کیازندوں میں کوئی زندہ دل بھی ہے ..؟

 کیازندوں میں کوئی زندہ دل بھی ہے ..؟لوگوں پریشانیوں کو شئیرزکرو تومسائل حل ہوں..
کیا واقعی وزیراعظم نوازشریف کی کاروبار ی قرضہ اسکیم سفارش اور تعلقات سے پاک ہے...؟

آج ہمیں اپنے سابق حکمرانوں کے کرتوتوں کا کیارونادھونا...؟وہ تو لوٹ ماراور اقرباپروی کرنے کے لئے ہی آئے تھے اور یہی کچھ کرکے اپنے تابوتوں میں کیلیں ٹھکواکر لوٹ گئے ہیں مگرآج افسوس تو اِس بات کا ہے کہ مئی 2012کے انتخابات کے بعدجمہوریت کا جھنڈابلندکئے جو حکمران مسندِ حکمرانی پر قابض ہوئے ہیںآج اگر اِن کے سات ماہ کے ہی کارناموں کاجائزہ لیاجائے تومعلوم یہ ہو گاکہ اِن کے کرتوت بھی اپنے پچھلوں سے کچھ مختلف نہیں ہیں، آج ایسے لگتاہے کہ جیسے اِنہوں نے تو سب کو پیچھے چھوڑنے کی ٹھان رکھی ہے، مُلک میں مہنگائی اور معاشی ترقی کی بدحالی اورقومی اداروں کی نج کاری کی اُوٹ اور نوجوانوں کو قرض دینے کے ڈرامے میں سوارب کی رقم سے اپنے رشتے داروں اور پیاروں کو بہانے بہانے سے نوازنے کا جوبازارگرم ہے آج اِس پر ہر محب وطن شخص اضطرابی کیفیت میں مبتلاہے، اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا ایسانہیں ہے جیسامیں نے بیان کیا ہے..؟ اگر ایسانہیں ہے تو پھرکیاآج میری طرح اور میرے دوست کی طرح کروڑوں پاکستانی ایسے نہیں ہیں،جو آج یہ سوچ رہے ہیں کہ کیانوجوانوں کے سوارب دی جانے والی رقم میں سے کچھ حصہ میرے بھائیوںاور اُن غریبوں کے بچوں کو بھی مل پائے گاجن کا اِس سرزمین پاکستان میں اُوپراللہ اور نیچے وزیراعظم میاں نوازشریف اور اِن کے اِس قرضے پروگرام کی سربراہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نوازکے سواکوئی نہیں ہے،کیا وزیراعظم نوازشریف کی قرضہ اسکیم واقعی سفارش اور اقرباپروی سے پاک ہے..؟اوراِس معاملے میں وزیراعظم اور اِن کے وزراءکی سفارش نہیں چلے گی..؟کیا واقعی میرٹ پر نوجوانو ن کو قرضے دیئے جائیں گے..؟اگرایسانہیں ہواتو پھر وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اور نوجوان قرضہ اسکیم کی انچارج مریم نواز کو میرے تین بھائیوں کے لئے بھی قرضے دینے ہوں گے یکدم ایسے ہی جیسے کہ یہ دوسروں کو اپنی ذاتی دلچسپی اور تعلقات کی بنا پر دیں گے۔

بہرحال ...؟آج میں اِسی کو بیس بناکر اپنے کالم میں اپنے ایک بزرگ اور شفیق دوست نظیر احمدکی طبیعت کا تذکرہ کررہاہوں جس سے یہ دوچارتھے بقول اِن کے کہ ”پچھلے کئی دِنوں سے طبیعت میں کچھ عجیب وغریب قسم کی بیزاری ہے،سمجھ نہیں آرہاہے کہ مجھ پر بیزاری اور اضطراب پن کی یہ کیفیات کیوں کر در آئی ہے..؟اِدھراُدھر سرپیٹنے کے بعد بھی میں سمجھ نہیں پایاکہ مجھ پر بیقراری اور پاگل پن کا یہ عالم کیوں کر طاری ہوگیاہے..؟بس بیٹھے بیٹھے یو ں ہی خیال آیا کہ اپنی اِس کیفیت کا اظہاراُس ایک شخص سے کردیاجائے جو اکثر(مُلکی اور سیاسی حالات کے حوالوں سے )اِس کیفیت سے دوچاررہتاہے، اور جیسے ہی میرے دل و دماغ میں اُس شخص کا نام آیا میں نے اُس کی گھر کی راہ لی اور اگلے ہی لمحے میں اُس شخص کے دروازے پر موجودتھا،یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ جس شخص کے پاس میں گیاہوں وہ شخص مجھ سے کئی گنازیادہ مصروف اور جان جوکھم کاموں میں لگارہتاہے ، یہ ماہِ رواں کے پہلے ہفتے کی کسی رات کے کوئی دس بجے کا وقت ہوگا، تب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ جاری تھی ،میرے چارسو اندھیراتھا، اور سناٹاایساکہ سوئی گرنے کی بھی آواز صاف سُنائی دے ،اورمیں اپنے ایک جاننے والے کے گھر کا مین دروازہ زورزورسے پیٹ رہاتھا، گھر کے اندر سے توکوئی جواب نہ ملا البتہ ...!محلے والے ضروراپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے،اِسی دوران ایک صاحب میرے قریب آئے اور اُنہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہاکہ ” ارے بڑے صاحب..!آپ جس گھرکا دروازہ بجارہے ہیں..اِن کی ساری فیملی اپنے کسی قریبی رشتے دار کی شادی کے سلسلے میں کہیں گئی ہوئی ہے، ہاں اخبار نویس صاحب رات گئے تک آئیں گے، اگرآپ کو اِن سے ہی ملناہے تو آپ کوابھی مزیددوگھنٹے انتظارکرناپڑے گا، اگرکرسکتے ہیںتو ٹھیک ہے ورنہ کل صبح تشریف لے آئیں ، “ اتناسُنناتھا کہ جیسے میرے جسم میں کسی نے آگ بھردی ہو اور میں غصے سے تپ کر رہ گیااور خاموش ہوگیا، وہ صاحب جو مجھے یہ بتارہے تھے، وہ غالباََ اِن کے پڑوسی تھے جن کے گھر میں آیاہواتھا، میں نے عافیت اِسی میں جانی کے کب کل کس نے دیکھی ہے، چلوآج اِن سے مل کرہی جاؤں گا، اورپتہ نہیں میری کل تک کیا کیفیت ہوجائے، مجھے اپنے اِس پاگل پن سے نجات صرف یہی ایک شخص ہے جو دلاسکتاہے، کوئی بات نہیں آج اگرمیں اپنے اِس مسیحاکے لئے دوگھنٹے انتظارکرلوں تواپنی جان پر کوئی ظلم نہیں کروں گا، اور یہ سوچ کر میں قریب ہی قائم ایک چائے خانے میں چلاگیا، اَب وہاں میں نے جس طرح اپنے محسن کے انتظارمیں دوگھنٹے گزارے یہ تو میں ہی جانتاہوں ،یا میراخداجانتاہے کہ اِس دوران مجھے کیسے کیسے...؟پریشان حال لوگوں اور طرح طرح کے مسائل سے دوچارافراد سے واسطہ پڑا، مجھے لگاکہ جیسے میرامسئلہ تو کچھ بھی نہیں ہے، یہاں تو ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں ، جن کی پریشانیاں اور مسائل مجھ سے زیادہ پیچیدہ اور گھمبیرہیں مگر یہ سب کے سب اپنے اتنے سارے مسائل اور پریشانیوں کی گٹھڑی اپنے سروں پر اُٹھائے ہوئے اپنی زندگیاں گھسیٹ رہے ہیں ، یوں جتنی بھی دیرمیں چائے خانے میں رہااِس دوران میں نے لوگوں کی سرگوشیاں بھی سُنیں، سب ایک دوسرے کو اپنی اپنی پریشانیاں سُنارہے تھے، الغرض یہ کہ یہاں پر ایک مجبوردوسرے مجبور کا حوصلہ بڑھارہاتھا، اور دونوںخودکو اگلے مرحلے کے لئے پُرعزم بنارہے تھے، چونکہ میں اِس چائے خانے میں اجنبی تھااِس لئے میں کسی کو اور کو ئی مجھے اپنی ببتانہیں بتارہاتھا، یہاں مگرمجھے اکیلے رہ کربھی اتناحوصلہ ملاکہ میں اپنی اضطرابی کیفیت کو سمجھنے لگاتھا، اَب میں چائے خانے سے نکلنے سے قبل وہ پہلے والا نظیراحمدنہیں رہاتھا جیسامیں اِس چائے خانے میں آنے سے پہلے تھا، اَب کم ازکم مجھ میں ایسی کوئی کیفیت باقی نہیں تھی، جیسی پچھلے کئی دِنوں سے مجھ پر طاری تھی، اَب میں اپنامحاسبہ کرنے لگاتھا، اور سوچنے لگاتھاکہ اِنسانوں کے جس معاشرے میں، میں زنددہ ہوں اِس میں کوئی بھی زندہ دل نہیں ہے، مجھے لگنے لگاتھاکہ سب کسی نہ کسی طرح زندہ رہ کر بھی افسردہ دل ہیں-

سب کی اپنی اپنی پریشانیاں اور مسائل ہیں ، بس صرف ضرورت اِس امرکی ہے کہ ہم اپنے مسائل اور پریشانیاں ایک دوسرے سے شیئرزکریں تو اِس طرح آج ہمارے معاشرے میں وہ مسائل اور پریشانیاں جو ذہنی دباؤ اور عصاب شکن وجوہات کی بِناپر جنم لیتی ہیں وہ بڑی حدتک کم اور ختم ضرورہوسکتی ہیں ۔

اَب جب میں دوگھنٹے چائے خانے میں گزارکرباہر نکل رہاتھا ، میں خود کو تازہ دم اور بڑی حدتک ہلکاپھلکامحسوس کررہاتھا، اگرچہ رات کے بارہ بج چکے تھے، اور علاقے میں بجلی بھی آچکی تھی ، اتنی رات کو ایسامحسوس ہورہاتھاکہ جیسے زندگی رواں دواں ہے، سرد رات کی جسم کو چھوتی سردی بھی اپنا ایک الگ مزہ دے رہی تھی، اور میں اپنے دوست جو مجھ سے عمر میں بہت چھوٹاہے مگریہ دنیاوی معاملات کے دیگرحوالوں سے ایک اچھامشاہدہ رکھتاہے،اور اگلے ہی لمحے میں اُس کے گھرکے دروازے پر موجودتھا، اِس مرتبہ میں نے دروازہ پیٹنے کے بجائے، دروازے کے ساتھ ہی لگی بجلی کی بیل بجانے کی سہولت حاصل کی یوں ابھی میں نے ایک آدھ بیل ہی بجائی تھی کہ میرادوست (یہ راقم الحرف ) باہر آیااور اِس نے مجھ سے بغل گیرہوکراتنی رات گئے تشریف لانے کی وجہ پوچھی تو میں نے اپنی ساری کیفیات سے اُسے آگاہ کیا اور اِسے بتایاکہ اُس سے ملاقات سے قبل جو میری کیفیت تھی،اِس سے مجھ پر پاگل پن کا اثرلگتاتھامگرجتنی دیرمیں اِس کے محلے کے چائے خانے میں بیٹھارہااوروہاںآنے جانے والے لوگوں کی باتیں اور پریشانیاں سُنی تو مجھے یہ اندازہ ہواکہ میرے مسائل اور پریشانیاں تو کچھ بھی نہیں ہیں میں نے تویوں ہی اِنہیں اپنے دماغ ودل پر سوارکرکے خودکو پاگل بنارکھاہے،اِس دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جن کے مسائل اور پریشانیاں مجھ سے بھی زیادہ ہیں،میں اپنے مسائل اور پریشانیاں مسٹرمحمداعظم عظیم اعظم تم سے شیئرزکرنے آیاتھاکہ تم میری پرابلمز سُنوگے اور جب تم مجھ سے شیئرزکروگے اور میرے مسائل اور پریشانیوں کو اپنے کالمزکا حصہ بناؤ گے تومیری اضطرابی کیفیت ختم ہوگی ،مگریارجب تم نہیں ملے تو میں نے تمہاراانتظارسامنے والے چائے خانے میں بیٹھ کرکیاتویار اِس دوران مجھے وہا ں لوگوں کے مسائل اور پریشانیاں سُن کریوںلگاکہ جیسے واقعی میری پریشانیاں اور مسائل توکچھ بھی نہیں ہیں اِس دنیا میں تو ایسے ایسے لوگ بھی موجودہیں، جن کے مسائل اورپریشانیاں بہت زیادہ گھمبیراور لرزہ خیزہیں،مگریارہم اِن سے مقابلہ شئیرزکرکے ہی کرسکتے ہیںورنہ تو سب بیکار ہے۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِس حکومت کے مہنگائی اور کرپشن کے موجودہ دورنے ہر اِنسان کو ذہنی مریض بنادیاہے اور ایسے میں جب اِنسان کا دماغ مفلوج ہوجائے تو اِس کے پاس سِوائے مایوسیوں اور نااُمیدوں کے کچھ نہیں رہ جاتاہے،لہذاآج جن حالات میں ہم سب زندہ ہیں ہمیں آپ میں ایک دوسرے کے مسائل اور پریشانیاں ضرورسمجھنی چاہئیںاور ایک دوسرے کے قریب ہوکراِس کے دُکھ دردکا ضرور مداوا کرنا چاہئے،اِس یقین کے ساتھ کہ ہم ایک مایوس قوم کے انتہائی مایوس فرزندتوضرورہیں مگرہم میں زندہ رہنے اورآگے بڑھنے کی آرزوبھی ضرورموجودہے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972257 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.