ہمیں اندازہ نہیں لیکن ہم بارود
کے ڈھیر پہ بیٹھے ہیں۔ہمارا نکما اور نالائق بلایا جانے والا میڈیا اگر
ہمارے حال پہ رحم نہ کرتا تو اب تک نجانے کتنے گھر جل چکے ہوتے۔کتنے
کاروبار تباہ ہو چکے ہوتے۔کتنی ماؤں کی گود اجڑ گئی ہوتی اور کتنے ہی بچے
یتیم ہو گئے ہوتے۔اپنی ابتداء سے اب تک پہلی بار الیکٹرانک میڈیا نے
پاکستانی بن کے سوچا اور ملک کے کروڑوں لوگوں کو ایک بڑی مصیبت سے بچا
لیا۔اس کے باوجود جب شام کو خبر نکلی تو ہماری نفرت ،ہمارا تعصب اور فرقہ
پرستی پھٹ کے باہر آ گئی اور مسجدوں اور امام بارگاہوں پہ حملے ہونے
لگے۔فوج محرم کی ڈیوٹی کیلئے پہلے ہی شہروں کے قریب تھی۔اس لئے فسادات پہ
قابو پانے میں دیر نہیں لگی۔حکومت ضرور اپنا کردار ادا کر رہی ہو گی لیکن
اس کی جانب سے عوامی سطح پہ جس پیمانے پہ دلجوئی کی امید کی جا رہی تھی وہ
خال ہی نظر آئی۔
وہ تو چوہدری نثار کا دم غنیمت ہے ورنہ تو حکومت اور شریف خاندان" من تو
شدم تو من شدی "کی کیفیت اختیار کر گئے ہیں۔مرکز میں حکومت نواز شریف اور
پنجاب میں شہباز شریف۔اب دو آدمی چھلاوہ تو ہیں نہیں کہ ہر جگہ موجود
ہوں۔رہے رانا ثناء اﷲ تو ان سے کسی بھلے کی یا مرہم رکھنے کی توقع کرنا چیل
کے گھونسلے میں ماس تلاشنے ہی کے مترادف ہے۔چوہدری نثار نے بھی اب کی بار
کمال کیا۔جب قوم ان سے اس حادثے بارے جاننے کی منتظر تھی۔انہوں نے اصل
مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے انتظامیہ کا وہی گھسا پٹا طریقہ استعمال کیا کہ
ایک مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے اس سے بھی بڑا مسئلہ کھڑا کر دو۔مشرف کے
تقرر کی سفارش بھی چوہدری نثار ہی نے کی تھی اور اب مشرف کو انتہاء تک
پہچانے کی ذمہ داری بھی انہوں نے ہی اٹھائی ہے۔ خداخیر کرے۔
ذکر تھا حکومت کا،اس کی نا اہلی کا۔آگ لگی ہو تو پہلے آگ بجھاتے ہیں اور
سیاپہ بعد میں کرتے ہیں۔اخبار یہ کہتے ہیں کہ ابھی تک کوئی حکومتی کیا حزب
اختلاف کا کوئی نمائندہ بھی اس جگہ نہیں آیا جہاں آگ لگی تھی۔ جہاں گولیاں
چلی تھیں جہاں لاشیں گری تھیں اور جہاں مسجد اور اس سے ملحقہ مدینہ مارکیٹ
کو ٓگ لگائی گئی تھی۔اسی طرح جن امام بارگاہوں کو نقصان پہنچا وہاں بھی کسی
کو جانا چاہئیے تھا۔ یہ مانا کہ شریف خاندان کی جانوں کو ان کے پرانے
دوستوں سے سخت خطرہ ہے لیکن شریف خاندان کا کوئی بھروسہ مند ہی جا کے ان کی
طرف سے اپنے دکھ کا اظہار کر دیتا۔پنجاب ہاؤس کے اجلاس بھلے ہی بہت اہم ہیں
اور فیصلے ایسی ہی جگہ پہ بیٹھ کے کئے جا سکتے ہیں لیکن عوام کی اچک شوئی
بھی ضروری ہے۔ عوام مصیبت کی گھڑیوں میں اپنے حکمرانوں کو اپنے شانہ بشانہ
دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک اور آفت ہے۔ دشمن تو ہوتا ہی دشمن ہے۔اس طرح کے مواقع کی
تاک میں لیکن وہ جو اپنے ہیں اور کم علمی نفرت تعصب یا نفرت کی بنیاد پہ
افواہوں کی آبیاری کرتے ہیں۔انہیں بھی روکنا بہت ضروری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے
کہ مجرموں کو خواہ وہ دس روپے کا انڈہ اٹھائیس روپے میں بیچنے والے ہوں یا
سوشل میڈیا پہ اپنی نفرت اور تعصب کی چھابڑی لگانے والے حکومت کا ہاتھ ان
کے گریبان تک پہنچے تا کہ یہ تائثر ختم ہو کہ ہمیں روکنے والا کوئی
نہیں۔کرفیو کے دوران ان مسلمانوں نے اپنے ہی بھائی بندوں کو دونوں ہاتھوں
نہیں بلکہ دونوں پاؤں سے بھی لوٹا۔کیا یہی اسلام ہے کیا ہمارا دین ہمیں یہی
تلقین کرتا ہے۔کیا یہی مسلمانی ہے۔جب مادر پدر آزادی ہو تو اس کے علاوہ
توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ کرفیو میں نرمی کے
دوران اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنر ایک نرخنامہ بھی جاری کرتے کہ اس سے اوپر ایک
پائی وصول کرنے والے کو حوالات کی ہوا کھانا پڑے گی۔ایک دو اس جرم میں بند
کر دئیے جاتے تو سالوں اس طرح کی گرانی کی کوئی اطلاع نہ آتی۔ہمارے ہاں سزا
و جزا کا نظام ہی نہیں۔معاشرہ اسی لئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ جنگل کا
قانون ہے۔جس کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہے وہ کسی اصول اور قانون کو
خاظر میں نہیں لاتا۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کتنے لوگ اس حادثے میں مارے گئے۔حکومت ان کی
تعداد بارہ بتاتی ہے لیکن سوشل اور پرنٹ میڈیا اسکو ساٹھ ستر اور سو تک لکھ
اور بتا رہا ہے۔ مدرسہ تعلیم القرآن کے نائب مہتمم نے بھی نیشنل پریس کلب
میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بجائے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے یہ کہہ کے
اسے بڑھا دیا ہے کہ مدرسہ میں چھ سوطلباء پڑھتے ہیں۔ان میں سے اکثریت کاپتہ
نہیں چل رہا۔ ہم والدین سے رابطے کر رہے ہیں۔اس طرح کے بیانات پریشانی
بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز کو سلام
پیش کرنے کو ایک بار پھر دل چاہ رہا ہے کہ انہوں نے اس سانحے پہ بہت ذمہ
دارانہ رپورٹنگ کی۔لاشیں دکھائی جا سکتی تھیں۔جلی ہوئی مسجد اور مارکیٹ بھی
ان کے اخبار اور چینل کے لئے بہت منافع بخش سودا بن سکتی تھی لیکن اب کی
بار انہوں نے اپنے مالکوں کا نہیں ملک کا بھلا سوچا۔ مالکان کا بھی شکریہ
کہ انہوں نے بھی وطن کی خاطر قربانی دی۔
علمائے کرام کا بھی شکریہ کہ وہ وقت پہ سامنے آئے۔انہوں نے لوگوں کے بھڑکے
ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد کی۔ اس وقت حکومت اس مسئلے کو سلجھانے کی
اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں اس نازک گھڑی میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے
چاہیئں۔ملک ہے تو حکومت بھی ہے اور سیاست بھی۔پولیس کے ان جوانوں کی عظمت
کو بھی سلام جنہوں نے اپنی جانوں پہ کھیل کے فساد ہونے سے روکا۔کچھ گندے
انڈوں کی وجہ سے ساری پولیس فورس کو مطعون کرنا مناسب نہیں اور شکریہ پاک
فوج کا بھی جنہوں نے شاندار طریقے سے اس آگ کو مزید بڑھنے سے روکا۔
دشمن کا تو کام ہی یہ ہے کہ آگ لگائے۔گھر والوں کو اس کا آلہ کار ہرگز نہ
بننا چاہیے کہ جو بھی مرے گا وہ مسلمان ہو گا وہ پاکستانی ہو گا۔کیا ہم
پسند کریں گے کہ کچھ اور ماؤں کی گود اجڑ جائے۔کچھ اور بچے یتیم ہو جائیں۔
انصاف کے لئے قائم کمیشن سے بھی درخواست ہے کہ انصاف وہی جو نظر آئے اور
انصاف میں تاخیر انصاف کو اس کے مقام سے گرا دیتی ہے۔ |