یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پاکستان میں جنگل
کا قانون رائج ہے۔ مجھے اس جملے سے ہمیشہ شدید اختلاف رہا ہے، کیوں کہ جنگل
کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے، قدرت کے عطاکردہ ضابطے ہوتے ہیں، جن پر چرند
پرند عمل کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں، مگر ہمارے یہاں تو اندھیر نگری چوپٹ
راج ہے۔
مہذب اور باعزت معاشرے کے قیام کے لیے انسانی حقوق کی پاس داری بہت ضروری
ہے۔ دوسروں کے حقوق کے احترام کے بغیر فرد انسانیت کے مرتبے تک نہیں پہنچ
سکتا۔ چناں چہ حق تلفی کے سدباب کے لیے قوانین اور ادارے بنائے جاتے ہیں،
جو کسی فرد یا جماعت کے حقوق چھینے جانے پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ لیکن ایسے
قوانین کی تشکیل اور اداروں کا قیام اور ان کی کارکردگی اس بات پر منحصر ہے
کہ معاشرہ اپنے حقوق سے کس حد تک آشنا اور ان کی پاس داری کے لیے تیار ہے۔
ہم پاکستانیوں کا المیہ تو یہ ہے کہ ہماری حق تلفی ہوتی رہی اور ہم اس کے
عادی ہوتے گئے۔
ریاست کا فرض ہے کہ وہ کم ازکم غریب شہریوں کو گرانی کی آفت سے بچائے رکھے،
مگر منہگائی بڑھتی رہی، بڑھتی جارہی ہے، لیکن اسے روکنے کے لیے کو قدم نہیں
اٹھایا گیا۔
ہماری جان کے تحفظ کا حق پامال ہوتا رہا، ہم سڑکوں پر ان جانی گولیوں کا
نشانہ بن کر مرتے رہے، لیکن ہماری جان کے تحفظ کا حکومتی فرض چپ چاپ تماشا
دیکھتا رہا۔
ٹریفک کے مسائل گھنٹوں کے ٹریفک جام اور خوف ناک حادثات کی صورت میں ہماری
جان کا روگ بنے ہوئے ہیں، لیکن کسی کو سڑکوں پر ٹائروں تلے کچلے جانے والے
ہمارے حقوق کا خیال نہ آیا۔
مثالی معاشرہ تو دور کی بات ہے، ایک معاشرے کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے کہ
اس کے افراد کے حقوق وفرائض کا تعین کیا جائے، اور ان کے نفاذ کے لیے حکومت
اور اس کے ادارے کوشاں رہیں، اگر ایسا نہ ہو وہ معاشرہ نہیں محض افراد کی
بھیڑ ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتی کہ قیام امن سے لے کر اخلاقی روایات کی پامالی
تک ہر معاملے میں حکومت ہی کو ذمے دار سمجھا جائے، ذمے داری عوام کی بھی
ہے، لیکن جب کسی حق اور فرض کے حوالے سے قانون بنایا ہی نہیں جائے گا یا اس
سے آگاہی فراہم نہیں کی جائے گی تو عوام میں اس حوالے سے شعور کیسے اجاگر
ہوگا؟ رہے اخلاقی ضابطے، تو کسی قانون کی عدم موجودگی میں صرف اخلاق کی کیا
حیثیت رہ جاتی ہے؟
سیاست دانوں، آمروں اور افسرشاہی کی عنایت سے ہمارا ملک آج جس نہج پر
جاپہنچا ہے اس کے نتائج ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں۔ ہر
پاکستانی واقف ہے کہ اس کا ملک کن گمبھیر مسائل سے دوچار ہے۔ اسے پتا ہے کہ
دہشت گردی ریاست کو گُھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور فرقہ واریت کا جنون معاشرے
کو بھڑکتے جہنم کی طرف لے جارہا ہے۔ ایسے میں حکومت ہو یا میڈیا، کسی واقعے
کی بابت حقائق چھپا کر عوام سے ان کے جاننے کا حق ہی نہیں چھینتے، بل کہ
افواہوں اور الزامات کا راستہ بھی کھول دیتے ہیں۔
سانحہ راولپنڈی نے بھی یہ حقیقت اجاگر کردی ہے کہ حقائق چھپانا مسئلے کا حل
نہیں۔ جب یہ سانحہ رونما ہوا تو دو دن تک میڈیا خاموش رہا۔ اس خاموشی کی
بنیاد مصلحت پر مبنی یہ پالیسی تھی کہ اس سانحے کی خبر کو پوری تفصیل کے
ساتھ اور ٹھیک ٹھیک نشر کرنے سے حالات خراب ہوجائیں گے، لہٰذا خبر کو فی
الوقت دبا دیا جائے یا اس کی سنگینی کم کردی جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد
میں الیکٹرانک میڈیا نیند سے بیدار ہوگیا اور اس سانحے کے حوالے سے ٹاک شوز
میں ریٹنگ بڑھانے کا عمل شروع ہوگیا۔
دو دن کی یہ خاموشی خطرناک ثابت ہوئی۔ اس پُراسرار خاموشی میں سوشل میڈیا
پر جو شور برپا ہوا اس نے الیکٹرانک میڈیا کی چُپ کے ساتھ مل کر شکوک
وشبہات اور الزامات کی فضا تیار کردی۔ سوشل میڈیا پر فریقین یا فرقہ وارانہ
سوچ رکھنے والوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، تصاویر پوسٹ کرنے
اور نازیبا زبان کے استعمال کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بڑھتا چلا گیا۔ یہ سب
ایک عرصے سے ہورہا ہے، لیکن شکر ہے کہ حکومت نے اس مرتبہ سماجی ویب سائٹس
پر پھیلائی جانے والی منافرت کا نوٹس لیا ہے۔
میں اپنے گذشتہ کالموں میں بھی سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کی بات
کرتی رہی ہوں۔ شکر ہے کہ حکومت نے اس پر غور شروع کردیا ہے۔ تاہم ہماری
حکومتوں کی ترجیحات اور مسائل کی آتش کو دعوؤں اور بھڑکوں کے پانی سے سرد
کرنے کی روش دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ
معاملہ التوا کا شکار ہوجائے گا۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر پورے کروفر کے ساتھ انتباہ کیا جاتا
ہے کہ ”جو شخص عوامی رابطے کی ویب سائٹس اشتعال انگیز مواد پھیلاتا پایا
گیا، اسے سخت سزا دی جائے گی۔“ حد ہے صاحب! آپ کے پاس تو وہ قانون ہی نہیں
جو کسی کو اس اشتعال انگیزی سے روک سکے۔ میں اپنے کالموں میں انفارمیشن
ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمٰن کو مشورہ دے چکی ہوں کہ وہ سوشل ویب سائٹس
کے حوالے سے قوانین اور ضابطے بناکر اپنی ذمے داری کا حق ادا کریں، لیکن اس
جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
سوشل میڈیا کے دائرہئ کار اور نوعیت کے باعث اس کے اثرات دنیا بھر میں مرتب
ہو رہے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس پر ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔ ہمارا
مسئلہ یہ ہے کہ یہ آزادی ذمے داری کے ساتھ پوری نہیں کی جارہی۔ افراد اور
گروہ، چاہے وہ کسی سیاسی نظریہ کے حامل ہوں یا مذہبی عقیدے کے، افواہوں،
الزامات اور دل آزار پوسٹس کے ذریعے معاشرے کے انتشار اور اختلافات کو مزید
بڑھا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اس معاملے کو مزید سنگین بنادیتی ہے کہ سوشل ویب
سائٹس کے استعمال کرنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو اپنے
جذبات میں شدت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے سماج کو اس میڈیا
کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ اس کے لیے قانون سازی ضروری
ہے، لیکن یہ ایک خالصتاً تیکنیکی مسئلہ ہے، جو صرف قانون بنادینے سے حل
نہیں ہوسکتا۔ سوشل ویب سائٹس سے قابل اعتراض اور نفرت انگیز مواد کے خاتمے
اور اس کی روک تھام کے لیے حکومت کو ان ویب سائٹس کی مالک کمپنیوں سے بات
چیت کرکے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر یوٹیوب پر موجود اشتعال
انگیز مواد ہٹوانے اور آئندہ ایسے مواد کی آمد روکنے کے لیے، یوٹیوب کی
مالک کمپنی گوگل کے قواعد کی رو سے، ہماری حکومت کو یوٹیوب کا پاکستان کے
لیے ڈومین حاصل کرنا ہوگا، جس کے لیے اس کمپنی کو تحفظ کی ضمانت دینا لازمی
ہے۔ اس ضمانت کی فراہمی کے لیے الیکٹرانک کرائم بل میں ترمیم ناگزیر ہے۔
حکم رانوں کو سوشل ویب سائٹس سے متعلق حقائق کا ادراک کرنا ہوگا، تب ہی اس
حوالے سے موثر پالیسی اور قوانین کا نفاذ ممکن ہے۔ |