دو لوگ آپس میں بات کر رہے تھے۔۔۔ ایک نے دوسرے سے کہا
’’ملک چل رہا ہے کیا؟‘‘ دوسرے نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اندھے ہو
کیا۔۔۔ چل نہیں دوڑ رہا ہے؟‘‘۔ پہلے نے پوچھا کیسے؟ دوسرا زیادہ غصے سے
بولا ’’ایسے۔۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر بگٹٹ بھاگتا گلی کا موڑ مڑ گیا۔ تو جناب!
ملک واقعی، چل نہیں رہا بگٹٹ بھاگ رہا ہے۔۔۔ اور بھاگتے بھاگتے گلی کا موڑ
مڑ رہا ہے۔۔۔ اب یہ نہیں معلوم جس گلی کا موڑ مڑ رہا ہے۔۔۔ وہ گلی جاتی
کہاں ہے؟ نوازشریف نے جب سے شیر پر بیٹھ کر، اس ملک کو دوڑانا شروع کیا ہے۔۔۔
اس کے بعد نہ اس میں رہنے والوں کو سمجھ آ رہی ہے۔۔۔ نہ اسے چلانے والوں کو۔۔۔
اسے لے کر کہاں جانا ہے؟ جس تیزی سے شیر بھاگ رہا ہے۔۔۔ اس تیزی سے ڈالر
بھاگ رہا ہے۔۔۔ اور روپیہ۔۔۔ جس کے نتیجے میں۔۔۔ اُلٹی طرف بھاگ رہا ہے۔۔۔
جس کے بعد۔۔۔ جس چیز کا جدھر منہ لگتا ہے، وہ، ادھر بھاگ رہی ہے۔۔۔ بے مہار
بے سمت۔۔۔ کہ جب بھاگنا ہی مقصود ٹھہرے تو پھر۔۔۔ سمت اور مقصد کا تعین
ممکن نہیں رہتا۔۔۔ پھر تو دیکھنے والوں پر، صرف اپنی رفتار کی دھاک جمانا
ہی۔۔۔ بھاگنے والوں کا مقصد رہ جاتا ہے۔!یہ حکومت۔۔۔ جب سے آئی ہے۔۔۔ اس کے
مقاصد۔۔۔ اور اس کی ترجیحات کی سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ اسی لئے، اس شیر
سوارحکومت کے معاملے میں سبھی کنفیوژ ہیں۔۔۔ کوئی کہتا ہے۔۔۔ اس حکومت کا
مقصد، ڈالر کو پاؤنڈ اور یورو کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا ہے۔۔۔ کوئی کہتا
ہے اس حکومت کا مقصد۔۔۔ غریب کو ذلت اور بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کرنا ہے۔۔۔
اور کوئی کہتا ہے۔۔۔ اس حکومت کو آنے بہانے وقت پورا کر کے۔۔۔ وقت کو
انتخابات کے سامنے لاکھڑا کرنا ہے۔۔۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ کہ جب،
فلاح اور ترقی اور ویژن کی باتیں۔۔۔ محض باتیں ثابت ہوں۔۔۔ اور ان پر
عملدرآمد کی ساری توقعات، جھاگ کی طرح بہہ جائیں۔۔۔ اور بڑے وعدے اور بڑے
خواب دکھا کر۔۔۔شیر سوار میدان میں آ جائیں۔۔۔ اور بجائے ملک کی رفتار
بڑھانے کے۔۔۔ میدان میں ہمہ وقت شیر ہی بیٹھ کر، کرتب ہی دکھاتے پھریں تو
پھر۔۔۔ ترقی اور تعمیر محض اک مفروضہ۔۔۔ محض وہم بن کر رہ جاتی ہے۔۔۔ اور
عوام اس وہم کادھندلا سا عکس۔۔۔ جو بعض اوقات دکھائی بھی نہیں دیتا۔۔۔!
آرمی چیف کی تبدیلی۔۔۔ عدلیہ کی تبدیلی۔۔۔ نیب کے چیئرمین سمیت خالی
وزارتوں پر نئے وزراء کی بھرتی۔۔۔ سمیت جتنے بھی انتظامی معاملات تھے، وہ
اب پوری طرح جنابِ وزیراعظم کی جیب میں رکھے نظر آتے ہیں۔۔۔ اسی لئے بقول
شاعر ’’نکھرے نکھرے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘‘۔
مگر شاید یہ نکھار، کسی نکھار بیوٹی کریم کا کمال ہے۔۔۔ جو ہمارے کشمیری
وزیراعظم کی چمکیلی جلد کو مزید چمکدار بنانے کے علاوہ۔۔۔ اور کوئی کمال
نہیں دکھا سکا۔۔۔ یہی وجہ۔۔۔ عوام۔۔۔ سرکار کی چمکیلی جلد چمک سے مسحور ہو
کر۔۔۔ جب محض سبزی اور دال کے حصول کے لئے ہی گھر سے نکلتے ہیں۔۔۔ تو یہ
غریبی دعوے کی چیزیں ہی ان کی جیبوں کا کھل کر مذاق اڑانے لگتی ہیں! پیاز،
ٹماٹر۔۔۔ چینی پتی۔۔۔ آٹا چاول۔۔۔ دودھ دہی۔۔۔ کا تو ذکر ہی کیا۔؟پتہ نہیں،
جنابِ اسحاق ڈار جب بھی وزیر خزانہ بنتے ہیں۔ ڈالرکے غم میں اتنا کیوں
گھلنے لگتے ہیں؟ اور یہ غم انہیں اتنا پیارا کیوں ہو جاتا ہے، کہ وہ اسے
غمِ محبوب بنا لیتے ہیں۔۔۔ اور عوام کو اس کا رقیب سمجھنے لگتے ہیں؟ یہی
وجہ۔۔۔ وہ جب بھی خزانے کی کنجی سنبھالتے ہیں۔۔۔ ڈالر کی ناز برداری اور
دیکھ بھال میں یوں لگ جاتے ہیں۔۔۔ کہ اور سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔ اس دفعہ
ان کے آنے سے پہلے، ڈالر، جو تقریباً نوے روپے کا تھا۔۔۔ ایک سو دس پر چلا
گیا ہے۔۔۔ یہ اڑان اور کتنی اوپر جائے گی۔۔۔ اس کا ذکر میں نے شروع میں کر
دیا ہے۔۔۔ مگر ڈالر نامی یہ پرندہ۔۔۔ جب اتنی اڑان بھرتا ہے۔۔۔ تو بے چارے
روپے پر کیا گزرتی ہے؟ اور جب روپے پر گزرتی ہے۔۔۔ تو عوام پر کیا گزرتی
ہے۔۔۔ اور جب عوام کے حال مندے ہو جاتے ہیں۔۔۔ تو ملک پر کیا گزرتی ہے؟ اس
دلچسپ و عجیب کہانی سے چونکہ۔۔۔ اسحاق ڈار صاحب اور ان کے ’’صاحبوں‘‘ کی
کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ اس لئے ملک اور اس میں رہنے والوں کا حال جو اس وقت
ہے۔۔۔ یہ صرف وہ جانتے ہیں۔۔۔ یا ان کے حالات۔۔۔ جو انہیں۔۔۔ دن رات کی
مشقت کے بعد۔۔۔ دال اور روٹی سے پیٹ بھرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے!رہی
بجلی، پانی، گیس اور پٹرول۔۔۔ تو اس کے متعلق اس کے علاوہ اور کیا کہا جا
سکتا ہے۔۔۔ کہ آنے والے دنوں میں، جو ان نعمتوں سے مستفید ہو گا۔۔۔ وہ یا
تو اس ملک کے ارب پتی سرمایہ دار ہوں گے۔۔۔ اربوں کی کرپشن کرنے والے وائٹ
کالر۔۔۔ توقیر صادق۔۔۔ کے قبیلے کے لوگ ہوں گے۔۔۔ یا پھر خود اسحاق ڈار
صاحب اور ان کے نے نواز ہوں گے۔۔۔ میں دعوے سے کہتی ہوں۔۔۔ ان کے علاوہ۔۔۔
بجلی، گیس اور پٹرول کو ہما شما۔۔۔ حسرت سے دیکھیں گے ضرور۔۔۔ مگر استعمال
کا سوچ بھی نہیں سکیں گے! ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اور اگراپنی غلطیوں اور
کوتاہیوں کو زرداری حکومت کے کھاتے میں ڈال کر۔۔۔ محض حکمرانی ہی کرنا
تھی۔۔۔ تو پھر۔۔۔ عوام کو اُلو بنانے۔۔۔ ان سے وعدے کرنے اور انہیں سلطانیِ
جمہور کا ترانہ سنا کر۔۔۔ اک نیا خواب دکھانے کی ضرورت کیا تھی؟ کہ بیلٹ
بکس بھرنے کے بعد۔۔۔ حکمرانی کا اعلان ہی اگر مقصد ٹھہرے تو پھر۔۔۔ جمہوریت
کو ڈھونگ کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ایسا کیوں ہے؟ایسا کب تک رہے گا؟
اور اسے کب تک برداشت کریں گے، یہ انسان نما لوگ۔۔۔جو اس وقت کولہو کے بیل
کی طرح، آنکھوں پر چمڑے کے کھوپے چڑھائے، ایک ہی دائرے میں گھوم رہے
ہیں۔۔۔؟ جمہوریت کے نام پر ان سے انتقام کا رویہ۔۔۔ اب انہیں جس مقام پر لے
آیا ہے۔۔۔ اس کے بعد۔۔۔ یا تو تباہی ہے۔۔۔ یا پھر تبدیلی۔۔۔ وہ تبدیلی، جو
نظام کی نہیں۔۔۔ انسان کی حفاظت کرے گی۔۔۔ اس کے حقوق اور شناخت کی پاسداری
کرے گی۔! اگر۔۔۔ کچھ عرصہ۔۔۔ ظلم اور زیادتی کی یہی فضا رہی۔۔۔ مہنگائی۔۔۔
کا یہی حال رہا۔۔۔ بدامنی اور دہشت گردی اسی طرح برقرار رہی۔۔۔ تلاشِ رزق
میں ناکامی کا یہی حال رہا۔۔۔ تو شیر سوار اور ڈالر نوازوں۔۔۔ کو دن میں
تارے دکھا دیں گے یہ بے وقوف اور محتاج لوگ۔۔۔ جو انہیں، اپنی حالت
سدھارنے۔۔۔ ملک کو سیدھی ڈگر پر چلانے۔۔۔ روپے کو مضبوط کرنے۔۔۔ معیشت کو
اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے۔۔۔ اور نظام کو انسانوں کی فلاح کا حصہ بنانے کے
لئے۔۔۔ سر کا تاج بنا کر لائے۔۔۔ مگر یہ تاج۔۔۔ تو کانٹوں کا
نکلا۔۔۔نوکیلے، تیز کانٹوں کا۔! اس نے ان تمام جھکے ہوئے سروں کو لہولہان
کر دیا ہے۔۔۔ جنہوں نے یہ تاج بڑے شوق سے پہنا تھا۔۔۔ چنانچہ۔۔۔ اب ہو یہ
رہا ہے کہ لوگ اس تاج سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ یقین نہ آئے۔۔۔ تو
گیلپ سروے کے ذریعے معلوم کر لیں۔۔۔ نواز لیگ کے خلاف اس وقت، ہر جانب کیسی
فضا بن چکی ہے۔۔۔ اور اگر۔۔۔ اس فضا کو ’’آلودگی‘‘ سے بچانے کی کوشش نہ کی
گئی تو خدشہ ہے۔۔۔ اسحاق ڈار صاحب کہیں ڈالر ہی نہ گنتے رہ جائیں۔۔۔ اور
شیر لکی سرکس میں دوبارہ بھرتی نہ ہو جائے! |