ولی کامل ، ماہتاب سلسلہ اویسیہ،
بدرالمشائخ
اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام
علیہم السلام کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا جنہوں نے وحدت ربی کے جام سے ایک
زمانے کو سیراب کیا اور پھر تاجدار ختم نبوت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی جلوہ
گری سے آمدِ پیغمبراں کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا
اختتام پذیر ہوا ۔ اب دین اسلام ہی اﷲ کا پسندیدہ دین ٹھہرا ۔شریعت محمدیﷺ
ہی تا قیامت دستور و قانون بنی اور رشد و ہدایت کے مینار صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم کی روایات جو انہوں نے زبان رسالت ﷺ سے سماعت کیں وہ مصدرِ حکمت و
دانائی گردانی گئیں ۔ یوں قصرِ نبوت تو مکمل ہوا اور سبیل ولایت جاری کر دی
گئی۔ولی کیلئے تعلیمات قرآن و سنت پر عمل لازمی ٹھہرا ۔ عشقِ رسول ﷺ ان
تعلیمات کی روح اور عبادات پہچان بنائیں گئیں ،علم و عمل کا حسین امتزاج
لازمی قرار دیا گیا اور قرآن حکیم و احادیث نبویہ میں ولی کی واضح نشانیاں
بیان کر دی گئیں تاکہ راہِ ولایت کا مسافر بھٹکے نہ اور اس مسافر کی راہ
اپنانے والے اپنے پیش رَو کی پہچان آئینۂ قرآن و سنت سے کر سکیں ۔تو یوں
ولایت کے مراتب و درجات مختص کر دئیے گئے ۔ان صاحبان سبیل ولایت میں کچھ تو
دنیا میں آکر راہِ ولایت اختیار کر کے با کمال ہوئے اور کچھ ازل سے ہی اس
راہِ بلند و بالا کے مسافر بنے اوردنیا میں جلوہ گر ہو کر عوام کو خواص کی
صف میں داخل کرتے گئے۔ سبیل ولایت کے مسافروں اور منزلِ مقصود کو پانے
والوں میں کبھی حضرت جنید بغدادی نظر آتے ہیں اور کبھی حضرت حسن بصری رحمۃ
اﷲ علیہ ،کبھی حضرت سر سقطی رحمۃ اﷲ علیہ کا ذکر آتا ہے اور کبھی حضرت داؤد
طائی رحمۃ اﷲ علیہ کا ،کبھی حضرت قطب الدین جلوہ گر ی فرماتے ہیں اور کبھی
فرید الدین رحمۃ اﷲ علیہ،کبھی شاہ شمس الدین کی صدائیں گونجتی ہیں اور کبھی
نظام الدین رحمۃ اﷲ کی ،کبھی محکم الدین سیرانی پیر دنیا کی کایا پلٹتے ہیں
اور کبھی گھمکول کے تاجدار حضرت زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ ،ان کی صف میں کبھی
مہر علی رحمۃ اﷲ علیہ رونق افروز نظر آتے ہیں اورکبھی جماعت علی رحمۃ اﷲ
علیہ ،ان میں کبھی فقیر اﷲ کی صدائے فنافی اﷲ سنائی دیتی ہے اور کبھی انا
الحق والے منصور اﷲ کی ۔اس طرح یہ سبیل ولایت کے مسافر ہر زمانے اورہر دور
میں منزلِ معرفتِ ربی پر رواں دواں رہتے ہیں ۔انہی صاحبانِ سبیل ولایت میں
سے ایک میرے پیر و مرشد، ماہتاب ولایت ،عالمِ ربانی ،مرشدِ حقانی ،برہان
الواصلین ،حجۃ الکاملین ،عکس فقیر اﷲ ،آئینۂ حبیب اﷲ ،بدرالمشائخ حضرت پیر
سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں جن کی ولادت تو کامونکی میں ہوئی
مگر آج تک علی پور چٹھہ ہی آپ کا جائے مسکن اور پہچان بنا ۔ آپ اپنے والدین
کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی ۔آپ کا
بچپن دوسرے بچوں کی طرح نہ تھا ۔آپ چھ سال کی عمر میں جب لوگ عشاء کی نماز
ادا کر کے گھروں کو آجاتے تومسجد میں ساری رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں
گزارتے۔
حُلیہ مبارک ولباس: بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کا قد دراز ،خوبصورت سرخ وسفید
چہرہ ،داڑھی مبارک لمبی اور گھنی تھی۔آنکھیں نہایت حسین تھیں۔آپ ہمیشہ سفید
قمیض ،سفید تہبند اور سر پر سفید پگڑی زیب تن فرماتے تھے۔ لباس نہایت سادہ
اور آپ کی اس سادگی میں اتنا حسن ورعب تھا کہ بڑے بڑے مشائخ عظام کی شخصیات
آپ کے سامنے ایسے نظر آتی تھیں جیسے چاند کے سامنے ستارے ہوں۔
بیعت و خلافت:آپ کی والدہ محترمہ شہنشاہ ولایت حضرت قبلہ الحاج پیر سائیں
فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کی مرید تھیں۔آپ 1950ء میں اپنی والدہ محترمہ
کے ساتھ کامونکے سے براستہ قلعہ دیدار سنگھ علی پور چٹھہ شریف سائیں فقیر
اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پہلی ہی نظر میں سائیں
فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کے عاشق ہو گئے۔آپ کی بیعت فرمائی۔1953ء کو آپ
کامونکے کو خیر آباد کہہ کر مستقل طور پر پیر ومرشد کی صحبت میں رہنے لگے۔
فنا فی الشیخ: بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے پیر ومرشد سے اس قدر عقیدت
ومحبت کی کہ اپنے پیرو مرشد کی ہر ادا کوعملی جامہ پہنایا۔
آپ اس قدر فنافی الشیخ کے مقام پر فائز ہوئے کہ آپ اور آپ کے مرشد میں کوئی
فرق نظر نہیں آتا تھا ۔آپ کا لباس، داڑھی مبارک ۔عبادت وریاضت کے معمولات
میں یکسوئی نظر آتی ۔ جس سے پیر کامل کا رنگ مرید صادق پر خوب خوب نظر آتا
تھا۔
عبادت وریاضت:آپ ہمہ وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کے ذکر میں
مشغول رہتے تھے۔ساری زندگی اپنی مسجد میں امامت کروائی اور خطبہ ارشاد
فرماتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم جامعہ اویسیہ
رجسٹرڈ آستانہ عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف کا قیام عمل میں لائے ۔
دارالعلوم میں دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کو حضور بدرالمشائخ
رحمۃ اﷲ علیہ ترجمہ وتفسیر خود پڑھاتے تھے۔اب بھی آپ ہی کے فیض سے آستانہ
سے ملحق مدرسہ اویسیہ پر طلباء وطالبات کو شعبہ حفظ القرآن ،ناظرہ ،تجوید
وقرأت اور شعبہ درس نظامی کی تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔جب بھی آپ کو
دیکھا یادِ الٰہی میں مشغول دیکھا۔کئی مرتبہ رات 12بجے بھی آپ کی خدمت میں
حاضری ہوئی تو حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے
دیکھا۔آپ ایک لمحہ بھی اﷲ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوتے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن
پاک میں اولیاء کرام کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں آپ اس کی عملی تفسیر
تھے۔اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ ’’ والذین یبیتون لربھم سجدا
وقیامًا۔‘‘ ’’ اور اﷲ تعالیٰ کے بندے رات سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں۔‘‘
حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ ساری زندگی ان آیات کا عملی نمونہ تھے۔آپ نے
سخت بیماری کی حالت میں کبھی نماز قضاء نہ کی۔
د ینی خد مات :حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ فنافی الشیخ ہونے کے ساتھ ساتھ
فنافی الرسول بھی تھے۔آپ کو امام الانبیاء سید کائنات حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
سے بے پناہ محبت تھی۔جب بھی کسی محفل میں کسی نعت خواں سے یا کسی خطیب سے
سرکار مدینہ ﷺ کی عظمت سماعت فرماتے توآپ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو
آجاتے اور ساتھ ہی آپ پر رقت طاری ہو جاتی ،جس سے محفل میں ایک سماں کیف و
سرور نظر آنے لگتا۔
حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہؒکا کوئی مرید وعقیدت مند آپ کو اپنے گھر
تشریف لانے کی دعوت دیتا تو آپ فرماتے ویسے جانے کا کیا فائدہ میں چاہتا
ہوں کہ میں جہاں جاؤں وہاں سرکار مدینہ ﷺ کی محفل میلاد ہو۔محفل میلاد میری
روح کی غذا ہے ۔تو بدرالمشائخ کے مریدین پورے ملک میں جب بھی اور جہاں بھی
آپ کوبلاتے تو وہاں محفل میلاد مصطفےٰ ﷺ کا انعقاد ضرورکرتے۔
حضرت بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ ایک ہی وقت میں عالمِ با عمل بھی تھے اور
صوفیٔ با صفا بھی ،عاشقِ رسول ﷺ بھی تھے اور مرید صادق بھی، مصلح بھی تھے
اور ناصح بھی ،منبر کے خطیب بھی تھے اور عاشقانِ رسول ﷺ کے حبیب بھی ۔درویش
صفت صوفی بھی تھے اور اعتقاد کے پختہ بھی ۔ انہی صفاتِ عالیہ کے سبب ہر
دیکھنے والا آپ کی ذات کا گرویدہ ہو جاتا ۔اخلاق ایسا کہ جیسے اخلاقِ کریمہ
سے حصہ وافر میسر آیا ہوچھوٹابڑا ہو یا چھوڑ حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ
کے اخلاق کا دلدادہ نظر آتا ہے ۔ حسنِ سلوک اتنا دلنشین کہ ہر ملنے والا
تصور کرتا کہ شاید حضرت سائیں صاحب سب سے زیادہ مجھ سے ہی محبت فرماتے ہیں
۔ حالتِ سفر و حضر میں مزاج میں یکسانیت ،عبادت و ریاضت میں دوام ،مرید و
غیر مرید پر یکساں شفقت اور احکامات قرآن و سنت کے فروغ نے مشائخ عظام میں
آپ انوکھا مقام عطا فرمایا۔
مرشد سے محبت:ویسے تو ہر مرید کو اپنے شیخ سے دلی عقیدت ہوتی ہے مگر جنون و
عشق کی حد تک اپنے مرشد و مربی سے محبت یہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔حضرت
بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنے شیخ کامل حضرت سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ
اﷲ علیہ سے اس حد تک محبت تھی کہ دربار عالیہ سے تبلیغی مقاصد کے لئے دور
دراز گئے بھی تو جلد دربار شریف پر واپسی کی تڑپ ہوتی۔سلسلہ عالیہ اویسیہ
کے عظیم روحانی بزرگ سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ
علیہ کے سالانہ عرس مبارک پر ہر سال خانقاہ شریف بہاولپور جاتے ۔سفر میں
فضول گوئی نہیں بلکہ ذکر و فکر اور تربیتی انداز روا رکھتے ۔آسائش کے سفر
پر خوش نہ ہوتے بلکہ سمہ سٹہ ایکسپریس پر تمام پیر بھائیوں کے ساتھ یہ کہتے
ہوئے سوار ہوتے کہ یہ میرے پیروں کی گاڑی ہے۔ پھر سمہ سٹہ اسٹیشن پر اتر کر
خانقاہ شریف دربار عالیہ کی طرف بڑے بڑے قدم سے سفر کرتے اور اس تیز رفتاری
سے چلتے جیسے شوقِ دید نے دل میں تڑپ بڑھادی ہو ۔ایک سال جو آپ کے وصال کا
سال بھی ہے ۔بیماری کا زور تھا اور ڈاکٹر نے سفر کرنے سے منع بھی کیا ہوا
تھا ۔مگر عرس سیرانی بادشاہ رحمۃ اﷲ علیہ 3ربیع الثانی آیا تو حضرت
بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میں عرس
مبارک پر ضرور جاؤں گا پتہ نہیں زندگی پھر وفا کرے یا نہ کرے۔ حضرت پیر
غلام رسول اویسی اور حضرت میاں غلام اویس اویسی نے عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر
نے سفر سے روکا ہوا ہے ۔ تو بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’راہِ
مرشد میں موت زندگی سے مجھے زیادہ پسند ہے‘‘ اس جملے نے سب کو خاموش کر دیا
اور روانگی کی تیاری شروع ہو گئی ۔حضرت سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے جملہ
مریدین کے لئے عرس مبارک پر حاضری بذریعہ سمہ سٹہ ایکسپریس تھی جبکہ حضور
بدرالمشائخ کو کمزوری اور بیماری کے سبب کار پر روانہ ہونا تھا ۔ ہر خادم
کی تمنا تھی اُسے ساتھ لے جایا جائے مگر حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ نے
میرے نام (محمد تبسم بشیر اویسی)کا اعلان فرما دیا ۔پھر میری خوشی کی
انتہاء نہ تھی ۔ دورانِ سفر تمام نمازیں با جماعت ،کھانے کے وقت عنایات
مرشد اور پھر کرم بالائے کرم یہ کہ کار میں حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ
کا سر مبارک میری گود میں ۔میں ساری زندگی میں اس سفر کو اپنے لئے سرمایۂ
حیات سمجھتا ہوں۔
محافل کی رغبت:میرے مرشدپاک حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ جب نارووال تشریف
لاتے تو پورا محلہ خوشیوں سے لبریز ہوتا ۔ رات مسجد میں جشن میلاد النبی ﷺ
کانفرنس سجتی اور دن بھر تمام گھروں میں محافل ہوتیں۔ نعت خواں حضرات جن
میں صوفی غلام حیدر اویسی ، شاعرِ اہلسنت حبیب اﷲ ناصر اویسی، صوفی جان
محمد اویسی ،حاجی محمد زمان اویسی اور صوفی عبد الطیف خاکی اویسی رحمۃ اﷲ
علیہ شامل ہیں ۔ہر گھر میں مرشد پاک کی موجودگی میں نعت شریف پڑھتے تو محفل
کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ۔ان محافل کا مقصد میرے پیر و مرشد حضرت بدرالمشائخ
پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ یوں بیان فرماتے :’’جس گھر میں
ذکرِ نبی ﷺ ہو اُس گھر میں سارا سال برکت ہوتی ہے۔ بلائیں دور ہوتی ہیں اور
اہل خانہ میں سلوک رہتا ہے ۔‘‘
طریقۂ اصلاح:معزز قارئین !اصلاح امت ایسا فریضہ ہے جو انبیاء کرام علیہم
السلام کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اولیاء عظام رحمہم اﷲ تعالیٰ کو سونپا ہے ۔حضرت
بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کا اصلاح فرمانا بھی اپنی مثال آپ تھا ۔ کبھی کسی
کا نام لے کر اجتماع میں اُس کی غلطیاں بیان نہ فرماتے اور نہ کسی کی عیب
جوئی فرماتے بلکہ مجموعی انداز سے ایسی پر اثر اور پر مغز گفتگو کرتے کہ
سامنے بیٹھا ہر شخص اپنے تائیں محتاط ہو جاتا کہ شاید یہ میری ہی اصلاح ہو
رہی ہے ۔یہ سلسلہ طریقۂ نبوی ﷺ کی تقلید تھا ۔
ذکر اللّٰہ سے محبت:ذکر اﷲ روح کی غذا اور دل کو زندہ رکھنے کا نسخہ ہے
۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اﷲ کا ذکر اس طرح کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ
کہنا شروع کر دیں۔یہی انداز ذکر امام العاشقین سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی
اﷲ عنہ کا تھا اور اسی طریقہ کو میرے شیخ کامل حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں
محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنائے رکھا ۔ زندگی بھر دربار شریف ہر
جمعرات کو بعد عشاء ذکر اﷲ کی صداؤں سے گونجتا رہتا۔ کسی محفل پر جاتے تو
ذکر ضرور کرواتے۔بلکہ ’’اﷲ الصمد‘‘ کے ذکر پر تو بے خود ہو جاتے اور فرماتے
یہ اویسیوں کا وظیفہ و ذکرِ خاص ہے ۔
علم دوستی:علم دوستی کی حد نہ تھی ۔جس طرح اسلام و بانیٔ اسلام حضرت محمد
مصطفےٰ ﷺ نے علم کا حصول فریضۂ مومن قرار دیا ہے ۔اسی بات کی تلقین حضرت
بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ۔زندگی بھر
دربار شریف پر ترجمہ و تفسیر القرآن خود پڑھاتے رہے ۔ جدید تعلیم کے فروغ
کے لئے جامعہ اویسیہ مڈل سکول قائم فرمایا۔سینکڑوں دینی مدارس جن میں جامعہ
اویسیہ کنز الایمان نارووال بھی ہے خود اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھ کر
قائم فرمائے ۔مدارس کی مالی امداد اور حفاظ کرام کی حوصلہ افزائی فرماتے ۔
علمائے دین کی قدر کرتے اور فرماتے آپ دین مصطفوی ﷺ کے پہرے دار ہو۔طلباء
دین کی مالی معاونت فرماتے بلکہ ہر ہفتے بلا بلا کر روپے دیتے اور فرماتے
تم دل لگا کر علم حاصل کرو تاکہ جہالت کے اندھیروں میں چراغِ علم روشن کر
سکو۔
حرص و طمع سے گریز:حرص وطمع فطرت انسان میں شامل ہے ۔انسان اپنے مفادات کے
لالچ میں جائز و ناجائز تک نہیں دیکھتا ۔مگر وہ انسان جو آخرت کی فکر اور
اﷲ و رسول ﷺ کے ذکر کے احساس میں زندگی بسر کریں اُن کے لئے یہ تمام چیزیں
ہیچ ہیں ۔اولیاء اﷲ تو اپنے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی سنت پہ عمل کرتے
ہوئے سارا مال تقسیم کر کے سونے میں عافیت خیال کرتے ہیں ۔حضرت بدرالمشائخ
پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی مبارک بھی اسی سلسلہ کی
عظیم کڑی تھی۔ نہ حرص و طمع فرمایا اور نہ روپے سے محبت ۔بلکہ ہر نذرانہ
مسجد کی تعمیر ،مدارس کی ترقی اور خدمتِ خلق پر خرچ فرماتے ۔کبھی بنک بیلنس
یا سرمایۂ کاری پر توجہ نہ فرمائی ۔بلکہ فرماتے ’’ہم نے مخلوقِ خدا پر خرچ
کر کے اﷲ تعالیٰ سے سرمایۂ کاری کی ہے ۔‘‘
امیرو غریب میں کبھی تمیز نہ فرماتے بلکہ امیروں سے زیادہ فقراء سے محبت
فرماتے اور رسول کریم ﷺ کی حدیث ’’ الفقر فخری‘‘ کو ہی اپنا مشنِ زندگی
گردانتے۔
دینی و تبلیغی خدمات پر سراہنا:حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس کی
بھلائی چاہتا ہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے ۔دینی شعور اور تبلیغ دین
کا جذبہ قوم مسلم سے ماند پڑتا جا رہا ہے ۔مگر اولیاء امت و علمائے حق اس
فریضہ کو ہمیشہ ہر حال میں سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ میرے مرشد حقانی
بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ بھی دین متین کی
سربلندی او ر تبلیغ اسلام کی خدمتِ عظیمہ میں خود بھی مستعد رہتے اور جو اس
کارِ خیر کو سر انجام دیتا اُس کی خوب خوب حوصلہ افزائی فرماتے ۔ایک بار
مجھ ناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی) کو فرمایا’’تجھے پتہ ہے میں تجھ سے محبت
کیوں کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا حضور مجھے علم نہیں میں تو عاجز و گناہگار
انسان ہوں ۔فرمایا تو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسلام کی سر بلندی کے لئے
کوشا ں رہتا ہے یہی تجھ سے میرے پیار کی بڑی وجہ ہے ۔‘‘یہ تو میرا معاملہ
ہے ۔اسی طرح ہزاروں مبلغین کو اپنی جیب سے رقم عطا فرما کر تبلیغ دین کی
طرف راغب رکھتے ۔اپنے صاحبزادگان کو بھی اسی مشن پر گامزن فرمایا بلکہ اپنے
پوتے صاحبزادہ علی رضا اویسی کو فرماتے ’’میرا شوق ہے کہ تو حافظ و عالم
بنے ‘‘حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کی اس خواہش کو آج اﷲ تعالیٰ نے پورا
فرمادیا ہے ۔ یقینا اسی تڑپ سے اگر آج تمام مشائخ عظام میدان عمل میں آئیں
تو خانقاہیں علم کے نور سے منور ہو جائیں ۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی ماہنامہ
تاجدار یمن نارووال بھی ہے جو قرآن و سنت کے علوم کی ترویج میں9سال سے کو
شاں ہے ۔ماہنامہ تاجدار یمن کے ہزاروں قارئین اس کے علمی و فکر ی مضامین
اور اصلاحی و روحانی موضوعات سے استفادہ کر کے ’’فیضان بدرالمشائخ ۔۔۔۔جاری
رہے گا‘‘ کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔
تنظیم و اتحادِ امت پر زور :ہر قوم کی بہتری کے لئے منظم کوششیں اُس کے
اتحاد اور غلبہ کی ضامن ہوتی ہیں ۔ امام المرسلاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے
وادیٔ مکہ میں اسی سعیٔ جمیلہ پر کام فرمایا اور مدینہ منورہ میں اس کے
ثمرات دیکھنے کو ملے ۔ اولیاء امت نے بھی اسوۂ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو کر
خانقاہی نظام کے ذریعے ملتِ اسلامیہ کو منظم کرنے اور اتحادِ امت کے فروغ
کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد
اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی مشن کی تکمیل کے لئے اپنی سر پرستی میں
پہلے وابستگان سلسلہ عالیہ اویسیہ کو منظم کرنے اور درگاہِ اُویسیہ کے
سجادگانِ کے اتحاد کے لئے ’’تحریک اویسیہ پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی ۔آپ کی
کوشش تھی کہ ان صاحبان کو ایک پلیٹ فارم دے کر نفرتوں سے پاک ماحول بنا کر
میں محبتوں کے چراغ روشن کرنے اور پیغمبر امن حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی
تعلیمات کا احیاء ممکن بنایا جائے ۔جس پر 150سے زائد خانقاہوں کے سجادگان
نے اتفاق کیا اور آج تحریک اویسیہ پاکستان پورے ملک میں اتحاد امت کے لئے
کام کر رہی ہے ۔ تمام تہواروں کو اسلامی ماحول میں منایا جاتا ہے ۔تحریک
اویسیہ پاکستان کا مقصد سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کے جذبۂ عشقِ
رسول ﷺ کی لگن نوجوان نسل تک پہنچانا ،تصوف کے اسلامی و مصطفوی ﷺ رنگ سے
عوام کو روشناس کروانا اور فرقہ پرستی کی جڑیں اکھاڑنا ہے۔تحریک اویسیہ
پاکستان کا مرکزی دفتر دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع
گوجرانوالہ اور جامعہ اویسیہ کنز الایمان نارووال ہے ۔جبکہ رابطہ آفس کوٹھی
نمبر1زبید پارک کاشانہ اویس عقب چوک یتیم خانہ لاہور میں ہے۔
وصال و عرس مبارک :اتنی ساری گوں ناگوں خوبیوں کے حامل میرے پیر و مرشد
حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ تمام تر دینی
،علمی ،فکری ،اصلاحی اور روحانی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے سخت علیل ہوئے اور
28نومبر2000ء بروز منگل کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ہمیں داغِ مفارقت دے کر
راہی عدم ہوئے ۔مگر آپ کے جاری کردہ تمام امور آج بھی جاری و ساری ہیں
۔28نومبر کو دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ میں
تاریخی جنازہ ہوا ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد اپنے مرشد و مربی
کی جدائی ووصال پر اشکبار تھا ۔حضرت بدرالمشائخ کو آپ کے پیر کامل حضرت
سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ختماتِ ایصالِ
ثواب ہوتے رہے اور جب سالانہ عرسِ مبارک کے دنوں کی تقسیم ہوئی تو اس
ناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی) کو یومِ وصال 28نومبر نارووال مرکز اویسیاں
میں جس کو میرے شیخ کامل نے مرکز اویسیاں فرمایا تھا عرس کا اہتمام کرنا
نصیب ہوا۔
ہر سال 28نومبر کو مرکز اویسیاں نارووال میں جانشین بدرالمشائخ ،عالمی مبلغ
اسلام حضرت علامہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین دربار عالیہ اویسیہ کی
زیر صدارت جگر گوشۂ بدرالمشائخ حضرت پیر میاں غلام اویس اویسی کی زیر
سرپرستی عرس مبارک بدرالمشائخ نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ اس
سال بھی 28نومبر2013ء بروز جمعرات مرکز اویسیاں نارووال میں عرس مبارک
منایا جا رہا ہے ۔جس میں ملک پاکستان کے معروف علماء و مشائخ ،مختلف مذہبی
جماعتوں کے قائدین اور سیاسی عمائدین خطابات کریں گے مہمان خصوصی شیخ طریقت
حضرت پیر محمد اسماعیل اویسی سجادہ نشین آستانہ عالیہ اویسیہ چک پروکا شریف
فیصل آباد ہونگے اور خصوصی خطاب مخدوم المشائخ ، حضرت پیر سید محمد کبیر
علی شاہ تاجدار ایوان چورہ شریف لاہور ،قائد اہلسنت علامہ پیر سید محمد
عرفان شاہ مشہدی ناظم اعلیٰ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان آف انگلینڈ
،پیشوائے اہلسنت پیر محمد افضل قادری مرکزی امیر عالمی تنظیم اہلسنت
فرمائیں گے ۔عرس مبارک کے تمام انتظامی امور کو محمد یعقوب اویسی ایڈووکیٹ،
محمد عاصم بشیر اویسی ،حافظ محمد عرفان اسلام اویسی ، محمد محسن اویسی
،صاحبزادہ علی احمد اویسی سر انجام دیں گے ۔عشاقانِ بدرالمشائخ قافلہ در
قافلہ شرکت کر کے اپنے شیخ کامل کی خدماتِ اسلام کو خراج تحسین پیش کریں گے
۔جبکہ ہر زبان یہ دعا کرے گی۔۔۔۔۔۔
دامن رحمت میں اپنے دے پناہ مجھ کو رحیم
سائیں محمد اسلم اویسی (رحمۃ اﷲ علیہ ) بے ریا کے واسطے
اﷲ تعالیٰ ہمیں فیضان اویسیہ سے مالا مال کرتے ہوئے تصوف و روحانیت کے
حاملین سے حقیقی محبت نصیب فرمائے ۔آمین
آپ کا 13واں سالانہ عرس مبارک 28نومبر2013ء بروز جمعرات مرکز اویسیاں
نارووال میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا رہا ہے
|