آپ مِنرل واٹر، کولڈرنگ یا پیٹرول میں سے کیالیناپسندکریں گے

 آپ مِنرل واٹر، کولڈرنگ یا پیٹرول میں سے کیالیناپسندکریں گے؟میزبان کامہمان سے مکالمہ..
قوم کو وراثتی حکمرانوں ، سیاستدانوں اور آئی ایم ایف کے پِٹھوؤں سے کب نجات مِلے گی...؟

آج کا ہر پہلااور دوسرااِنسان کتنامصروف ہے، یہ میں بھی جانتاہوں اور آپ بھی شاید جانتے ہوں گے کہ موجودہ دورکا اِنسان دنیا وی معاملات میں کتنااحساس اور اسٹیٹس کے دورمیں آگے نکل جانے میںہروقت مصروف رہتاہے،اِس کا اندازہ تومجھے اپنے روزمرہ پیش آنے والے حالات واقعات اوربہت سے معاملات سے ہوگیاہے، کیوں کہ میں بھی آپ ہی کی طرح اِسی گردشِ ایام میں رات دن ایک کرتے معاشرے کی ایک اکائی ہوں، اورایسی اکائی جو یہ خُوب جانتی ہے کہ یہ تن تنہاکچھ نہیں مگربائی چانس جب کبھی معاشرے کی سب اکائیاں کسی نقطے پر باہم متفق اور متحدہوجاتی ہیں تو اِن اکائیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ معاشرے میں اِنقلاب برپاکردیتی ہیں،آج یوں لگتاہے کہ مجھ سمیت میرے معاشرے کی ہراکائی اپنی تاریخ کے اُن تمام عظیم اِنقلابوں اور کارناموں سے یکسرغافل ہوچکی ہے،جو اِس کا کبھی طرہ امتیازہواکرتے تھے،تب ہی اَب تک میرے معاشرے کسی انقلابی تحریک اور انقلابی تبدیلی سے محروم ہیں، مگرمجھے اُمیدہے کہ جب کبھی بھی میرے معاشرے کی ہرہراکائی کو اپنے جابروفاسق وفاجرحکمرانوں کے ہاتھوں ہونے والے استحصال کا احساس ہوگیا،تو میرے معاشرے کی ہر اکائی دوسری اکائی سے نتھی ہوتی چلی جائے گی، اورپھریوں ساری اکائیاں مل کرایک نہ ایک روزضروراپنے ظالم حکمرانوں سے اپنے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے گی بھی لیں گیں توقومی خزانے سے لوٹی گئی دولت بھی واپس لائیںگیں، اورپھرمیرامعاشرہ اورمیرامُلک جاگیردار، وڈیرے، چوہدری، سائیں، اور خان کی شکل میں ہم پر مسلط ہونے والے وراثتی جابروفاسق اور فاجرحکمرانوں سے نجات حاصل کرلے گا، اور میرے معاشرے اور میرے مُلک کو مہنگائی، بھوک وافلاس، بے روزگاری، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری، فرقہ واریت، لسانیت، اور معاشرتی ناہمواریوں سمیت کئی توانائی (بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات ) کے مصنوعی بحرانوں کی شکل میں آئے کئی مسائل سے بھی خودبخودچھٹکاراحاصل کرلے گا،کیوں کہ جب میرے معاشرے کی مجھ سمیت ہراکائی یہ جان چکی ہوگی کہ اِس کے معاشرے اور مُلک میں جتنی بھی بُرائیاں ہیں وہ سب اِن ہی وراثتی سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور اِن جیسے دوسروں کی وجہ سے تھیں۔

بہرحال...!آج مہنگائی کے اِس دورمیں جہاں میزبان کے لئے مہمان نوازی کرنامشکل ہوگیاہے تو وہیں کسی حدتک اِس میں آسانیاں بھی پیداہوگئی ہیں،قبل اِس کے کہ میں میزبان اور مہمان کے حوالے سے مزیدکچھ عرض کروں ، یہاں میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ بیشک مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، یہ جس میزبان کی دہلیزپہ جاتے ہیں ، میزبان کے دروازے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی اِس کے گھرمیں اللہ کی رحمتیں نازل ہوجاتی ہیں، اور میزبان جب مہمان کا منہ دیکھتاہے تووہ بس یہ چاہتاہے کہ اِس کی مہمان نوازی میں وہ کیاکچھ کرلے کہ مہمان اِس سے خوش ہوجائے، اور اِس کی میزبان نوازی پراِس کا رب ذوالجلال اِسے اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نواز دے،اِس سے انکارنہیں کہ66سالوں سے ہمارے مُلک میں ہونے والی مہنگائی کے ہردورمیں میزبان اپنے مہمان کو اپنے لئے اللہ کا انعام اور اِس کی رحمت سمجھتاتھامگرآج اِس دورِ جدیدمیں جیسے جیسے مہنگائی سرچڑھتی گئی اوراِنسانوںکی قوتِ خریدبھی اِس سے متاثرہوئی تووہیںمہنگائی کے اِس دورمیں میزبانوں کی اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں،مختصریہ کہ آج اول میں تو جب کسی کے گھرپہ جاؤ تووہ ملتاہی نہیں ہے، اور جب کبھی اتفاق سے کوئی مل بھی جائے توبن بلائے مہمان کو دیکھتے ہی اِس کاچہرہ فق ہوجاتاہے،اوروہ مہمان کو دیکھ کراپنی بغلیں جھانکنے لگ جاتاہے،تب اِس کا بس نہیں چلتاہے کہ وہ مہمان کا گلادبادے یا خودمرجائے،میں نے یہ معاملہ غریب میزبان تومیزبان بلکہ اچھے بھلے کھاتے پیتے میزبانوں کے ساتھ بھی ہوتاہوا دیکھاہے ،کہ آج سب ہی اپنے گھرآئے مہمان کو دیکھ کراپنے گھر کے مین دروازے پر ہی اپناایساناگوارسامنہ بناتے ہیں کہ غیرت مندمہمان سمجھ جاتاہے کہ یہ کنجوس میزبان اِس کی اچانک آمدپر کیا مہمان نوازی کرے گا ،اور پھرمہمان باہرہی سے ہاتھ ملاکرجانے میں اپنی عافیت سمجھتاہے، اورچندایک منٹ اِدھراُدھر کی باتیں کر اپنی عافیت اِسی میں سمجھتاہے کہ وہ اپنے گھر کا راستہ لے لے، اور میزبان اِس پرخداکا شکراداکرتاہے اور اپنے دیگرمعاملات میں مگن ہوجاتاہے۔

یہاں مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ میں اِس تجربے سے کئی بار گزراہوں، کبھی میں کسی کے لئے میزبا ن بناتوکسی کے لئے مہمان کے روپ میں پیش ہوکرتجربات کی بھٹی میں پک کر کندن بنا، اور آج میں اِس مقام پر ہوں کہ میں اِس مہنگائی اور نفسا نفسی کے دورمیں میزبان اور مہمان کی اہمیت اور ذمہ داریوں کو خوب جانتاہوں،آج میں یہ چاہتاہوں کہ اِس مہنگائی کے دورمیں بھی جب کوئی مہمان میرے گھرکی دہلیزپراپنے قدمِ مبارک رنجافرمائے تو میںحسبِ روایت اِس کی خدمت میں چائے بسکٹ یا کھانا پیناپیش کرنے کے علاوہ دورِ جدید کی ضرورتوں کے مطابق ایساکچھ پیش کروں کہ میرے گھر آئے ہوئے مہمان کی تشفی ہواورجب میں بھی کبھی اِس کے گھرحاضر ہوں تو وہ بھی اپنی میزبانی نوازی میں میرے ساتھ ایساہی کچھ کرے جیسامیں کرتاہوں۔

لہذاآج میں اپنی بے انتہامصروفیات اور قلیل آمدنی کے باوجوداِس جان لیوا مہنگائی کے دورمیں بھی اپنے گھرآئے مہمانوں کو اللہ کی رحمت سمجھتاہوں اوراپنے مہمانوں کو خوش آمدیدکہتاہوں اور اِنہیںاپنے ڈرائنگ روم میں نرم وگدازصوفوں پربیٹھانے کے بعد اِنتہائی باآدب لہجے میںمکالمانہ اندازسے یہ دریافت کرتاہوں کہ ” جناب آپ مِنرل واٹر، پیٹرول یاکولڈرنگ میں سے کیا لیناپسندکریں گے...؟(واضح رہے کہ میں مِنرل واٹر اور کولڈرنگ نہیں نوش کرنے کے لئے اور پیٹرول اِنہیں سواری کے لئے پیش کرنے کی دعوت دیتاہوں)پھروہ اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق میری اِس پیشکش میں سے کسی ایک چیرکو طلب کرلیتے ہیں،اور میں بھی ہنسی خوشی اِن کی یہ خواہش پوری کرنااپنی لئے باعثِ اعزازسمجھتاہوں ، ہاں چائے اور بسکٹ کی تواضع اِن کے علاوہ ہے، میں اپنے مہمانوں کی تواضع مِنرل واٹر، پیٹرول اور کولڈرنگ سے اِس لئے بھی کرنابہترسمجھتاہوں کہ آج اِس مہنگائی کے دور میں میرے ظالم و جابر اور فاسق حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے ملنے والی ہدایات پر عوا م کے لئے مِنرل واٹر، پیٹرول اور کولڈرنگ کی قیمتیں ایک جیسی کردی ہیں، اِس لئے میںیہ چاہتاہوں کہ میں بحیثیت میزبان اپنے مہمانوں کے لئے اِن کی ضرورت کی اشیاءپیش کروں اِس طرح میں اِن کی مددبھی کردیتاہوں اور یہ بھی خوش ہوجاتے ہیں،مگرایک بات ہے کہ میری پیشکش کے جواب میں اکثریت اُن مہمانوں کی ہوتی ہے جو مجھ سے ایک لیٹرپیٹرول کے طالب ہوتے ہیں، اور ایک مہینے میں کئی کئی مرتبہ میری مہمان نوازی کا شرف حاصل کرتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں بے وقوف ہوں حالانکہ میں ایساہرگزنہیں ہوں جیساوہ مجھے سمجھتے ہیں،میری کیفیت کو میرے گھرآئے مہمانوں کو سمجھناچاہئے کہیں ایسانہ ہوجائے کہ میں اپنے گھر کے مین گیٹ پر یہ لکھ کرلگادوں کہ ”کوئی شک نہیں کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، یہ میرے گھرآئیں ضرورآئیں مگرخداکے واسطے اِس مہنگائی کے دور میں اپنے ساتھ چائے،چینی پتی اور بسکٹ ساتھ لائیں،کیوںکہ گرانی کے بوجھ نے میری کمرتوڑدی ہے،اِس بہانے میں بھی چائے، بسکٹ چکھ لوں گااور آپ کو دعائیں اور اپنے حکمرانوں کو بددعائیں دوںگا،جنہوں نے مُلک میں مہنگائی کو بے لگام چھوڑکرمجھے اپنی مہمان نوازی کی روایات ختم کرنے پر مجبورکردیاہے“ سومیرے گھر آئے مہمان کبھی میری ہلکی پھلکی میزبان نوازی پر ہی اکتفاکرلیاکریں۔اور کبھی بغیرپیٹرول و مِنرل واٹراور کولڈرنگ سے فیضیاب ہوئے ہی لوٹ جایاکریں، باقی باتیں اگلے کالم میں ہوں گیں،اوراَب اِسی کے ساتھ ہی اللہ حافظ....!!
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 894585 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.