانا پڑتا۔

جناب صدر صاحب اور ان کے مشیروں کے علم میں اضافے کے لئے یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ اصل جمہوریت کی ابتداء آٹھ سال قبل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس آمریت کا کے خاتمے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب جناب صدر صاحب نے بحالتِ مجبوری فوجی وردی اتاری تھی اس طرح ملک میں اصل جمہوریت کی بحالی اس وقت ہی ہوجاتی جب پرویز مشرف وردی اتارنے کے ساتھ خود بھی کرسی صدارت سے اتر جاتے لیکن کوئی بات نہیں دیر آید درست آید کے مصداق اب ان کے اترنے کا وقت آ ہی گیا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کی یہ بڑی بدقسمتی ہوگی کہ کرسی صدارت سے اترنے کے بعد وہ بیرک کا بھی رخ نہیں کرسکتے بلکہ ان کو ایوانِ صدر سے براہ راست اپنے نجی گھر جانا پڑے گا وہ آرمی ہاؤس میں بھی جہاں اس وقت رہائش پذیر ہیں ٹہرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ لیکن اگر وہ چند سال قبل صدارت چھوڑ دیتے اور آرمی ہاؤس چلے جاتے تو شاید تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جاتا۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔اب۔۔۔۔۔۔

اب ہم بات کرتے ہیں اصلی جمہوریت کی ۔۔۔۔اصلی جمہوریت کا مظاہرہ پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کے لئے یوسف رضا گیلانی کو نامزد اور بعد ازان منتخب کر کے کیا ہے اور اس بات کا ثبوت دیا کہ پیپلز پارٹی میں جمہوریت ہے جہاں وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے جمہوری انداز میں فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کرتے ہوئے پارٹی کے کو چیرمین جناب آصف علی زرداری نے اپنے وعدے اور سندہ کی آواز کی کو بھی قربان کردیا اور یوسف رضا گیلانی جیسی نیک اور انسان دوست شخصیت کا انتخاب کیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے، کیا وزیر آعظم اآزادانہ فیصلے کرسکیں گے؟ یا ان کو زرداری ہاوس سے ڈکیٹشن لینا پڑے گا؟ اگر ایسا ہوا تو پھر آج کے ایوان صدر اور آنے والے کل کے زرداری ہاوس میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا اور ایسی صورت میں لوگ جناب زرداری کو پرویز مشرف کے نام سے منسوب کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔۔۔۔اور اس طرح اصلی جمہوریت ماضی کی طرح اپنی آئینی مدت مکمل کیئے بغیر ختم ہوسکتی ہے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152912 views I'm Journalist. .. View More