عقیدت ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ
اے نوریؔ
حضور مفتی اعظم مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں بریلوی رضی اﷲ عنہ ۲۲؍ ذی
الحجہ ۱۳۱۰؍ھ ۷؍ جولائی ۱۸۹۳؍ء بروز جمعہ بوقت صبح صادق بریلی شریف میں
پیدا ہوئے ۔ حضرت مفتیٔ اعظم قدس سرہ کا پیدائشی اور اصلی نام محمد ہے۔ اسی
اسم پاک پر آپ کا عقیقہ ہوا۔ غیبی نام آل الرحمن ہے۔ پیر و مرشد نے آپ کا
نام ابو البرکات محی الدین جیلانی تجویز فرمایا اور والد ماجد نے عرفی نام
مصطفی رضا رکھا۔ فن شاعری میں آپ اپنا تخلص ’’نوری‘‘ فرماتے تھے۔ عرفی نام
اس قدر مشہور ہوا کہ خاص و عام میں آپ کو اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ
نسباً پٹھان مسلکاً حنفی اور مشرباً قادری تھے ۔ ۶؍ماہ کے بعدجب آپ بریلی
تشریف لاتے ہیں تو اس مولود سعید کو سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین
نوری قدس سرہ نے اپنی آغوش میں لے کر خوب خوب دعاؤں سے نوازا اور ۶؍ماہ ہی
کی عمر میں داخل سلسلہ فرما کہ اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔
آپ کو زیور علم اور تہذیب و اخلاق سے آراستہ و پیرا ستہ کرنے کے لیے اعلیٰ
حضرت کے قائم کردہ مدرسہ ’’ منظر اسلام‘‘ میں داخل کردیا گیا ،۲۶؍ ربیع
الآخر ۱۳۱۵؍ھ کو تسمیہ خوانی ہوئی ۔ ابتداہی سے آپ کی ذکاوت و نکتہ سنجی ،
جودت طبع ، فکرو خیال کی بلندی ، حصول علم میں کد و کاوش نمایاں رہی اور
محض ۳؍ سال میں ناظرہ قرآن پاک کی تکمیل کیں ۔ آپ نے مدرسہ کے مختلف اساتذہ
سے کسب علم کیا مگر آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ دخل آپ کے برادر اکبر حضرت
حجۃ الاسلام علامہ شاہ حامد رضا بریلوی قدس سرہ کارہا ۔ آپ نے خصوصی طور پر
اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی بارگاہ فیض سے اکتساب نور کیا۔درس
نظامی سے فراغت کے بعد ۱۳۲۸؍ھ سے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں
تدریس کا آغاز فرمایااور ۱۳۴۸؍ھ تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ پھر دارالافتاء کی
ذمہ داریوں کی وجہ سے مخصوص طلباء تک سلسلۂ درس و تدریس محد ود ہوگیا۔مفتی
اعظم نے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں بھی تدریس کے فرائض انجام
دئیے ۔
مفتی اعظم نے فتویٰ نویسی کافن امام احمد رضا محدث بریلوی سے سیکھا اور اس
میں وہ مہارت پیدا کی کہ مفتی اعظم ہند ہوئے ۔ ۱۸؍ سال کی عمر میں بغیرکتاب
کی مدد اور مشاہدے کے فقط حافظے کی بنا پر قلم برداشتہ مسئلہ رضا عت پر
جواب لکھ دیایہ فیضان حسن تربیت ہی تھا ورنہ مکتب کی کرامت میں یہ تاب کہاں
؟ اور یہ بھی عجیب حسن اتفاق کہ امام احمد رضا قدس سرہ کے قلم گل رقم سے جب
پہلا فتویٰ صادر ہوتا ہے تو وہ بھی رضاعت ہی کا تھا اورجب ان کے آئینہ جمال
و کمال سیدی مفتی اعظم نے قلم اٹھایاتو پہلا مسئلہ جو سپرد قلم ہوا وہ بھی
مسئلہ رضاعت ہی تھا ۱۸؍ سال کی عمر سے جو فتویٰ نویسی کی ابتدا ہوتی ہے تو
پھر تا عمر اس کا سلسلہ باقی رہا ،اور آپ کا یہی وہ نمایاں فن تھا ، جس میں
اس وقت برصغیر میں آپ کی نظیر پیش کرنی مشکل تھی ۔
۱۳۱۸ھ / ۱۹۱۰ء میں بعمر ۱۸؍ سال فتویٰ نویسی کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ آخر
تک چلتا رہا ۔مفتی اعظم نے مجموعی طور پر ۷۰؍ سال فتویٰ نویسی کے فرائض
انجام دیئے ۔ آپ کے فتوے’’ فتاویٰ مصطفویہ ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں چھپ
چکے ہیں جس میں صرف دس سال کے فتوے جمع کیے گئے ہیں ۔ آپ کا تاریخی فتویٰ
نسبندی کے خلاف خاص اہمیت رکھتا ہے ۔آپ کا عقد مسعود برادرا صغر حضور اعلیٰ
حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ حضرت مولانا محمد رضا خاں صاحب کی اکلوتی
صاحبزادی کے ساتھ ہوا ۔ ۱۳۹۱ھ مطابق ۱۹۷۱ء میں تیسری مرتبہ مع اہلیہ محترمہ
علیہما الرحمہ حج کیا۔اس مرتبہ حج پرجانے کے لیے فوٹو کی پابند ی تھی لیکن
آپ نے فوٹو نہ بنوایا ۔ بلکہ آپ کے ہمراہیوں نے بھی فوٹو نہ بنوایا ۔ حکومت
ہند نے ان کے پاسپورٹ کو بغیر فوٹو کے جاری کردیا یہ حج بغیر فوٹو کے ادا
کیا گیا جو ایک تاریخی حج تھا ۔بلاتفر یق مذہب وملت بے لوث لاکھوں افراد کو
تعویذات دے کر بھی خدمت خلق کرتے رہے ۔ آپ کے دست حق پر ست پر سینکڑوں غیر
مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہزاروں بد عقیدہ دولت ایمان سے مالا مال ہوئے
۔ نیز ۱۹۲۳ء میں علی گڑھ، متھرا ، راجستھان ، میرٹھ ، بلند شہر ، بھرتپور
وغیرہ شہروں میں آریوں کا مقابلہ کیا اور ۱۳۴۳ھ /۱۹۲۴ء میں شردھا نند کا ڈٹ
کر مقابلہ کیا ۔ ۱۳۶۴ھ/ ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس ( بنارس ) میں بھی
تاریخ ساز کردار ادا کیا ۔آپ کی بے شمار کر امتیں ہیں سب سے بڑی کرامت قرآن
پاک اور سنت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی ہے ۔
آپ کی نعتیہ شاعر ی بھی خاندانی وراثت ہے جو اخلاص و محبت اور عشق رسول میں
ڈوبی ہوئی ہے ۔آپ کا نعتیہ دیوان ’’ سامان بخشش‘‘ کے نام سے مقبول خاص و
عام ہے ۔ تقریباً ۵۰؍ سے زائد مختلف موضوعات پر آپ کی تصنیفات کا گراں قدر
ذخیرہ موجود ہے ۔آپ نے ہمیشہ آل رسول(سید) کا احترام کیا غیر محرم عورتوں
سے ہمیشہ پردہ کیا اور کبھی عورت کو بے پردہ مریدنہ کیا، بے شرع کو سخت
فضیحت و نصیحت فرماتے۔ تاحیات نماز کا بیحد خیال رکھا۔ حتیٰ کہ ٹرین اور بس
چھوڑ دی اور نماز ادا فرمائی نماز عموماً مسجد میں با جماعت ادا کی۔باوجود
سردی کے باوضو ہوتے ہوئے بھی ہر وقت کی نماز کے لئے تازہ وضو کرتے اور ضعف
میں بھی کھڑے ہوکر نمازپڑھتے۔ آپ کا تقویٰ اور فتویٰ باصواب ولاجواب تھا۔
آپ بے مثال مہمان نوازی فرماتے ،آپ پیدائشی ولی کامل تھے۔
خلاف شرع کام دیکھ کر فوراً اس کے ازالے کی کوشش فرماتے ، کوئی بے داڑھی
والا مسلمان اگر سامنے آجاتا تو اسے داڑھی رکھنے کی تلقین فرماتے ، یوں ہی
اگر کوئی کھلے سرآپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا تو اسے سرپر ٹوپی رکھنے کی
تاکید فرماتے ، دینی محافل اور جلسے و غیرہ میں اگر کسی خطیب و شاعر سے
کوئی خلاف شرع بات صادر ہوتی تو بر ملا اسے ٹوکتے اور غلطی کا ازالہ فرماتے
، تو بہ کراتے ، اگر کبھی کوئی مسلمان عورت بے پردہ نظر آجاتی تو شدت کے
ساتھ اس سے پردہ کراتے ، یوں ہی کسی کو سترعورت کھولے دیکھتے تو اس فعل سے
منع فرماتے یا اگر کوئی کام الٹے ہاتھ سے کرتا تو اس کو اس سے روکتے اور
اسلامی نظام اخلاق سے اسے آگاہ فرماتے اگر چہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ،
کہ اسلام کی دعوت کائنات کے ہر فرد کے لیے ہے چاہے وہ قبول کرے یانہ کرے ۔
مفتی اعظم نے ۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۰۲ھ / ۱۹۸۱ء میں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے وصال
فرمایا ۔دوسرے روز ، بروز جمعہ بعد نمازجمعہ ۳؍بج کر ۲۰؍ منٹ پر اسلامیہ
کالج کے وسیع گراؤنڈ میں نماز جنازہ ہوئی ، آپ کو آپ کے والد ماجد کے پہلو
میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ان کے جنازہ میں دنیا بھر کے تقریبا ۲۵؍ لاکھ عقیدت
مند شریک ہوئے ۔ نماز جنازہ میں اتنا عظیم اجتماع تاریخ میں نہیں ملتا ۔ اس
سے مفتی اعظم کے حلقہ اثر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ |