چند روز قبل جماعت اسلامی کے
امیر سید منور حسن نے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کالعدم تحریک طالبان
پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود کو شہید کہا۔ سید منور حسن کے اس بیان کے
بعد ملکی اندرونی سیاست میں خاصی تبدیلی آئی۔ ہر جماعت خواہ وہ سیاسی ہو یا
مذہبی ہر ایک نے سید منور حسن کے بیان کو لے کر اپنی سیاست چمکائی۔ ملکی
سیاسی جماعتوں نے اس بیان کو ہی بنیاد بناکر اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف
پراپگینڈا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی مذہبی جماعتیں بھی اس کارخیر
میں پیش پیش رہیں اور اپنے اپنے دئیے گئے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے
سرگرم عمل نظر آئیں۔ کسی نے کہا کہ طالبان شہید تو کوئی کہتا ہے کہ پاک فوج
شہید۔ اسی اثنا میں طاہر القادری صاحب کہتے ہیں کہ دونوں قاتل ہیں کوئی بھی
شہید نہیں ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے تو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے طالبان نے
دئیے گئے مناظرے کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے
کے عزم کو دھرایا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گویا کہ ساری قوم
تفرقہ میں بٹ گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ طالبان شہید اور کوئی اس بحث میں مبتلا
ہے کہ طالبان شہید نہیں اور کوئی کہتا ہے کہ دونوں فریقین قاتل ہیں۔ لیکن
اس اثنا میں کچھ دیر کے لیے سوچتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اعدادوشمار کے
مطابق صرف 2004ء میں پاکستان میں تقریباً 3600پاکستانی دہشت گردی کی مختلف
وارداتوں میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں جن میں عورتیں ، بچے اور
بوڑھے اور جوان سب بغیر کسی کے شامل ہیں ۔ بعض کو کفن نصیب ہوا تو بعض کو
وہ بھی نہیں ملا، کسی کی لاش مل گئی کسی کے لواحقین ابھی تک اپنے پیاروں کی
لاشیں ڈھونڈرہیں ہیں اور تذبذب کا شکار ہیں کوئی اپنے باپ کی تلاش میں اور
کوئی اپنے بیٹے کی تلاش میں ہے ۔ کسی جگہ ماں باپ اپنے بچوں کی یاد میں رو
رہے ہیں تو کہیں بچے اپنے والدین کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ کہیں بوڑھے
والدین سے ان کا آخری سہارا چھین گیا تو کہیں کوئی سہاگن اپنے مجازی خدا کی
تلاش میں ہے غرض کہ ملک کی مجموعی صورت حال اتنی غیر تسلی بخش ہوچکی ہے کہ
ہر بندہ پریشان ہے ۔ ان شہدا کی ارواح آج ہم سے سوال گو ہیں اور چلا چلا کر
ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ بالآخر ہمارا قصور کیا ہے۔ شہید ہونے والی معصوم
بچیاں ہمیں بتلارہی ہیں کہ تمہاری بیٹیاں ماری جارہی ہیں اور تم خاموش
بیٹھے ہو، تمہارے ہم وطنوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور تم اپنے لب سیئے
بیٹھے ہو ایسی بدترین صورت حال میں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ جو ہمارے
پیارے جن کی شہادتوں میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ان کے ورثاء کا کیا
بنا؟ کیا ہم نے کبھی اس معاملہ کو اٹھایا کہ ہمارے اپنے ہم وطن کیوں مارے
گئے ؟ اور مارے بھی اس طرح گئے جیسے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ نہیں بالکل
نہیں ہم نے ایسا کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی ہماری عوامی حکومتوں نے کبھی
ایسا سوچا کیونکہ ساری عوامی حکومتوں کو عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ۔
ہماری حکومتیں تو اس فعل میں سرگرم عمل رہتی ہیں کہ عوام کا خون کیسے چوسا
جائے امریکہ سے بھیک کیسے مانگی جائے۔ ہندوستان سے تعلقات کیسے بحال کیے
جائیں۔ ان تمام عوامی مسائل سے ہماری حکومتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنی
خامیوں کو چھپانے کے لیے امریکی مداخلت پر پردہ ڈالنے کے لیے، ہندوستان کے
پاکستانیوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے شواہد کو پس پردہ پھینکنے کے لیے
اختلافی مسائل کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اٹھایا جاتا ہے تاکہ عوام کو
کون شہید کون قاتل کے مسئلے میں الجھادیا جائے اور دوسرے قومی معاملات سے
توجہ ہٹا دی جائے امریکی غلامی کے منصوبوں کو مزید وسعت دی جائے اور
پاکستانیوں کے خون کا سوا کیا جائے۔ |