میاں صاحب ! لیڈر بننے کا وقت آ گیا

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی یاتو بندہ صحرائی کرتا ہے یا مردِ کوہستانی۔بد قسمتی سے میاں نواز شریف نہ تو بندہ صحرائی ہیں نہ مرد کوہستانی۔ہاں کشمیری ہونے کے ناطے ان کے اجداد ضرور کوہستانی بلائے جا سکتے ہیں۔آزادی بھی فطرت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے کہ اﷲ کریم نے انسان کو آزاد پیدا کیا اور چاہا کہ وہ دنیا میں آزاد رہ کر اپنے عقل و شعور سے اپنی قوتِ فیصلہ کو آزمائے۔حیرت کی بات یہ کہ سارے جاندار ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتے اور مل جل کے کھاتے پیتے اور رہتے ہیں سوائے حضرت انسان کے جسے احسن تقویم کا تاج پہنایا گیا ہے۔آپ نے کبھی کسی بندر کسی بھیڑئیے یا شیر کو دوسرے بندر بھیڑئیے یا شیر کا غلام نہیں دیکھا ہو گا۔یہ انسان ہی ہے جو اپنی طاقت اور جبر کے بل بوتے پہ دوسرے انسان کو غلام بنا کے رکھنا چاہتا ہے۔ ایسا شاید ابتدائے آفرینش ہی سے ہے۔وقت کے ساتھ اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ پہلے غلامی انفرادی ہوا کرتی تھی اب اجتماعی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پہلے طاقت ور اقوام افرادی قوت کے زور پہ دوسرے لوگوں کو غلام بناتی تھیں اب یہی کام وہ سرمایے کے زور پہ کرتی ہیں کہ اکثر فوجیں اتار کے قبضے کی کوشش الٹی پڑ جاتی ہے۔ماضی میں ویت نام اور افغانستان میں امریکہ اور روس کی شکست اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام نے قوموں اور ملکوں کو یوں اپنے شکنجے میں جکڑا ہے کہ ان داتا کی مرضی کے بغیر جنبشِ ابرو کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔تاریخ اس طرح کی مثالوں سے اٹی پڑی ہے لیکن اس کی تازہ ترین مثال ہمارا اپنا وطن ہے۔انتخابات سے پہلے یوں محسوس ہوتا تھا کہ عمران خان کی سونامی نہ صرف پاکستان بلکہ شایدافغانستان اور ہندوستان کے بھی کچھ علاقوں کو روند کے گذر جائے گی لیکن کچھ ایسا ہوا کہ میاں صاحبان سر شام ہی جبکہ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری تھی اپنے محل کی بالکونی میں آئے اور رعایا کو اپنی فتح کی خوشخبری سنا کے چلتے بنے۔ ہم نے انہی کالموں میں سونامی والوں کو مشورہ دیا تھا کہ جاگدے رہنا پہائیو۔ساڈے تے نہ رہنا پہائیو لیکن وہ رات گئے تک فیس بک پہ مصروف رہنے کے بعد الیکشن کے دن گیارہ بجے پولنگ سٹیشنوں پہ پہنچے تو بے خبر سسی کا شہر لٹ چکا تھا۔سونامی پورس کے ہاتھیوں کی مانند اپنی فوج کو روند چکی تھی۔ نواز شریف برسر اقتدار آ گئے کہ مرادِ امریکہ تھے۔اقتدار کے پہلے چار مہینے عوام ان کے چہرے کی حالت سے ملک کی حالت کا اندازہ لگایا کرتے۔پھر آقا نے طلب کیا تو ان کے چہرے کی روایتی بشاشت دوبارہ لوٹ آئی۔ امریکہ سے واپس آتے ہی انہوں نے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دے دیا۔ چوہدری نثار کی آنیاں جانیاں شروع ہوئیں۔ قوم اور پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا طالبان سے کچھ نامہ و پیام بھی ہوا۔قاصد نکلا چاہتے تھے کہ امریکہ نے ڈرون مار کے وہ درخت جڑوں ہی سے اکھاڑ دیا جس پہ ہم مذاکرات کا آشیانہ بنانے جا رہے تھے۔

حکیم اﷲ محسود جو کہ پچاس ہزار پاکستانیوں کا قاتل تھا جس نے ملا عمر کے استاد کرنل امام کو اپنے ہاتھوں سے شہید کیا تھا۔جسے ہم مذاکرات کے لئے جنرل نیازی اور دوسرے ہزاروں معصوموں کا قتل معاف کر چکے تھے راتوں رات شہید بن گیا اور اس کے ہاتھوں مرنے والوں کی شہادت پہ سوالیہ نشان لگ گئے۔سرمایہ اپنا کمال دکھا چکا تھا اور غلاموں کو سندیسہ دے دیا گیا تھا اﷲ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو کھلائے بھی اور اپنی مرضی بھی کرنے دے۔ غلاموں نے زیادہ واویلا مچایا تو سرکار اپنے دشمنوں کی تلاش میں ہنگو تک چلے آئے۔ درباری راگ گانے والے فوراََ بولے کہ ہنگو کے مدرسے میں افغانی نہ ہوتے تو حملہ بھی نہ ہوتا۔ یہ جواز دے کے وہ دراصل آقا کو اسلام آباد لاہور اور کراچی پہ بھی ڈرون کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔آج ہنگو میں افغانیوں کی موجودگی میں ڈرون حملے کی حمایت کرنے والے کل مرید کے پہ بھی حملے کی حمایت کریں گے۔کل کلاں یہی ڈرون کہیں رائے ونڈ کے آس پاس اڑتا پایا گیا تو بھی یہ جھنڈیاں ہلا ہلا کے اسے خوش آمدید کہیں گے۔

حکمران اور امریکہ کے پاکستانی ایجنٹ ہوں نہ ہوں لیکن پاکستانی قوم خطرے کو بھانپ کے افسردہ اور پریشان ہے۔ جھنجھلاہٹ کا شکار ہے۔ جذبات امڈے ہوئے ہیں اور ایک ذرا سی چنگاری غلامی کے اس بھس کو جلا کے خاکستر کر سکتی ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے ماننے والوں کے احساسات کو سمجھے۔ جو ان کے چہروں پہ لکھی تحریریں پڑھ سکے۔جو ان کے جذبات کی ترجمانی کر سکے اور پھر انہیں بجائے تباہی کی طرف لے جانے کے ان جذبات کو ایک مثبت سمت دے سکے۔ حزب اختلاف کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو ابھارے یہ حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان بھڑکے ہوئے جذبات کو اپنے اور اپنے وطن کے فائدے کے لئے استعمال کریں۔حکومت نے ان جذبات کو اپنے حق میں تو خیر کیا استعمال کرنا ہے۔اس نے ان جذبات کو مزید ابھارنے کے لئے اپنے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور صوبائی وزیر قانون کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ اپنی فضولیات سے ان بھڑکے ہوئے جذبات کو مزید ہوا دیں۔

ایسے میں میاں نواز شریف کو عمران خان کا یہ مشورہ بہت صائب لگتا ہے کہ میاں صاحب ! یہ لیڈر بننے کاوقت ہے۔ قائدین کی زندگی میں ایسا موقع ایک آدھ بار ہی آتا ہے جب وہ تاریخ میں اپنا نام لکھواتے ہیں یا تاریخ کے کچرا دان کا حصہ بن جاتے ہیں۔جناب میاں صاحب ایک اور اے پی سی بلائیں۔سارے معاملات اب کی بار کھول کے سب پارٹیوں کے سامنے رکھیں۔ انہیں ون پوائنٹ ایجنڈا پہ اکٹھا کریں۔اس کے بعد یکسو ہو کے پہلے گھنٹے ہی میں طے شدہ فیصلوں پہ ایمانداری سے عمل شروع کریں چاہے یہ فیصلے اجتماعی خود کشی ہی کے کیوں نہ ہوں۔اجتماعی دانش بہر حال فرد کی سوچ سے اعلیٰ قرار دی گئی ہے تبھی تو کہا گیا ہے کہ جب کوئی اہم معاملہ در پیش ہو تو آپس میں مشورہ کر لیا کرو۔آپس سے مراد اپنے اہل خانہ سے نہیں بلکہ ان سے جو جانتے ہیں۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269131 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More