پلید اذہان سے پاک ، پاک لوگوں کی سرزمین پاکستان میں
بھائی چارے کی حقیقت محض اتنی ہے کہ یہاں پاک دین اسلام کے پیروکار اپنے ہی
مسلمان بھائیوں کو چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔ بیورکریسی عوام کو
بطور چارہ استعمال کرتی ہے اور دین کے نام نہاد چمپیئن اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ
کی مساجد سے ملت میں تفریق کے بیج بو نے کے بعد مسالک میں بٹی اسی قوم کے
جوانوں کو اب چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔ روز عاشور راولپنڈی میں
مسجد، مدرسہ ، امام بارگاہوں ، اور مارکیٹوں میں جو آگ لگائی گئی اس کی آنچ
پر کئی علماء اور افسران سیاسی اور ذاتی مفادات کی روٹیاں سینک رہے ہیں ۔
کون ہے جو حقائق سے نابلد ہو مگر بیان کرنے کی ہمت کہاں ہے۔اگر کوئی ہمت کر
ے بھی سہی تو اس کا اپنا حقہ پانی خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ راولپنڈی ہی کیا
پورے پنجاب کو ہی شیعہ سنی فسادات کی آگ میں جھونکنے کی ناپاک سازش کی گئی
۔ سازش کی ابتداچند بھونکنے والوں نے کی ۔ ویسے مولانا فضل الرحمان نے جب
سے بھونکنے والوں کو جنت کی نوید سنائی ہے ان کا شرعی مقام (مولاناکی نظر
میں )بلند ہوتا جارہا ہے اور ان کی بھونک بھی کچھ اضافی ہے ۔ راولپنڈی میں
حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس ، رینجرز، فوج تینوں اپنا اپنا کردار ادا
کررہے ہیں ۔ ویسے شرفاء کسی کے کردار پر کیچڑ تونہیں اچھالتے لیکن ایک ہی
شہر میں ایک ہی وقت میں 6امام بارگاہوں پر حملہ، مارکیٹ میں آتشزدگی اور
سرکاری اسلحہ سے نکلی گولیوں سے 11ہلاکتیں کچھ اداروں کے کردار پر سوالیہ
نشان تو ہیں ۔ لیکن کیا کریں کہ جب کسی کی جانب ایک انگلی اٹھائیں تو چار
انگلیاں اپنی جانب ہی اشارہ کرتی ہیں ۔ 8محرم الحرام کو سوشل میڈیا کے
ذریعے جب ایک مخصوص جماعت نے اپنے لوگوں کو روز عاشور راجہ بازار پہنچنے کی
کال دی اور اس کال میں انھیں اپنے ساتھ اسلحہ لانے کی بھی ہدایت کی تو اس
وقت انٹیلی جنٹس اور انتظامیہ نے کوئی کاروائی کیوں نہیں کی۔ جلوس عزا عین
جمعہ کے خطبے کے دوران ہی مسجد کے سامنے کیسے موجود تھا۔ انتظامیہ اوقات
میں ردوبدل کر سکتی تھی ۔ پاکستان بھر میں جہاں جہاں نماز جمعہ کا خطبہ دیا
جاتاہے اس کا ریکارڈ مقامی انتظامیہ کے پاس موجود ہوتا ہے کیاروز عاشور
مسجد غلام اﷲ کے اس متنازعہ خطبے کا ریکارڈ موجود ہے ؟پتھراؤ کے بعد ہونے
والی فائرنگ سے تقریباً سات افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ حیران کن
امر ہے کہ یہ تمام لوگ سرکاری گولیوں کا نشانہ بنے ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ
مدرسے کی چھت پر موجود اہلکاروں سے طلباء نے اسلحہ چھینا اور جلوس کی
سیکورٹی پر مامور اہلکاروں سے شرکاء نے اسلحہ چھینا۔ جو سپاہی اپنے ہتھیار
کی حفاظت نہیں کرسکتے وہ اتنے بڑے عوامی اجتماعات کی حفاظت کیسے کرسکتے ہیں
؟ ان پولیس اہلکاروں کو سب سے پہلے شامل تفشیش کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے
اپنے ہتھیاردوبارہ مال خانے میں جمع نہیں کرائے ۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً
ایک ہی وقت میں چھ امام بارگاہوں پر باقاعدہ حملہ ہوا۔ انتہائی سخت ناکہ
بندی ، موبائل سروس کی بندش،جگہ جگہ جامہ تلاشی اور متحرک سرکاری اداروں کی
موجودگی میں یہ حملے ناممکن حد تک مشکل تھے۔ انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی
راولپنڈی کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ ملتان، چشتیاں سمیت پنجاب کے دیگر
علاقوں میں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ جہاں جہاں عاشور کے مرکزی
جلوسوں میں شرپسندوں کی جانب سے بے جا اور قابل مذمت مداخلت کی گئی وہاں
وہاں انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ پاکستان علماء کونسل کے سربراہ
علامہ طاہر اشرفی نے سانحہ راولپنڈی کوانتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے
موقع پر موجود افسران کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے اپنے بیان میں ہوم
سیکرٹری کے ساتھ ہونے والی اس میٹنگ کابھی حوالہ دیا جس میں انھوں نے جمعہ
کے خطبے اور جلوس کی ٹائمنگ کی جانب توجہ دلائی تھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے
رہنماعلامہ امین شہیدی نے سانحہ کا ذمہ دار ان مخصوص عناصر کو قرار دیا جو
ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک
ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ کسی کے گلے کاٹے گئے ہوں ۔ امین شہیدی صاحب کے
بیان کی تصدیق جاں بحق افراد کے میڈیکل رپورٹس سے بھی ہوتی ہے۔ راولپنڈی سے
منتخب رکن قومی اسمبلی شیخ رشید نے اپنے بیان میں علماء کے طرز عمل کو مثبت
قرار دیا اب یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے مسجد غلام اﷲ کے خطیب کے خطبے کو
بھی مثبت قرار دیا ہے یا نہیں ۔ شیخ رشید کے مطابق آگ لگانے میں کوئی تیسرا
ہاتھ ملوث ہے جن کا تعلق نہ عزاداروں سے ہے اور نہ ہی مدرسے والوں سے۔ ماضی
میں قادیانیوں کو اس بناء پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا کہ وہ ختم
نبوت کے قائل نہیں گرچہ غلام محمد جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا نام سے ہی
محمد ﷺ کا غلام تھا لیکن اﷲ کے غلام (گرچہ اﷲ کے غلام نہیں ہوتے بندے ہوتے
ہیں ) نبوت کے بھی قائل ہیں یا نہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے اور امام
عالی مقام کی پہچان کے لیے توفقط یہی حدیث نبوی ﷺ ہی کافی ہے کہ ’’حسین مجھ
سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں‘‘اور امام عالی مقام فقط کوئی اہل تشیع کی
جاگیر نہیں ہیں ۔ دنیا کے ہر مذہب و مسلک کے افراد امام عالی مقام کو اپنا
رہنما و پیشوا سمجھتے ہیں اور انھیں انسانیت کے محسن کا درجہ دیتے ہیں ۔
پھر امام عالی مقام کی شان میں جو زبان گستاخی کی جسارت کرے اس زبان سے
برایت کا اظہار بھی ہر مسلک و مکتب کی جانب سے سامنے آتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع
کے ساتھ بڑا مسئلہ امام عالی مقام کی شناخت کا ہے۔ وہ اس گھوڑے کو بھی سونے
چاندی سے لادے پھرتے ہیں جس نے امام عالی مقام کے مرتبہ کو پہچانا۔پہچان کا
یہی بنیادی فرق فرقہ واریت کا باعث ہے جبکہ انتظامی ادارے ممکنہ حد تک
پنجاب حکومت کی ہدایت پر ان مسائل کو ہوا دیکر حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ
ہٹاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دست گریباں کر کے خون میں غلطاں کرتے ہیں ۔
پنجاب حکومت گرچہ روز عاشور کو محسن انسانیت کے نام سے بھی منا سکتی تھی
لیکن شریف برادران نے ڈینگی ڈے منانا زیادہ مناسب سمجھا ۔ یہ کہنا بے جا نہ
ہوگا کہ سانحہ گوجرانوالہ ، راولپنڈی ، ملتان ، چشتیاں ، بہاولنگر وغیرہ
ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ گوجرانوالہ کی دو امام بارگاہوں میں دہشت گردی
کے سانحات جس میں تین نمازی شہید ہوگئے کے بعد ریجنل پولیس آفیسر اختر
بھروانہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بظاہر یہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے
واقعات ہیں جس میں ایک ہی گروپ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں
دیا جاسکتا۔ گوجرانوالہ میں 170امام بارگاہیں موجود ہیں جن کو ہمہ وقت
سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی ۔ مقامی افراد کے مطابق نماز اور عزاداری کے
دوران روزانہ دو کانسٹیبل سیکورٹی فراہم کرتے ہیں مگر اس روز کوئی کانسٹیبل
ڈیوٹی پر موجود نہیں تھا۔ اب ان شواہد سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں
کہ ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگانے اور پھیلانے میں کونسے عناصر کارفرما
ہیں ۔ اب تشدد کی اس لہر کے ذریعے کیا وطن عزیز کو عراق، شام، لیبیا کے
حالا ت کی طرف دھکیلا جارہا ہے ؟ یا طالبان کی نئی ریاست امارت اسلامی
وزیرستان کی راہ ہموار کرنے کے لیے نفاذ شرعیہ کے مطالبے کو عوامی مطالبے
کے طور پر پیش کرنے کی تیاریاں جاری ہیں ؟کیونکہ ان سانحات کے بعد کئی
کالعدم تنظیموں کے مردہ گھوڑوں میں جان ڈالنے کے لیے ان کے اجلاسوں کا
سلسلہ بھی جاری ہوگیا ہے ۔ ایک طرف دفاع پاکستان کونسل کا اجلاس اور دوسری
جانب احمد لدھیانوی کی مولانا فضل الرحمان سے پارلیمنٹ لاجز میں ملاقات
دورس نتائج و اثرات سے پر ہیں ۔ ظاہر ہے ان حالات میں سنی تحریک ، شیعہ
علماء کونسل ، مجلس وحدت مسلمین و دیگر شیعہ و بریلوی مسلک کی مذہبی
جماعتیں بھی اپنا اپنا لائحہ عمل پیش کریں گی ۔خدانخواستہ ان دونوں کا
لائحہ عمل ایکدوسرے کے مقابل ہوا تو کیا حالا ت ہونگے؟ صوبائی وزیر قانون
رانا ثناء اﷲ کی قیادت میں ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل
دی گئی ہے اس کی اپنی حیثیت پر بھی کئی سوالات ثبت ہیں کیونکہ رانا صاحب کو
تو پہلے سے ہی کالعدم تنظیموں سے روابط کے الزامات کا سامنا ہے۔ اب یہ
کمیٹی چاہے جسے بھی ملزم قرار دے بات تو جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی
ہوگی۔ پاکستان مسلکی بنیادوں پر بڑی جماعتوں کے تحرک کا کسی بھی طور متحمل
نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجود ہ حکومت بیرونی دوستوں کے خدشات
دور کرنے اور ان کی ڈکٹیشن لینے کے بجائے ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے
ہوئے ملک میں سلگائی جانے والی فرقہ واریت کی آگ پر پانی ڈالے نہ کہ اس کو
بڑھاوا دینے کے لیے پٹرول کا بندوبست کرے ۔ ویسے بھی تیل کافی مہنگا ہے
لیکن عرب ملکوں کے پاس یہ وافر مقدار میں موجود ہے اور ملک میں گناہ گاروں
کی تلاش کے بجائے بے گناہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تلاش وہی چیز
کی جاتی ہے جو مقدار میں کم ہوتی ہے ۔ |