ہم زندہ ہیں لیکن زندگی نہیں ہے

تو پھر زندگی کہاں ہے؟

پہلے تو صرف کراچی ہی لاشوں کا شہر تھا اور اب وقت کے ساتھ ساتھ پورا پاکستان اس لپیٹے میں آگیا ہے۔
 
ہمیں اب نہایت شرم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب غیر ملک میں رہنے والے ہمارے رشتےدار ہم سے ہمارے ملک کے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کیا جواب دیں ہم انہیں؟کیا بتائیں انہیں کہ وہی بم دھماکے وہی قتل و غارت وہی چوریاں ڈکیتیاں وہی لوٹ مار۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ وطن گھر کی طرح ہوتا ہے تو ہم اپنے گھر میں رہ کر بھی محفوظ نہیں۔۔۔۔۔

وطن کو تو ماں کہا جاتا ہے تو ہم ماں کی آغوش میں رہ کر بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ایک ماں کی آغوش کو ان ظالموں نے قتل گاہ بنادیا ایک دوسرے کی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی ایک دھماکے میں ہزاروں لوگوں کی جانیں کیڑے مکوڑوں کی طرح ختم ہو جاتی ہیں کتنی عورتیں بیوہ اور کتنے معصوم پھول یتیمی کی سولی پر چڑھ جاتے ہیں تو اس وطن کی آغوش میں بھی اس کے بچے محفوظ نہیں تو کہاں جائیں؟اس ملک کے روشن چراغ انجینئیر، ڈاکٹر بن کر اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر ممالک چلے جاتے ہیں۔

اب ہر کوئی خوفزدہ رہتا ہے ہر کوئی پریشان رہتا ہے لوگ گھر سے باہر نکلتے وقت یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ گھر واپس لوٹ بھی سکیں گے زندہ یا نہیں؟ ہم انگاروں پر جی رہے ہیں ہم زندہ ہیں لیکن زندگی نہیں ہے خدا رحم کرے ہمارے ملک پر۔۔۔۔۔جس میں ہمارے بزرگوں کا خون پسینہ اور محنت شامل ہے۔۔۔۔۔
Samiya Ansari
About the Author: Samiya Ansari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.