جبری ناطے توڑ دو

یوں تومملکت کے دستور اساسی کی تبدیلی ،ایک حکمراں طبقہ کی جگہ دوسرے طبقہ کی حکومت کا قیام ،بادشاہت کے تبدیل ہونے سمیت کسی ایک ادارے کے جملہ قوائد و ضوابط کی تبدیلی جیسے عمل کو انقلاب ضرورکہا جا تاہے لیکن حقیقی معنوں میں انقلاب کی دو اہم ترین اقسام ہیں ۔۔۔مکمل انقلاب اور نامکمل انقلاب ۔
کسی ریاست کے سیاسی و معاشی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کردیا جائے اور باقی تمام اداروں کو حسب سابق برقرار رکھا جائے تو یہ نا مکمل انقلاب کہلائے گا ۔جب کہ کسی ریاست کے عمومی سماجی و سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے کے یکسر تبدیل کئے جانے ، جس میں معاشرتی زندگی کے تمام شعبہ جات اور اس کے پس پشت کار فرما بنیادی اصول ،سیاسی اداروں کی ہیت معاشی و تعلیمی نظام سمیت طرز حکمرانی و حکمراں طبقہ تک کو تبدیل کر دینے کے عمل کو مکمل انقلاب کہہ سکتے ہیں ۔اس ضمن میں ۱۹۱۷ کے روسی انقلاب کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔

مکمل انقلاب کبھی تو پرامن ہوتے ہیں ۔۔۔اورکبھی خونی انقلاب کی صورت میں برپا ہوتے ہیں ۔۔۔پر امن انقلاب تبھی ممکن ہے جب ریاست کی اسی فیصد سے زائد آبادی اس تبدیلی کے لئے آمادہ ہو،ا ور مروجہ آئین کے مطابق ایک نئی جماعت انتخابات کے مراحل سے گزر کر ایوان اقتدار میں پہنچے اور وہ ریاست کے بنیادی آئین کو مکمل طور پر تبدیل کر کے ریاست کے سماجی و سیاسی ڈھانچے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے ، عدم مساوات ،معاشی ناہمواریوں ،سیاسی جانب داریوں،اور نا انصافیوں کا خاتمہ کر کے ایک جدید معاشرے کی بنیاد رکھے تو اسے پر امن انقلاب کہیں گے اور اگر ریاست کے پچاس فیصد لوگ تبدیلی جب کہ باقی ماندہ اسی فرسودہ نظام کے متمنی ہوں تو اس صورت میں تبدیلی کی جانب پیش قدمی کرنے والوں کو مذمت کا سامنا رہتا ہے اور اگر وہ اس مذمت کو پامال کر تے ہوئے ریاست کو نئی سمت دینے میں کامیاب ہو جائیں تو اسے یقینا خونی انقلاب کہا جاتا ہے جیسے فرانس میں ہوا تھا۔

ہمارے دیس میں انقلابیوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔جس کا پولیس پٹواری سے یارانہ ہے یا ایم ایل اے سے قربت۔۔۔ وہ انقلابی ہے۔اور جو دھوکہ دہی اور فریب میں استاد ۔۔۔ یا ’’ون ٹو کا فور‘‘ کرنے میں ماہر ۔۔۔وہ بھی انقلابی ہے۔کچھ تو سٹیج کے کھلاڑی اور شعلہ بیاں۔۔۔ اور کچھ ۔۔۔بس نام کے انقلابی ہیں ۔

ریاست جموں کشمیر جو تین حصوں میں تقسیم ہے ،جہاں مختلف الخیال نظام ہائے حکومت،سیاست و معاشرت نافذالعمل ہیں جو ریاستی عوام کے تخلیق کردہ نہیں بلکہ باہر سے درآمد شدہ ہیں جن کے نفاذ کے لئے یہاں دو ممالک کی مسلح افواج تعینات ہیں۔ان حالات میں اگر دیس کے کسی ایک حصے میں تبدیلی کیلئے میدان عمل سجانا مقصود ہو تو لازم ہے کہ پہلے وہاں نافذالعمل نظام کے محافظ اور پشتی بان کی سرکوبی کر کے انہیں باہر کا راستہ دکھایا جائے ۔جس کے لئے ایک طویل جد و جہد کی ضرورت ہے ،یہ بھی حقیقت ہے کہ جب آپ کے قدم کسی ممکنہ کامیابی کی جانب بڑھنے لگیں ،تو ریاست کے باقی ماندہ حصوں میں موجود غاصب اسے اپنے تئیں خطرہ سمجھتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ سر زمین ان کے ہاتھ سے ریت کی طرح نکلتی جا رہی ہے ۔ـ‘تواس طوفان کو روکنے کے لئے اتحاد کر لیں گے، ایک دوسرے کو پسندیدہ قوم قرار دینے لگیں گے ،دوستی کے نغمے گونجنے لگیں گے،اور اگر!ان مصائب وآلام سے گزرتے انقلاب برپا ہو بھی گیا تو اسے مکمل انقلاب نہیں کہا جا سکے گا۔۔۔کیوں ؟اس لئے کہ یہ تبدیلی ریاست کے کسی ایک حصے تک محدود ہو گی پورے دیس میں نہیں ۔

دنیا میں آنے والے چند معروف انقلاب وہ رہے جو ایک ریاست کی حدود کے اندرتھے ۔جہاں انقلابیوں کو اگر مسلح افواج سے تصادم کا سامنا ہوا تو مد مقابل ہموطن افواج رہی ہے،جب کہ یہاں لائے جانیوالے انقلاب کی راہ میں حائل پہلی دیوار ’’دو غیر ملکی مسلح افواج ‘‘ ہیں ۔جن کی موجودگی میں کسی بھی انقلاب کا خواب دیکھنا بذات خودبڑی ہمت و جرات کا غماز ہے۔ان حالات میں مکمل انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ریاست میں موجوددس لاکھ سے زائد غیر ملکی مسلح افواج کیخلاف ایک طویل ترین گوریلہ وار برپا کی جائے۔ جس کے نتیجہ میں یہ ریاست ان ممالک کے لئے قطعی طور پر ایک غیر منافع بخش اور’’ نقصان دہ پروڈکٹ‘‘ بن جائے جو ان کی معیشت کیلئے ایک بوجھ ثابت ہونے لگے ۔تبھی یہ اپنی فورسز کو یہاں سے نکالنے پر آمادہ ہوں گے ۔۔۔جیسے امریکن افواج نے ویتنام سے پسپائی اختیار کی تھی جیسے روسی افواج نے افغانستان کو خیر باد کہا ’’جیسے نیٹو فورسز ‘‘آج مجبوراً اپنا قبضہ چھوڑ کر جانے والی ہیں ۔اس صورت میں آنے والا انقلاب یقینا مکمل اور خونی انقلاب کہلائے گا۔

حال ہی میں کئی عالمی اداروں کی سروے رپورٹس میں کہا گیاہے کہ ریاست کے 85%لوگ آزادی’’انقلاب‘‘ کے خواہاں ہیں لیکن اس انقلاب کے آثار نظر نہیں آتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ پولیس پٹواری ،کھمبے ٹیوٹی اور تھانیدار دوست نام نہاد انقلابیوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں ،یعنی انقلاب کے لئے آمادہ ہیں۔البتہ انہیں ایک حقیقی انقلابی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں ، وہ انقلابی جو اپنی قوم کو اعتماد دے۔۔۔ پھر ’’آواز‘‘دے ۔۔۔پکارے۔۔۔کہ ۔’میرے ہموطنو ! باہر آؤ کہ یہ وقت تمیں دوبارہ نہ ملے گا۔۔۔آؤ اپنے آپ کو ،اپنی نسلوں کے مستقبل کو ،اپنے تشخص کوبچانے نکلو۔۔۔آؤ اپنے پارہ پارہ دیس کی وحدت کو بحال کرنے نکلو ،اور نکلو پھر وہ انقلابی ریاست کے طول و عرض سے۔۔۔اس پار سے ۔۔۔اس پار سے ۔۔۔ کم از کم پانچ لاکھ لوگ ریاست کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر ’’لائن آف کنٹرول‘‘ پر لا کھڑا کردے گا ۔۔۔یہ لوگ سروں پہ کفن باندھ کر آئیں گے ۔۔۔اس عزم کے ساتھ کہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔۔۔آزادی یا شہادت۔۔۔اور جب چیسٹھ سال سے دیس کے سینے پہ کھنچی اس خونی لکیر پر پانچ لاکھ کشمیری یک زبان ہو کر یہ نعرہ بلند کریں گے کہ ! ’’جبری ناطے توڑ دو ،کشمیر ہمارا چھوڑ دو ‘‘تو پھر یہ آوازدبانے کے لئے دس لاکھ مسلح افواج کم پڑھ جائے گی ۔بے بس ہو جائے گی ۔اس وقت انسانوں کے اس طوفانی ریلے کے سامنے ناں تو کو ئی کانٹے دار باڑ ٹھہرپائے گی ناں کوئی نام نہاد ’’دیوار برلن ‘‘اس کا راستہ روک سکے گی ۔۔۔ یقینا۔۔۔وہ آواز دنیا کے در و دیوار ہلا کے رکھ دے گی۔۔۔یہ ہم کشمیریوں کا ایک ایسا تاریخی ریفرنڈم ہو گا جس کے بعد کسی اقوام متحدہ کی قراردادوں ۔۔۔یا رائے شماری کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔نہ کسی منافق وکیل کی ۔۔۔نہ شہ رگ نہ اٹوٹ انگ رہے گا ۔۔۔نہ 74رہے گا نہ 370باقی بچے گا، غاصب قوتوں کو مجبوراً یہ دیس چھوڑنا پڑھے گا ۔اور بکھری وحدت ایک بار پھر متحد ہو جائے گی ۔کشمیرآزاد و خود مختار ہو گا ۔۔۔ہاں مقبول بٹ کا کشمیر۔۔۔جہاں اپنی پارلیمنٹ دیس کا نیا آئین تشکیل دے گی ۔اور ایک نیا سیاسی نظام ہو گا ۔۔۔نئے سماج کی بنیاد رکھی جائے گی اور ایک خوشحال معاشرہ وجود میں آئے گا اور اسے ہم مکمل پر امن انقلاب کہہ سکیں گے۔انشا ء اﷲ ۔۔۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.