نیٹو سپلائی ! کیا کیا جائے

گذشتہ ہفتہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ مؤرخ جب بھی اس حرماں نصیب ملک کی تاریخ لکھے گا تو اسے لکھنا پڑے گا کہ پاکستان کے ایک نام نہاد دوست نے اس کے قبائلی علاقوں کے بعد اس کے بندوبستی علاقے ہنگو میں ڈرون کے ذریعے اپنی طاقت اور جبروت کا مظاہرہ کیا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ یہ حملہ کر کے اس نے باقی دنیا کو بھی یہ پیغام دیا تھا کہ جس کسی نے بھی پاکستان کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنا ہو کر گذرے۔جس کسی کے دشمن پاکستان کے اندر چھپے ہوں اس کو حق ہے کہ وہ پاکستان کے اندر آ کے اپنے دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا ہے۔اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ پاکستان غریب کی جورو ہے جسے ہر کوئی بھابھی بلا سکتا ہے۔ا سامہ بھلے پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ دشمن تھا لیکن اسے جس انداز سے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں مار کے بحیرہ عرب کی گہرائیوں میں اتارا گیا اس نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا جنازہ نکال کے رکھ دیا۔

ہنگو کے اس ڈرون حملے نے جہاں دنیا کے سامنے ہمیں ایک بے بس اور لاچار ملک کے طور پہ ننگا کر کے کھڑا کر دیا وہیں ملک کے اندر بھی اضطراب کی لہر دوڑا دی۔عمران خان جو حکیم اﷲ محسود پہ کئے جانے والے حملے پہ پہلے ہی سیخ پا تھے اور نیٹو سپلائی روکنے کا عندیہ دے رہے تھے۔اس حملے کے بعد آگ بگولا ہیں اور امریکہ کو کسی طور بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔جماعتِ اسلامی جس کے امیر منور حسن حکیم اﷲ کو شہید اور پاک فوج کے شہیدوں کی شہادت پہ سوالیہ نشان لگا کے خود بھی سوالیہ نشان بن گئے ہیں،بھی ان کے ہم رکاب ہیں۔تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک صوبے میں حکمران بھی ہیں اور ملک کی سیاست میں سب سے بڑی طاقت ہونے کے دعویدار بھی۔ وہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے دھرنا کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب قانونی پیچدگیوں سے بچنے کے لئے اپنی پارٹی کی حکومت کو اس دھرنے سے دور بھی رکھتے ہیں۔ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ عمران کنفیوز ڈہیں۔پشاور کے دھرنے میں اتحادی جماعتوں نے نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کر کے مختلف جگہوں میں اپنے کارکن تعینات کر دئیے ہیں۔نیٹو سپلائی حکومت تو روک ہی نہیں سکتی اسے عوام البتہ روک سکتے ہیں۔بد قسمتی سے اس کا کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ کارکنان کو اگلے ایک مہینے کا پروگرام دیا جاتا۔ سپلائی صرف طور خم پہ نہیں چمن میں بھی روکنے کا طریقہ کار بتایا جاتا۔تحریک انصاف کے مخالفین بھی یہ بات ماننے پہ مجبور ہیں کہ عمران خان ٹھیک کہتا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کا طریقہ کار مناسب نہیں۔

پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی امریکہ کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اے این پی کے اپنے کاروباری مفادات بھی اس نیٹو سپلائی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔نون لیگ حکومت میں ہونے کی وجہ سے مجبور ہے کہ اسے بہر حال بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنی ہے۔کچھ حلقے تو تحریک انصاف کے اس اقدام کو نون لیگ اور تحریک انصاف کی ملی بھگت بھی قرار دے رہے ہیں۔ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران سپلائی روک ہی نہیں سکتے۔ ڈرون رکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تحریک انصاف کے اس اقدام پہ کچھ سوالیہ نشانات تو بہر حال ہیں کہ کیا صرف طور خم کے راستے نیٹو سپلائی رکنے سے امریکہ کو کوئی فرق پڑے گا؟کیا تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اپنے کاز کے لئے دوسری سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کو بھی اس تحریک میں شمولیت کی دعوت دیں گی۔تحریک کے ملکی سطح پہ مقبول ہونے کے سو فیصد امکانات ہیں ۔ایسا ہوا تو کیا ملک مزید انتشار کا شکار نہیں ہو گا۔ کیا یہ انتشار ملک کو مزید تباہی کی طرف تو نہیں لے جائے گا۔کیا یہ تحریک پرامن رہ سکے گی؟ اگر نہیں تو حکومت گرفتاریاں بھی کرے گی۔ کچھ لوگ عمران خان کی زندگی کے بارے بھی اپنے خدشات ظاہر کر رہے ہیں کیا کارکن ان کی حفاظت کر پائیں گے۔تحریک کی صف اول کی قیادت کی گرفتاری کی صورت میں کیا سیکنڈ لائن قیادت میسر ہو گی۔کیا کوئی ایسا موقع بھی آسکتا ہے کہ لوگ سرے سے ہی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو جائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام عمران خان پہ اعتبار کرتے ہیں۔ عمران نے ان لوگوں کو بھی ملکی معاملات میں شامل کر لیا ہے جو اس سے پہلے مایوس ہو کے سیاسی عمل ہی سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ عمران خان کا ایک اور کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ سے پاکستانیوں کی نفرت کو مجسم کر کے رکھ دیا ہے۔ان کے پرانے کلاس فیلو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جو مسلم لیگ نون کے مدارالمہام ہیں نے امریکہ کے خلاف بیان دے کے عمران خان کے مؤقف کی تائید کر دی ہے۔دوسری طرف سر تاج عزیز جو مسلم لیگ کے معدودے چند معززین میں شمار کئے جاتے اور ملکی سطح پہ قابل احترام تصور کئے جاتے ہیں نے امریکہ پہ اعتبار کر کے عزت سادات داؤ پہ لگا دی ہے۔اس دھرنے اور عمران خان کے اس مؤقف نے البتہ ہمارے وزیر اطلاعات کی سنجیدگی اور تدبر کا پول کھول کے رکھ دیا ہے۔ ان کے بودے اور فضول قسم کے دلائل نے ان کی شہرت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔دوسری طرف عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے کارکن اور قائد کے دھرنے میں خطاب نے لوگوں کو مایوس ہی کیا ہے۔

تحریک انصاف کا طالبان کے بارے مؤقف اور جماعت اسلامی کا ساتھ بھی لوگوں کے لئے مخمصے کا باعث ہے۔ عمران خان کھلے بندوں کہتے ہیں کہ طالبان دشمن ہیں اور اسی لئے ہم ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی اتحادی جماعت اسلامی کا طالبان کے بارے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری نے عمران خان کے خیالات کی بھرپور تائید کی لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ عمران کھل کے طالبان کی مذمت تو کریں۔ ایک دھرنا وہ طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے لوگوں کے لئے بھی تو دیں۔قوم عمران خان کے خیالات سے متفق ہے لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جو اس معاملے پہ مکمل اتحاد اور اتفاق کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی سوچ بھی بری نہیں لیکن اس کے لئے بھی بہر حال عمران خان کو ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے رکھنا پڑے گا۔ ان کے یہ بیانات تو اخبارات میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ وہ طالبان جو مذاکرات کی طرف آئیں ان سے مذاکرات اور جو نہ آئیں ان کے خلاف آپریشن ہونا چاہئیے لیکن اب اسے تحریک انصاف کی واضح پالیسی کے طور پہ اپنایا جانا چاہئیے۔

عمران خان کی اس تحریک نے جہاں قوم کو ایک نیا ولولہ دیا ہے وہیں سیاسی جماعتوں کو بھی ایک نئی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ وہ جو کل تک ڈرون حملوں کے خلاف اچھل اچھل کے بیانات کے گولے داغا کرتے تھے۔اب ان کی توپیں لگاتار ٹھس ٹھس کر رہی ہیں اور ان کے نیٹو سپلائی کی بندش کے خلاف بیانات سن کے ہنسی آتی ہے۔ مولٰنا فضل الرحمن جنکو اب عمران خان اپنا دوست کہتے ہیں سخت مصیبت میں ہیں کہ عمران خان کی تحریک نے ان کی جلیبی نما سیاست کی جلیبی سے شیرا نکال کے رکھ دیا ہے۔ایم کیو ایم اس ملک کی شاید سب سے ذہین جماعت ہے جو فوراََ عوام کی نبض کی رفتار بھانپ لیتی ہے۔اس کے قائد نے فوراََ لندن سے یہ بیان داغ کے اپنے آپ کو شہیدوں میں شامل کر لیا ہے کہ پاکستانی حکومت اگر نیٹوسپلائی نہیں روک سکتی اور ڈرون نہیں روک سکتی تو عوام کو جہاد کرنے کا حق ہے۔کل کلاں اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو الطاف حسین کا تحریک مخالف رویہ ان کا دست گیر ہو گا اور اگر اس تحریک کے ذریعے امریکہ کو کسی بھی طرح زیر دام لایا جا سکا تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم ہی نے تو عوام کو امریکہ کے خلاف اٹھنے کی تھریک دی تھی۔اسے کہتے ہیں چت بھی میری اور پت بھی میری۔

نیٹو سپلائی ایک وسیلہ ہے کہ امریکیوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ کیا تحریک انصاف اور ان کے اتحادی امریکہ کو اس جگہ پہ لا سکتے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پہ آ جائے۔ایسا اس طرح کی بندش سے تو ممکن نظر نہیں آتا۔پھر ایسا کیا ہو کہ ہم اپنی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ کر سکیں۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ سارے محاذوں پہ بیک وقت لڑا جائے۔ عمران تحریک جاری رکھیں اور اس کے ساتھ ہی اس معاملے کو اسمبلی میں لے جائیں۔ ایک اور اے پی سی بلائی جائے۔ یہی ایجنڈا دوبارہ ان ساری جماعتوں کے آگے رکھا جائے۔امریکہ سے سارے معاہدوں کو پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ کیا جائے۔ معاہدوں پہ نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے۔ نئی شرائط اور نئے قواعد و ضوابط کے ساتھ۔ پاکستان مین سیاست چلتی ہی اینٹی امریکہ نعروں پہ ہے ۔یہ الگ بات کہ یہ صرف نعرے ہی ہوتے ہیں۔اندر خانے ہماری ساری محبت اور وفاداری کا مھور و مرکز امریکہ ہی ہوتا ہے۔ عوام کے سامنے اس منافقت کا پردہ چاک کر دیا جائے تو اس طرح سیاسی پارٹیوں کے لئے اپنے دیرینہ ظاہری مؤقف سے ہٹناممکن نہیں رہے گا۔ انتہائی خلوص کے ساتھ صرف اور صرف ملک کی بہتری اور بھلائی کی سوچ کے ساتھ سارے سٹیک ہولڈرز کو ایک نکتے پہ متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہنگو پہ ڈرون حملے کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر کے پشاور ہائی کورٹ جیسا فیصلہ لیا جائے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پہلے ہی ان حملوں پہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم اسے جنگی جرم قرار دے چکی اس لئے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ان حملوں کے خلاف سلامتی کونسل میں جائے۔ اگر حکومت قیادت کے لئے تیار ہو تو اس کا ساتھ دیا جائے اور اگر ھکومت اس معاملے میں لیت ولعل سے کام لے تو پھر عوام کی مدد سے یہ کام کیا جائے۔حکومت خود ہی خس و خاشاک کی طرح عوامی جذبات کے ریلے میں بہہ جائے گی۔ خلوص سے کئے گئے یہ اقدامات اس سوچ کی بھی نفی کر دیں گے کہ عمران اور ان کے اتحادی اس ایشو پہ سیاست کر رہے ہیں۔

عمران خان پہ الزام ہے کہ وہ اس ایشو پہ سیریس نہیں۔ انہوں نے اس کے مضمرات کا اندازہ ہی نہیں لگایا اور میدان میں کود پڑے ہین۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ تحریک کلوص پہ مبنی ہے تو ضرور کامیاب ہو گی لیکن خان صاحب بھی یاد رکھیں کہ اس ایشو پہ وقتی سیاست آپ کی سیاست کا جنازہ نکال کے رکھ دے گی۔پاکستانی قوم نے شاید آخری بار کسی سیاست دان پہ اعتبار کیا ہے۔ان کے اعتبار کو ٹوٹنے نہ دیجئیے گا۔ یہ اعتبار ٹوٹ گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا اور ملک ٹوٹا توآپ کو بھی کہیں اور جا کے دوسرے درجے کا شہری بن کے رہنا پڑے گا۔ رزق کا ٹھیکہ اﷲ نے لے رکھا ہے بھوک سے ڈرانے والوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ہم تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں مرے ہوئے کو اور کتنا مارا جا سکتا ہے؟
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269087 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More