(۱۰؍ دسمبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)
پروفیسر شکیل قاسمی
صدر شعبۂ اردو اورینٹل کالج پٹنہ سیٹی
مولانا محمد علی جوہر قائدین ملک وملت کی صف میں کئی لحاظ سے انفرادیت
رکھتے ہیں، عزت نفس اور دولت استغنا ان کی زندگی کا لازمی حصہ رہا، وہ
فقیری میں شاہانہ خیالات اور پریشانی میں خودداری پر قائم رہے، وہ مخلص،
بہادر اور عاشق اسلام لیڈر تھے، وہ اظہار حق میں ذرہ برابر تامل سے کام
نہیں لیتے،دوست دشمن کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنی بات سامنے رکھتے۔
رام پور کے معزز وممتاز خاندان میں مولانا محمد علی ۱۰؍ دسمبر 1878کو پیدا
ہوئے، دو برس کی عمر میں ہی ان کے والد عبد العلی خاں کا انتقال ہوگیا،
والدہ کی عمر بیوگی کے وقت ۲۷؍ برس تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد ۸؍سا
ل علی گڑھ میں گزارکر بی اے کی ڈگری حاصل کی، میر محفوظ علی کے مطابق وہ
کلاس میں لکچر سنتے، فیلڈ میں کرکٹ کھیلتے اور یونین میں تقریر کرتے تھے،
ان کے بڑے بھائی شوکت علی نے روپے کا انتظام کرکے انہیں آکسفورڈ یونیورسیٹی
میں داخلہ دلوادیا، جہاں سے انہوں نے تاریخ جدید میں بی اے آنرز کی سند
حاصل کی، ان کی ذھنی وفکری تربیت میں ان کی والدہ بی اماں کا بڑا رول تھا،
مولانا محمد علی کے دل میں ملت اسلامیہ کا بڑا درد تھا، ان کی خدمات کئی
لحاظ سے قابل قدر ہیں، ملک کی آزادی کی جد وجہد، تحریک خلافت، اشاعت تعلیم،
فروغ اردو، عوامی بیداری بذریعہ صحافت، اور اپنی مخلصانہ کوشش وکاوش میں وہ
بہت کامیاب رہے۔
برطانوی حکومت نے جب کلکتہ کے بجائے دہلی کو ہندوستان کی راجدھانی بنانے کا
فیصلہ کیا تو محمد علی نے ’’کامریڈ‘‘ کا دفتر بھی 14؍ستمبر 1912کو دہلی میں
منتقل کرلیا، اور 12؍ اکتوبر کو یہیں سے ’’کامریڈ‘‘ کا پہلا شمارہ شائع
کیا، انہوں نے مسلمانوں کی آسانی کے لئے ’’نقیب ہمدرد‘‘ نامی اردو پرچہ کا
اجرا کیا، جو بعد میں روزنامہ ہمدرد کے نام سے مشہور ہوا، باشندگان ہند کو
آزادی وطن کے لئے بیدار اور تیار کرنے کی غرض سے مولانا نے صحافت کو موثر
ذریعہ بتایا، اس کے ساتھ ساتھ وہ تحریک خلافت کے لئے مسلسل اسفار کرتے رہے۔
۹؍ جنوری 1920کو مولانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دہلی پہنچے
تو چاندنی چوک پر ان کا شاندار استقبال ہوا، خواجہ حسن نظامی نے استقبالیہ
پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’…… دہلی کی سر زمین پر کتنے ہی عظمت وجلال والے
تاجدار اور شاہزادے اور حکام بلند مقام آئے اور چلے گئے لیکن سلطنت مغلیہ
کے خاتمہ کے بعد سے آج تک اس خلوص وعقیدت کے ساتھ شاید ہی کسی شخص کا خیر
مقدم کیا گیا ہو‘‘
تحریک خلافت نے ملک میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی ہر فرد کے دل میں علی
برادران کے لئے محبت جاگزیں ہوگئی، اس تحریک نے انگریزی اسکولوں، کالجوں
اور سرکار کی نگرانی میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو چھوڑ دینا فرض
قرار دے دیا، چنانچہ تعلیمی محاذ پر ترک موالات کے لئے مولانا محمد علی نے
علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے پہل کی۔
بالآخر 29اکتوبر کو جمعہ کے دن ایم اے او کالج کی مسجد میں بعد نماز جمعہ
’’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘‘ کی رسم افتتاح شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے
ہاتھوں ادا ہوئی۔ حکیم اجمل خاں اولیں امیر جامعہ، مولانا محمد علی پہلے
شیخ الجامعہ، حاجی موسی خاں سکریٹری، اور تصدق احمد شیروانی جوائنٹ سکریٹری
مقرر ہوئے۔
مولانا محمد علی نے 22نومبر 1920کو فاؤنڈیشن کمیٹی کے جلسے میں یہ تجویز
منظور کرالی کہ جب تک نیا نصاب تعلیم تیار ہوکر نہیں آجاتا مجوزہ نصاب ہی
کو اصلاح وترمیم کے ساتھ جاری رکھا جائے اور اس میں دینیات کے مضمون کا
اضافہ کردیا جائے۔
اس موقع پر ایک نصاب کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں مولانا محمد علی ، ڈاکٹر
سر محمد اقبال، مولوی عبد الحق، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین
کچلو، مولانا آزاد سبحانی، مولوی صدر الدین، ڈاکٹر انصاری، محی الدین،
مولانا شبیر احمد عثمانی، مولوی عنایت اﷲ، پرنسپل ایس کے رودرا، پرنسپل
گڈوانی، پروفیسر سہوانی، سی ایف اینہ ریوز، جواہر لال نہرو، راجندر پرشاد
اور سید سلیمان شامل تھے۔
اس عمومی نصاب پر غور وخوض کے بعد مولانا محمد علی جوہر کی خصوصی نگاہ
دینیات کی طرف متوجہ ہوئی چونکہ محمد علی مسٹر سے مولانا ہوچکے تھے اور
جدید وقدیم پر ان کی نگاہ ماہرانہ تھی، انہوں نے پھر دینیات کے نصاب کے لئے
خصوصی کمیٹی تشکیل کی، جس میں مولانا آزاد سبحانی، مولانا سلامت اﷲ، مولانا
صدر الدین، مولانا عبد القیوم، مولانا داؤد غزنوی، مولانا عبد الماجد
بدایونی، مولانا عبد القادر، مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ مولانا محمد
علی جوہر خود بھی شامل رہے۔
ایام اسیری میں جھنڈوارہ میں قیام کے دوران وہ قرآن کریم کی تلاوت
اورباقاعدہ تفسیر کے مطالعہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے، اس لئے نصاب تعلیم
میں قرآن کریم، دینیات اور تاریخ کو فوقیت دینا چاہتے تھے اور اس ذہن کے
ساتھ نصاب تیار کئے جانے پر ان کی توجہ تھی، مولانا محمد علی جوہر کا نظریہ
تعلیم تجربات کی روشنی میں ان کے سامنے واضح ہو کر آ چکا تھا، وہ اس بات کو
محسوس کرتے تھے کہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کا منفی اثر ہندوستان کے
باشندوں پر پڑے گا اور ملت اسلامیہ کو اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی حساس
رہنا چاہئے، چنانچہ مصروفیت کے باوجود وہ نصاب تعلیم پر پوری توجہ دے رہے
ہیں اور اس کی جزئیات پر ان کی نگاہ بار بار جارہی ہے، اس لحاظ سے ان کی
نگاہ میں ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کا تصور بہت ارفع اور اعلی تھا،یہی وجہ ہے
کہ اسلامیات اور دینیات کے بلند پایہ عالم دین شیخ الہندحضرت مولانا محمود
حسن کے ذریعہ جامعہ کا افتتاح عمل میں آیا اور نصاب کمیٹی میں عصری علوم کے
ماہرین کے ساتھ نامور اور بالغ نظر علماء کی بڑی تعداد کو انہوں نے اس
کمیٹی میں شامل رکھا، اس سے ان کے تعلیمی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر
یوسف حسین اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:-
’’مولانا محمد علی جوہر جب بولتے تھے تو فصاحت وبلاغت کا دریا بہادیتے،
گھنٹہ دو گھنٹہ چارگھنٹے متواتر تقریر کا سلسلہ جاری رہتا، مولانا محمد علی
کا بولتے بولتے گلا پڑ جاتا اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔‘‘
ان کی تاریخی تقریر کا یہ حصہ جو انہوں نے گول میز کانفرنس لندن میں کی تھی
ملاحظہ فرمائیں’’میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا بشرطیکہ وہ آزاد
ملک ہو پس اگر ہندوستان میں تم ہمیں آزادی نہ دوگے تو یہاں میرے لئے ایک
قبر تو تمہیں دینی پڑے گی‘‘
۴؍ جنوری 1931کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں جہاں ان کا
قیام تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اولین شیخ الجامعہ ، ہندوستان کے صف اول
کا رہنما اپنے وطن سے دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگیا، مفتی اعظم فلسطین
سید امین الحسینی کی خواہش کا احترام کیا گیا، جنہوں نے مولانا کے جسد خاکی
کو بیت المقدس میں دفن کرنے کی تمنا ظاہر کی تھی اور اس طرح مولانا کے جسد
خاکی کو پیغمبروں کے مدفن اور قبلۂ اول میں دفن کیا گیا، مولانا کی قبر پر
انہیں کا ایک شعر آج بھی لکھا ہوا ہے۔
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کُھلے
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے فرمایا
’’محمد علی کی زندگی کابیان در اصل ایک قوم اور ایک ملت کے حال اور مستقبل
کی تفسیر کرنا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کے قائد تھے اور
نمائندہ بھی۔‘‘
برطانوی ادیب ایم جی ویلز کا محمد علی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ
’’محمد علی نے برک کی زبان، میکالے کا قلم، اور نپولین کا دل پایا ہے‘‘
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ان پر باضابطہ مرثیہ لکھا ہے۔
بقول مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ’’انہوں نے حق کہنے میں نہ اپنے شیخ
طریقت مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی پرواکی نہ اپنے سب سے محترم ومحبوب
شریک کار اور جنگ آزادی کے رفیق کار گاندھی جی کی، نہ اس وقت کی سب سے بڑی
سلطنت (برطانیہ) کے وزیر اعظم کی، نہ سب سے زیادہ قابل احترام سرزمین کے
فرمانروا اور بانئی سلطنت سلطان عبد العزیز ابن سعود کی، انہوں نے ہر جگہ
حق بات کہی اور صاف وبے لاگ کہی۔‘‘
مولانا محمد علی جوہر کی غیرت دینی اور حمیت اسلامی مسلمانان ہند کے لئے
مشعل راہ ہے، انہوں نے وطن عزیز کے لئے جو قربانی دی وہ ناقابل فراموش اور
ملت کی شیرازہ بندی، ان کی تعلیمی ترقی اور جدید وقدیم مواد پر مشتمل نصاب
کی تیاری سے ان کے تعلیمی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے، انہوں نے جدید اعلی
تعلیم کے حصول کے بعد بھی اپنی مذہبی شناخت کو اہتمام کے ساتھ نہ صرف قائم
رکھا بلکہ اس کے داعی اور مبلغ ہوگئے، ہمیں ان کے اچھے کارناموں کو یادبھی
رکھنا ہے اور ان اچھائیوں کو اپنی عملی زندگی میں نافذ بھی کرنا چاہیے۔
مولانا محمد علی کی زبان سے نکلے بعض اشعار ان کے موقف کی پوری ترجمانی
کرتے ہیں۔
توحید تو یہ ہے کہ خداحشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جوہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے |