ہندوستان میں کوئی بھی فیصلہ
بغیر سیاسی مفاد کے نہیں ہوتا ۔جتنی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا جاتا ہے اس
سے پہلے ووٹ بینک کا حساب کتاب لگالیا جاتا ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیاں ووٹ
بینک اورخصوصاَ الیکشن سے عین قبل ان چیزوں کا خاص طور پر دھیان رکھتی ہیں۔
سوائے مسلمانوں اور مسلم علاقوں کے جہاں ان پارٹیوں (سیکولر پارٹیوں) کا
تصور ہے’ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے تو جائیں گے کہاں ‘اوریہ تلخ حقیقت بھی ہے
کہ ہندوستانی نظام سیاست نے مسلمانوں کو ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں ان
کے پاس صرف اور صرف آگے کنواں پیچھے کھائی کے علاوہ کوئی متبادل نہیں
ہے۔کانگریس کے ہاتھوں مریں، سماج وادی پاٹی کے ہاتھوں قتل ہوںیا بی جے پی
کے ہاتھوں قتل عام، ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت صرف کدو کی ہے ، چھری
اوپر سے گرتی یا نیچھے ہوتی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو
قوم جتنی بیدار اور لٹھ مار ہے انہیں اتنی ہی سہولت حاصل ہے، جس کے پاس
لاٹھی نہیں یا وہ متحد نہیں ہے اس کا انجام ہندوستان میں مسلمانوں جیسا
ہوتا ہے۔ تفریق، امتیاز، بھید بھاؤ ان کا مقدر ہوتا ہے۔ تازہ مثال پٹنہ بم
دھماکہ کی ہے جہاں پہلے ایک پنکج پکڑا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی خبر نہیں
ہوتی اور پولیس بھی اسے خاموشی سے چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد کئی دیگر ہندو
وجے کمار گوئل ، پون کمار، وکاس کمار اور گنیش پرسادکو فنڈنگ کے معاملے میں
گرفتار کیا جاتا ہے لیکن میڈیا، سیاست دانوں، مفکروں، مدبروں،گاڑیوں اورچوک
چوراہوں میں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ بہار پولیس اور قومی تفتیشی ایجنسی (این
آئی اے) کی مکمل کوشش ہے کہ اسے بری کردیا جائے یاکم از کم دہشت گردی کا
داغ ان لوگوں سے ہٹا دیا جائے ۔ جس طرح کی خبریں آرہی ہیں اس سے یہی اندازہ
لگایا جاسکتا ہے۔یہی رویہ مسلمانوں کو سوچنے مجبور کرتا ہے کہ یہاں کی خفیہ
ایجنسی بم دھماکے معاملے میں جان بوجھ مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے کے
لئے گرفتار کرتی ہے جب کہ دھماکے کاذمہ دار کوئی اور ہوتا ہے۔ سیاست دانوں
کی ان خفیہ ایجنسیوں کو مکمل سرپرستی ہوتی ہے ۔وہ ہر حال میں مسلمانوں کو
برباد کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز، گھر
خریدنے کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور ابھی حال ہی ممبئی ایک
رےئل اسٹیٹ سے وابستہ ویب سائٹ پر اشتہار جس میں مسلمانوں کو زحمت نہ کرنے
کے لئے کہا گیا تھا۔ عملاَ پورے ہندوستان میں یہ ہورہا ہے۔اس کے باوجود
سیکولر اسٹیٹ اور عدم امتیاز کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔سیاسی موقع پرستی یہاں
ہر پارٹی کی شرشت میں شامل ہے ۔ ان کا کوئی بھی فیصلہ سیاسی مفاد کی تکمیل
کے بغیر نہیں ہوتا۔ سچن تندولکر کو بھارت رتن کا انعام دیا جانا اسی سیاسی
موقع پرستی کی بدترین مثا ل ہے۔
ہندوستانی سیاست کا یہ سب سے گھٹیا پہلو ہے جسے آج کے سیاست داں کھیل رہے
ہیں انہیں صرف اپنی پارٹی دکھائی دیتے ہیں ہندوستان کا وقار نہیں ۔ یہ ایسی
جماعتیں ہیں جو کسی بھی طرح اقتدار کی منزل تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ اس کے لئے
خواہ ضابطہ میں تبدیلی کرنی پڑے،کسی کا حق مارنا پڑے وہ اس طرح کے تمام
مراحل سے گزرتی ہیں۔سچن تندولکر ضرورت سے زیادہ ہندوستان سے مل چکا ہے۔ سچن
کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دینے کے لئے باقاعدہ بھارت رتن کے قوانین میں
تبدیلی کی گئی تھی۔ 2011 میں ہندوستان کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سچن کو یہ
اعزاز دینے کا مطالبہ نے زور پکڑا تو مرکزی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کی
سفارش کی ہے اور اسے بعد میں مان لیا گیا ۔اس سے پہلے بھارت رتن فن، ادب،
سائنس اور سماجی خدمت کے شعبے میں بہترین شراکت کے لئے ہی دیا جاتا رہا ہے۔
سچن کو سال 2008 میں دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز پد م بھوش سے بھی نوازا
گیا تھا تب بھی سچن ملک کے پہلے کھلاڑی بنے تھے ۔ اس سے قبل سچن کو ملک کے
سب سے اعلی کھیل اعزاز 1994 میں ارجن ایوارڈ ، 1998 میں راجیو گاندھی کھیل
رتن سے بھی نوازا جا چکا ہے 1999 میں پدم شری اعزاز دیا گیا ۔ٹیسٹ کرکٹ میں
ان کا سب سے زیادہ اسکور 248 رن کا تھا، جو انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف
ڈھاکہ میں بنائے تھے ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے 51 سنچری اور 68 نصف سنچری
بنائے ہیں اسی طرح ایک روزہ کرکٹ میں انہوں نے کل 463 میچ کھیلے ہیں ون ڈے
کی 452 اننگز میں 88ء44 کی اوسط سے 18426 رنز بنائے ہیں اس میں 49 سنچری
اور 96 نصف سنچری شامل ہیں ۔سچن تندولکر نے 24 سال کے طویل کرکٹ کیریئر میں
34 ہزار سے زائد رن بنائے ہیں اس ریکارڈ ساز سفر میں سچن نے ٹیسٹ اور ون ڈے
دونوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اس کے علاوہ اعلی شہری اعزاز بھارت رتن نامور سائنسی سی این آر راؤ کو دیا
گیا ہے۔ سچن کو یہ اعزاز جہاں 40 سال کی عمر میں مل رہا ہے ، وہیں مسٹر راؤ
کو عمر 79 سال میں دیا جارہا ہے۔ کیمسٹری کی گہری معلومات رکھنے والے راؤ
فی الحال بنگلور میں واقع جواہر لال نہرو سینٹر فار ایڈوانس سائنٹیفک ریسرچ
سے وابستہ ہیں۔انہیں اس سے پہلے پدم وبھوشن سے نوازا جا چکا ہے جو ہندوستان
کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔پروفیسر چنتامنی ناگیش رام چندر راؤ ،
مشہور سائنس داں سی وی رمن اور سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے بعد تیسرے
سائنس داں ہیں جنہیں بھارت رتن دیاجائے گا۔دنیا بھر کی اہم سائنسی ادارے،
کیمسٹری کے میدان میں ان کا لوہا مانتے ہیں وہ دنیا کے ان منتخب سائنسدانوں
میں سے ایک ہیں جو تمام اہم سائنسی تحقیق کے اداروں کے رکن ہیں۔گزشتہ پانچ
دہائیوں میں راؤ سولڈ اسٹیٹ اور مٹیریل کیمسٹری پر 45 کتابیں لکھ چکے ہیں
اور انہی موضوعات پر ان کے 1400 سے زیادہ تحقیقی مقالے شائع ہوچکے
ہیں۔سائنس کے میدان میں ہندوستان کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرنے
والے راؤ، وزیر اعظم اندرا گاندھی کی سائنسی مشیر کونسل کے بھی رکن تھے۔اس
کے بعد انہوں نے وزیر اعظم راجیو گاندھی، ایچ ڈی دیوے گوڑا ، اور آئی کے
گجرال کی مدت میں کونسل کے صدر کے عہدے کو رونق بخشی ۔امریکہ سے اپنی
ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد راؤ نے کیلی فورنیا اور برکلے یونیورسٹی میں
ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کام کیا اور سال 1959 میں ہندوستان لوٹ کر
بنگلور میں واقع انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس میں کام کرنا شروع کیا۔اس کے بعد
وہ آئی آئی ٹی کانپور چلے گئے لیکن سال 1959 میں دوبارہ بنگلور آ گئے جہاں
انہوں نے مٹیریل سائنس سینٹر اور سولڈ اسٹیٹ کیمیکل یونٹ قائم کی تھی ان کی
اس پہل کو سائنسی دنیا میں اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔
بھارت رتن ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے اور جتنے لوگوں کو اب تک اس
سے سرفراز کیاگیا ہے وہ اپنے آپ میں معزز اور قابل احترام شخصیت کے مالک
ہیں اور تھے۔ ان کے ساتھ کوئی تنازع وابستہ نہیں ہے ان لوگوں کے ملک کے
تئیں بے لوث خدمات ہیں جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے گئے ہیں۔یہ ایوارڈ
ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو قوم کی خدمت سائنس ، تعلیم، اقتصادیات،
معاشیات کے میدان میں زبردست طریقے سے خدمات انجام دی ہوں۔2008میں بی جے پی
نے مسٹر اٹل بہاری واجپئی کو بھارت رتن دینے کا مطالبہ کیا تھا ۔ تندولکر
اور سی این آر راؤ کو بھارت رتن دینے کے اعلان کئے جانے کے بعد اب پھر بی
جے پی مسٹر واجپئی کو بھارت رتن دینے کا مطالبہ شروع کردیاہے۔غالباً ایسا
پہلی بار ہوا تھا جب اس معزز ایوارڈ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی
اور اس کی مانگ کرنے والوں کی لائن لگ گئی تھی بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ
اس اعلی شہری اعزاز کو مضحکہ خیز بنا نے کی بھرپور کوشش کی جارہی تھی۔ جہاں
مسٹر اڈوانی نے اٹل بہاری واجپئی کے لئے اس ایوارڈ کا مطالبہ کیا تھا وہیں
اترپردیش کی وزیر اعلی اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر محترمہ مایاوتی نے اپنے
سابق آنجہانی سربراہ کانشی رام کو ایہ یوارڈ دینے کا مطالبہ کر ڈالاتھا۔ اس
معاملے میں لوک دل کے صدر اجیت سنگھ کہاں خاموش بیٹھتے انہوں نے بھی اپنے
والد آنجہانی وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے لئے بھارت رتن کا مطالبہ کر
دیاتھا۔ اس کے بعد چودھری دیوی لال کے لئے ان کے بیٹے اوم پرکاش چوٹالہ اور
مرکزی وزیر کوئلہ رام ولاس پاسوان نے سماجی خدمات کے میدان میں جیوتی با
پھولے ، سیاسی خدمات میں جگجیون رام اور آرٹ و کلچر کے میدان میں محمدرفیع
کو اور سماج وادی پارٹی نے را م منوہر لوہیا کو بھارت رتن دینے کی مانگ کی
تھی اورگوہاٹی سماج وادی پارٹی اکائی نے اپنے سربراہ ملائم سنگھ یادو کو
بھارت رتن دینے کا بے تکا مطالبہ کر دیاتھا۔ سب کی اپنی اپنی دلیلیں اور
خدمات ہیں جن کا حوالہ دے کر اس ایواارڈکا مطالبہ کر رہے تھے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہندوستان میں درجنوں ایسی شخصیتیں ہیں جن
کو بھارت رتن دیا جانا چاہئے جن کی خدمات نہ ہوتیں تو شاید ہندوستان آزاد
نہ ہوتا۔ جیسا کہ گاندھی ساز رہنما مولانا محمد علی جوہر، علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں،شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا
حسین احمد مدنی اور ادارے کی بات کریں تو ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا
نام پہلے آئے گا جس نے سینکڑوں ایسے افراد تیار کئے جنہوں نے جنگ آزادی میں
اپنا سب کچھ لٹاکر ہندوستان کو آزادی کی بیش بہا نعمت دلائی اور آزادی کے
بعد وہ گوشہ گمنامی میں چلے گئے اور انہوں نے حکومت ہند سے کسی طرح کے
اعزاز لینے سے انکار کردیا مثال کے طور پر مولانا حسین احمد مدنی رحم اللہ
کا نام لیا جاسکتاہے جنہوں نے حکومت ہند سے کسی طرح کا اعزاز لینے سے منع
کردیا تھا۔ یہ چند چیزیں کافی ہیں کہ ان کے قوم کے تئیں کیا خدمات ہیں کیا
ایسے شخص کو بھارت رتن جیسا ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ اس سے بھارت رتن کے
توقیر میں اضافہ یا تحقیر میں حالانکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے بعض شخصیات
ایوارڈ سے اوپر ہوتی ہیں جن کیلئے بڑے بڑے اعزازار کوئی معنی نہیں رکھتے
جیسا کہ مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد ، پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ۔
2001کے بعد کسی کو بھی اب تک بھارت رتن نہیں دیا گیا تھا ۔ 2001میں
لتامنگیشکر اور استاد بسم اللہ خاں کوبھارت رتن دیا گیا تھا۔ دیگر ایوارڈ
کی طرح بھارت رتن دینے کو ایک کمیٹی طے کرتی ہے جو وزارت داخلہ کی ایک
کمیٹی ہے جس میں نائب صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ کے جج اور اپوزیشن کے لیڈر
ہوتے ہیں۔ اب تک جتنے لوگوں کو یہ ایوارڈ دئے گئے ہیں ان میں تمل ناڈو کے
ایم جی رام چندرن کے نام کو مستثنی کردیا جائے تو تقریباً سبھی کا تعلق
کبھی نہ کبھی کانگریس سے رہا ہے اور یہ فہرست بتانے کے لئے کافی ہے کہ
کانگریس حکومت نے کس طرح اس ایوارڈ کو اپنے رہنماؤں کو محترم کرنے میں
استعمال کیا ہے۔ ہندوستان میں بھارت رتن اب تک چالیس معزز شہریوں کو دیا
جاچکا ہے جن میں دو غیر ملکی شہری جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا
اور سرحدی گاندھی خاں عبدالغفار خاں شامل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے سچن تندولکر کاکرکٹ میں ریکارڈ بہت بڑا ہے لیکن یہ
ایوارڈ انہیں قبل از وقت ووٹ بینک کو اپنی طرف کھینچے کے لئے دیا گیا ہے۔
میجر دھیان چند اس فہرست میں سب سے پہلے تھے۔انہیں دیا جانا چاہئے تھا۔
تندولکرپر ملک کے بجائے اپنے لئے کھیلنے کا الزام لگتا رہا ہے یہ کوئی عام
آدمی بلکہ کھیل کی دنیا سے وابستہ اہم شخصیات نے عائد کئے ہیں۔ ہندوستان
میں یہ رجحان بہت تیزی سے جڑ پکڑتا جارہا ہے کہ ہر فیصلے اب عوامی جذبات کو
دیکھ کر کئے جاتے ہیں۔ تندولکر کو بھارت رتن دینے کا فیصلہ بھی اسی عوامی
جذبات کو کیش کرانے کی سمت میں ایک قدم ہے۔ کرکٹ میں کوئی بھگوان ہوسکتا ہے
کہ وہ انگلینڈ کا کوئی کھلاڑی ہوگاہندوستان کا تو ہرگز نہیں ہے کہ کیوں کہ
کرکٹ کی پیدائش انگلینڈ میں ہوئی ہے۔ ہندوستان یا دیگر ممالک کرکٹ کے متبع
ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں ہمیشہ جذبات کوکیش کرنے کی سیاست بہت پھلی پھولی
ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔ اس وقت ہندوستان نریندر مودی کے جذبات
کے رو میں بہہ رہا ہے جسے مرکزی حکومت تندولکر کو بھارت رتن دیکر روکنے کی
کوشش کی ہے۔ اس کا تھوڑا اندازہ آنے والے دسمبر کو اور پورا اندازہ آئندہ
سال مئی میں ہوجائے گا۔
نام-------------------- پیدائش /موت-- سال------------ خدمات
۱ سر و پلی رادھاکرشنن (۱۸۸۸۔ ۱۹۷۵)۱۹۵۴ فلسفی دوسرے صدر جمہوریہ (تمل ناڈو)
۲ چکروتی راج گوپال چاری(۱۸۷۸۔ ۱۹۷۲)۱۹۵۴ مجاہد آزادی اور پہلے گورنر جنرل
(تمل ناڈو)
۳ سی وی رمن (۱۸۸۸۔ ۱۹۷۰) ۱۹۵۴ سائنس داں اور نوبل انعام یافتہ (تمل ناڈو)
۴ بھگوان داس (۱۸۶۹۔ ۱۹۸۵) ۱۹۵۵ فلسفی ، مجاہد آزادی،(یو پی)
۵ سر مکشاگنڈم وسویوریا (۱۸۶۱۔ ۱۹۶۲) ۱۹۵۵ سول اانجنےئر (کرناٹک)
۶ جواہر لال نہرو (۱۸۸۹۔ ۱۹۶۱) ۱۹۵۷ مجاہد آزادی ،ملک کے پہلے وزیر اعظم (یوپی)
۷ گووند بلبھ پنت (۱۸۸۷۔ ۱۹۶۱) ۱۹۵۷ مجاہدآزادی (یوپی)
۸ دھوندو کیشو کروے (۱۸۵۸۔۱۹۶۲) ۱۹۵۸ ایجوکیشن، سماجی مصلح،(مہاراشٹر)
۹ بی سی رائے (۱۸۸۲۔۱۹۶۲) ۱۹۶۱ فیزیشین، سیاست داں،(مغربی بنگال)
۱۰ پرشوتم داس ٹنڈن (۱۸۸۲۔۱۹۶۲) ۱۹۶۱ مجاہد آزادی، ماہر تعلیم،(اترپردیش)
۱۱ ڈاکٹرراجندر پرساد (۱۸۸۴۔۱۹۶۳) ۱۹۶۲ مجاہد آزاد، پہلے صدر جمہوریہ، (بہار)
۱۲ ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۹۷۔۱۹۶۹) ۱۹۶۳ اسکالر، سابق صدر جمہوریہ (آندھرا
پردیش)
۱۳ پی وی کانے (۱۸۸۰۔۱۹۷۲) ۱۹۶۳ سنسکرت اسکالر (مہاراشٹر)
۴ ۱ لال بہادر شاشتری (۱۹۰۴۔۱۹۶۶) ۱۹۶۶ مجاہد آزادی، وزیر اعظم (اترپردیش)
۱۵ اندرا گاندھی (۱۹۱۷۔۱۹۸۴) ۱۹۷۱ سابق وزیر اعظم (اترپردیش)
۱۶ وی وی گری (۱۸۹۴۔۱۹۸۰) ۱۹۷۵ سابق صدر جمہوریہ، مزود لیڈر (آندھرا پردیش)
۱۷ کے کا مراج (۱۹۰۳۔۱۹۷۵) ۱۹۷۶ مجاہد آزادی، وزیر اعلی، (تمل ناڈو)
۱۸ اگنیس گونزا (مدر ٹریسا) (۱۹۱۰۔۱۹۹۷) ۱۹۸۰ نوبل انعام یافتہ، (مغربی
بنگال)
۱۹ اچاریہ ونوبا بھاوے (۱۸۵۹۔۱۹۸۲) ۱۹۸۳ سماجی مصلح، مجاہد آزادی (مہاراشٹر)
۲۰ خاں عبدالغقفار خاں (۱۸۹۰۔۱۹۸۸) ۱۹۸۷ مجاہد آزادی پاکستان، غیر
ہندوستانی
۲۱ ایم جی رام چندرن (۱۹۱۷۔۱۹۸۷) ۱۹۸۸ بعدا ز مرگ، اداکار، وزیر اعلی، (تمل
ناڈو)
۲۲ بی آر امبیڈکر (۱۸۹۱۔۱۹۶۵) ۱۹۹۰ بعد از مرگ ، آئین ہند کے معمار (مہاراشٹر)
۲۳ نیلسن منڈیلا (۱۹۱۸) ۱۹۹۰ نسلی امتیاز خلاف تحریک کے قائد، جنوبی افریقہ
کے سابق صدر
۲۴ راجیو گاندھی (۱۹۴۴۔۱۹۹۱) ۱۹۹۱ بعد ازمرگ، سابق وزیر اعظم،(نئی دہلی)
۲۵ سردار ولبھ بھائی پٹیل (۱۸۷۵۔۱۹۵۰) ۱پ۱۹۹ بعد ازمرگ، سابق وزیر
داخلہ،مجاہد آزادی (گجرات)
۲۶ مرارجی دیسائی (۱۸۹۶۔۱۹۹۵) ۱۹۹۱ مجاہد آزادی، سابق وزیر اعظم، (گجرات)
۲۷ مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸۔۱۹۵۸) ۱۹۹۲ مجاہد آزادی،اولین سابق وزیر
تعلیم، اسکالر (مغربی بنگال)
۲۸ جے آر ڈی ٹاٹا (۱۹۰۴۔۱۹۹۳) ۱۹۹۲ صنعت کار، (مہاراشٹر)
۲۹ ستیہ جیت رے (۱۹۲۲۔۱۹۲۹) ۱۹۹۲ لیجنڈری فلم ڈائرکٹر (مغربی بنگال)
۳۰ ا ے پی جے عبدالکلام (۱۹۳۱) ۱۹۹۷ سائنس داں، میزائل مین،سابق صدر
جمہوریہ (تملناڈو)
۳۱ گلزاری لال نندہ (۱۸۹۸۔۱۹۹۸) ۱۹۹۷ مجاہد آزادی، سابق وزیر اعظم (پنجاب)
۳۲ ارونا آصف علی (۱۹۰۸۔۱۹۹۶) ۱۹۹۷ بعد ازمرگ، مجاہد آزادی (مغربی بنگال)
۳۳ ایم ایس سبالکشمی (۱۹۱۶۔۲۰۰۴) ۱۹۹۸ کلاسیکل گلوکارہ، (تمل ناڈو)
۳۴ چدمبرم سبرامنیم (۱۹۱۰۔۲۰۰۰) ۱۹۹۸ مجاہد آزادی،وزیر زراعت، سبز انقلاب
کے بانی (تملنادو)
۳۵ جے پرکاش نارائن (۱۹۰۲۔۱۹۷۹) ۱۹۹۸ بعد ازمرگ، مجاہد آزادی، سماجی مصلح (بہار)
۳۶ روی شنکر (۱۹۲۰) ۱۹۹۹ کلاسیکل ستار پلےئر (مغربی بنگال)،
۳۷ امرتیہ سین (۱۹۳۳) ۱۹۹۹ نوبل انعام یافتہ، ماہر معاشیات (مغربی بنگال)
۳۸ گوپی ناتھ بورڈولوئی (۱۸۹۰۔۱۹۵۰) ۱۹۹۹ بعد ازمرگ، مجاہد آزادی، (آسام)
۳۹ لتامنگیشکر (۱۹۲۹) ۲۰۰۱ گلوکارہ، (مہاراشٹر)
۴۰ استاد بسم اللہ خاں (۱۹۱۶۔۲۰۰۶) ۲۰۰۱ شہنائی نواز (اترپردیش) |