اسلام دشمن حسینہ واجد جمہوریت کے لئے بھی خطرناک!

اقتدار کی ہوس جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان کو نہ صرف عقل و ہوش سے محروم کردیتی ہے بلکہ اخلاق و اقدار اور اصولوں کی پابندی بھی بھلاد یتی ہے۔ ایسا ہی حال آج کل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کا ہے۔ حسینہ واجد کا شمار شروع ہی سے جدید و ترقی پسند نظریات کے علم بردار کہلانے کے شوق میں مذہب سے بیزاری اور اسلام سے دوری پر مجبوری ہوجانے والوں میں ہوتا ہے لیکن اب وہ اسلام سے دوری کے ساتھ اسلام سے دشمنی پر اتر آئی ہیں اور اس دیوانگی کی راہ پر وہ بہت دور تک جاچکی ہیں۔ حسینہ واجد نے برسراقتدار رہنے کے شوق میں جمہوری اصولوں اور روایات کو پامال کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر مظالم کررہی ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو وہ مصر کے ’’فرعون وقت‘‘ جنرل السیسی کی طرح تباہ کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کرنا چاہتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کی فہرست (بلالحاظ عمر) طویل ہوگئی ہے۔ بنگلہ دیش کا الیکشن کمیشن بھی بنگلہ دیشی عدالتوں کی طرح حکومت کا تابع فرمان ہے چنانچہ تمام قواعط و ضوابط اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جماعت اسلامی پرپابندی لگاکر اپنی ایک اہم، طاقتور اور خطرناک حریف کو غیرقانونی، غیر اخلاقی طریقوں سے انہوں نے انتخابی معرکوں سے ہٹادیا ہے۔ ایک ہی مقدمہ بغاوت میں حسینہ واجد کی زیر اثر ایک عدالت نے (152) افراد کو سزائے موت سنائی اور اسی مقدمہ میں (160) افراد کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے (3تا10) سال سزا پانے والوں کی تعداد (251) ہے جبکہ (271) افراد کو رہا کردیاگیا۔ واضح ہو کہ ملزمین کی تعداد کے اعتبار سے (ملزموں کی تعداد820) غالباً دنیا کا اور عہد حاضر کا سب سے بڑا فوجداری مقدمہ ہے۔ یہ ظالمانہ حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔ اسی مقدمہ میں ماخوذ مجرمین وہی ہیں جنہوں نے 2009ء میں فوجی بغٓوت کی تھی ۔ اس بغاوت میں 74 افراد (بہ شمول اعلیٰ فوجی افسران) مارے گئے تھے۔ کسی بغاوت کی ناکامی کے بعد اتنے زیادہ افراد پر مقدمہ چلانے اور سزا ئیں دینے کی مثال شائد ہی کہیں اور مل سکے گی۔ یہ تو تھا صرف ایک مقدمہ کا حال ورنہ یہ بات عام طور پر مانی جارہی ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالتیں حکومت کی فرماں بردار ہوگئی ہیں اور ان کے فیصلے حکومت کے احکام کے مطابق صادر کئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے قائدین کو پاکستانی افواج کاساتھ دینے کے الزام میں جنگی مجرمین بناکر جنگی ٹریبونلس کے ہاتھوں موت یا عمر قید کی سزائیں دی جارہی ہیں۔ جب ہی جماعت کے ایک (90) سالہ ضعیف قائد غلام اعظم صاحب کو (90) سال قید کی سزا دی گئی ہے اور جماعت اسلامی، خالد ضیاء کی جماعت اور دیگر اسلام پسند اور مخالف حسینہ جماعتوں کا کوئی ملزم بچ نہیں پارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ نوی پلے جو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فوجی عدالت کی بھی جج ہیں (160) افراد کو سزائے موت دینے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی جیلوں میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیدیوں سے کیا جانے والا غیر انسانی سلوک کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

حسینہ واجد کی عوامی لیگ 2008ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ حزب مخالف اور روایتی حریف خالدہ ضیاء اور ان کی حلیف اسلام پسند جماعتیں کمزور بلکہ بے اثر ہوگئی تھیں۔ اس موقف کا مثبت انداز میں استعمال کرکے بنگلہ دیش کی ترقی و خوش حالی اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی جگہ حکومت نے مغربی آقاؤں اور ہندوستان کو خوش کرنے کے لئے ملک کے دستور سے اسلامیت خارج کرکے اسے سیکولر بنانے کے کام بڑی عیاری سے شروع کئے۔ اسلام دشمن بلا گزر کی پشت پناہی اور ہمت افزائی ہوئی۔ حزب مخالف کو کچلنے کے اقدامات کئے جانے لگے۔

1971ء کی بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ دینے والوں کو حسینہ واجد نے ’’جنگی جرائم‘‘ کا مجرم قرار دیا جانے لگا جبکہ بنگلہ دیش کے قیام سے لے کر تقریباً(40) سال میں (13) حکومتیں برسراقتدار آئیں(خود حسینہ واجد بھی قبل ازیں برسراقتدار رہی ہیں، لیکن کسی حکومت نے اس تعلق سے کوئی اقدام تو دور رہا غور تک بھی نہیں کیا لیکن حسینہ واجد نے سابق مشرقی پاکستان میں حکومت کی تائید کرنے کے ’’جرم بے گناہی‘‘ یا شیخ مجیب الرحمن کی مخالفت کا انتقام لینے مقدمات چلانے کے لئے جنگی جرائم کے ٹریبونلس قائم کئے گئے۔ اصل نشانہ جماعت اسلامی ہے (جو کسی بھی پارٹی کو کامیاب کرواسکتی ہے) جس کا تنظیمی نظام مضبوط اور منظم ہے جو اسلامی شریعت پر مبنی نظام کے نفاذ کی حامی ہے۔

وہ قائدین جو 1971ء کے آس پاس سرگرم عمل تھے وہ سب اب خاصے ضعیف ہوچکے ہیں ان سب کو ملزم بنادیا گیا۔ ٹریبونلس نے ان کو پابند سلاسل ہی نہیں موت کی سزائیں بھی دی ہیں ۔ جماعت اسلامی اور اس کے عہدیداروں، کارکنوں اور ہمدردوں پر ظلم و جبر کے سارے حربے آزمانے کے بعد جی نہیں بھرا تو جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ (عدالت العالیہ) نے جماعت اسلامی کے رجسٹریشن کو ہی غیر قانونی قرار دیا تھا کیونکہ جماعت کی اسلامیت ملک کے دستور (سیکولر) اور قواعد (غیر شرعی) سے میل نہیں کھاتی ہے۔ اب جبکہ 25؍جنوری 2014ء کو انتخابات ہونے ہیں اگر ملک کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی جانب سے عدالت العالیہ کے حکم التوا جاری نہیں ہو تا ہے تو حسینہ واجد کا بڑا فائدہ ہوگا (یوں بھی بنگلہ دیش کی عدلیہ کون سی آزاد ہے؟ جو عدالت عظمیٰ سے عدل و انصاف کی امید لوگ کریں ؟

جماعت اسلامی گزشتہ 6-5سال میں سے سرکاری جبر و قہر کی شکار ہے اس کے ہزاروں کارکن جیلوں میں انسانیت سوز مظالم کا شکار ہیں ایک خبر کے مطابق جماعت والے 16 تا18ہزار مقدمات میں ماخوذ ہیں۔

بنگلہ دیش میں انتخابات نگران کار حکومت کرواتی تھی۔ عدالتوں کو اپنا تابع رکھنے والی حسینہ واجد نے نگران کار حکومت کے قیام ہی کو سپریم کورٹ سے غیر دستوری قرار دلوادیا ہے۔ خالدہ ضیاء نگران کار حکومت کے قیام اور اس کی نگرانی میں انتخابات کروانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ حسینہ واجد خو د برسر اقتدار رہتے ہوئے انتخابات کرواکے دھاندلیوں سے انتخابات جیتنا چاہتی ہیں۔ اسی پر فی الحال ہنگامے، تشدد، ہڑتال اور بند کا زور ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عدالتی فیصلوں (جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں) اور جماعت اسلامی پر پابند پر بھی احتجاج ہورہا ہے۔ ان حالات میں امن و امان قائم رہے اور پرامن حالات میں صاف و شفاف انتخابات کا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کا حامی اور موئید ان کے دور کے بتر معاشی حالات کی وجہ سے ہے حالانکہ خالدہ ضیاء اور جماعت کی اسلامیت امریکہ کی مخالف اسلام حکمت عملی سے میل نہیں کھاتی ہے تاہم امریکہ اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے ملک کو معاشی طور پر مستحکم رکھنے والی حکومتوں کو پسند کرتا ہے کیونکہ امریکہ کا اثر پرسکون حالات میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی پسند حسینہ واجد ہیں۔ ہندوستان کو خالدہ ضیاء کی اسلامیت سے خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی کی وجہ سے انتہاء پسندی کو فروغ ہوگا اور بنگلہ دیش اس طرح دہشت گردی کا مرکز بن جائے گا۔ یہ تو مفروضہ ہے اصل بات یہ ہے کہ ایوان اقتدار میں کچھ مقتدر ہستیاں ضرور ایسی ہیں جو بہر حال اسلام پسندوں کو ناپسند کرتی ہیں ان کے پسندیدہ افراد میں سلمان رشدی، ملالہ زئی، تسلیمہ نسرین اور حسینہ واجد اور جنرل السیسی جیسے لوگ ہیں ورنہ امریکہ کی مرضی سے مطابقت نہ رکھنا ہماری حکومت کی امریکہ نوازی سے بعید ضرور ہے لیکن دہشت گردی کا ڈر اور خطرہ بڑھا چڑھاکر پیش کرنا اپنی بات منوانے کا آسان نسخہ ہے۔

حسینہ واجد کا دور حکومت ہمیشہ ہی متنازعہ سیاسی مسائل کا شکار رہا اور اس کی وجہ سے ملک میں انتشار، بدامنی پھیلی رہی۔ ملک کو سیکولر بنانے کے اقدامات کئے گئے۔ (40) سال پرانے گڑے مردے اکھاڑ کر جنگی جرائم کے مفروضہ الزامات اور مقدمات میں سخت سے سخت سزائیں دی گئیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے فیصلے عدلیہ کے ذریعہ عوام پر مسلط کئے۔ ٹریبونل کے زیادہ تر فیصلے عدل و انصاف کے نام پر داغ ہیں اور حکومت بلکہ حسینہ واجد کے انتقام اور ظالمانہ رویہ کے آئینہ دار ہیں۔

دنیا بھر میں حزب اقتدار حزب اختلاف کو کمزور اور بے اثر کرنے کی فکر میں رہتا ہے لیکن حسینہ واجد نے یہ انوکھی مثال قائم کی ہے کہ محترمہ نے عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اپنے طاقتور حریف کو انتخابات میں ہی حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کو غیر قانونی بتاکر اس پر پابند ی لگانے کے لئے عام طور پر انتظامیہ سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ عدالیہ کا استعمال شائد ہی کہیں (جمہوری ملک میں) سناگیا ہو لیکن حسینہ واجد نے یہ بھی کر گذریں۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ زرخرید ججوں سے اپنے حق میں فیصلے کروانے والوں کو عوام اپنی عدالت میں سخت سزا دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان عوامی لیگ اور حسینہ واجد کی مذہب بیزاری، سیکولرازم، مظالم اور کرپشن سے اس قدر نالاں ہیں کہ وہ حسینہ واجد کو مسترد کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کریں گے۔ نیز اگر حسینہ واجد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر حزب اختلاف کو انتخابات کا مقاطعہ کرنے پر مجبور کرکے ملک میں جمہوریت کو ہی خطروں سے دوچار کررہی ہیں۔ تمام اسلام دشمنوں کی طرح سینہ واجد کا مزاج ہی ’’آمرانہ اور غیر جمہوری ‘‘ ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.