مفکر اسلام اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کی صحافتی
بصیرت نے قوم کوراہ عمل مہیا کی
قلم کی بابت خالق وارض وسما کا ارشاد ہے’’ن والقلم وما یسطرون‘‘ترجمہ:قلم
اور ان کے لکھے کی قسم(سورۃالقلم،پ۲۹،آیت۱،کنزالایمان)مفسرین فرماتے ہیں’’اﷲ
تعالیٰ نے قلم کی قسم ذکر فرمائی اس قلم سے مراد یا تولکھنے والوں کے قلم
ہیں جن سے دینی دنیوی مصالح و فوائد وابستہ ہیں اوریا قلمِ اعلیٰ مراد ہے
جو’’نوری قلم‘‘ہے اور اس کا طول فاصلۂ زمین و آسمان کے برابر ہے اس نے بحکم
الہٰی لوحِ محفوظ پرقیامت تک ہونے والے تمام امورلکھ دیئے۔‘‘(تفسیر خزائن
العرفان)بہر حال دونوں معنی میں اہمیت ِقلم اور عظمتِ تحریر مشترک ہے۔قلم
کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ماہر رضویات مسعود ملت سعادت لوح و قلم پروفیسر
ڈاکٹر مسعود احمد(متوفی۱۴۲۹ھ؍۲۰۰۸ء)فرماتے ہیں:’’قلم اﷲ کی امانت ہے،قلمکار
قلم کا امین ہے․․․․․․․․امانت کا احساس قلم کو سنبھالے رکھتا ہے،جس نے امانت
مین خیانت کی وہ قلم کار نہیں خطا کار ہے۔‘‘(جواہر مسعودیہ،ادارۂ مسعودیہ
کراچی۲۰۰۶،ص:۳۵)مذکورہ اقتباس میں قلم کی اہمیت کا احساس دلایا گیاتاکہ قلم
کا استعمال دیانت و انصاف کے ساتھ کیا جائے،ماضی قریب کا جائزہ لیں،امت
مسلمہ میں انتشارو افتراق پھیلانے کے لئے جو افراد سبب بنے انھوں نے اپنے
قلم کامنفی استعمال کیااور حق سے روگرداں ہوکراپنے قلم کو باطل عقائد کی
تشہیر کے لئے استعمال کیا۔نباض قوم و ملت حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے قول
سے بھی عظمتِ قلم وتحریراُجاگر ہوتی ہے،آپ نے فرمایا:’’تقریر سب سے آسان،اس
سے مشکل تدریس اور سب سے مشکل ’تصنیف ۔ ‘‘ (حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے
اقوالِ زرّین،مرتب:مولانا محمد عبدالمبین نعمانی قادری،ص؍۳)
قلم کا اندازہ اس تاریخی روایت سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت مریم علی
ابنھاوعلیہاالسلام کی کفالت کے متعلق ہے۔حضرت مریم علی ابنھاوعلیہاالسلام
کی پرورش کے لئے حضرت زکریا علیہ السلام کے ساتھ کئی لوگ دعویدار تھے۔ہر
ایک کی یہی خواہش تھی کہ آپ کی کفالت کا حق مجھے ملے،تب اﷲ پاک نے کفالت کے
فیصلے کے لئے قلم ہی کو فیصل بنایا ۔(تذ کرۃالانبیاء)قلم کا مفہوم بڑا وسیع
ہے ،اﷲ رب العزت کے فرمان سے قلم کی افادیت واضح ہوتی ہے غرضیکہ ہر دور میں
تحریر وقلم کی اہمیت مسلم رہی۔خود شاہکارِدستِ قدرت مصطفی جانِ رحمت ﷺنے
جنگ بدر کے قیدیوں کی رہائی کا فدیہ یہی مقرر فرمایا تھا کہ وہ لوگ انصار
کے دس دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دے۔(سیرتِ مصطفی ﷺ،ص؍۱۸۳)
الیکٹرانک میڈیا بڑا برق رفتار واقع ہوا لیکن پرنٹ میڈیا نے بھی اپنی اہمیت
برقرار رکھی اور اس سلسلے میں اخبارات و جرائد کی اشاعت ہر روز بڑھ رہی ہے۔
ان کے توسط سے جہاں لادینی نظریات، صہیونی افکار و خیالات عام ہو رہے ہیں،
یہودی سازشیں اپنا دائرہ وسیع کر رہی ہیں وہیں بہ نام اسلام وجود میں آنے
والے باطل اور گستاخ فرقوں کے گم راہ کن نظریات آن کی آن میں مسلم معاشرے
میں پھیلتے جا رہے ہیں، ان کے جرثومے میڈیا اور صحافت کے ذریعے پنپ رہے ہیں
اور فضا مسموم ہوئی جاتی ہے۔ ایک صدی پیش تر ( ۱۳۳۰ھ / ۱۹۱۱ء میں)جب کہ
میڈیا اور صحافت کی اہمیت اجاگر نہیں ہوئی تھی مفکر اسلام اعلیٰ حضرت امام
احمدرضا محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) نے اشاعت دین، ابلاغ حق اور دین متین
کے فروغ کی غرض سے اسلامی صحافت کے قیام و استحکام پر زور دیا تھا، آپ کے
افکار کا اہم نکتہ یہ تھا:’’آپ کے مذہبی اخبار شایع ہوں اور وقتاً فوقتاً
ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بہ قیمت و بلا قیمت روزانہ
یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱۲،ص۱۳۴)ایک صدی قبل
امام احمد رضا نے قوم کو با خبر کر دیا تھا، جاگنے کا پیغام دیا تھا، اسلام
کی اشاعت کے لیے صحافت اور جدید ذرایع ابلاغ (جو شریعت کے دائرے میں ہوں)
کے استعمال کی دعوت دی تھی۔ قوم کی بے خبری کا یہ حال کہ آج صحافت کے
تقریباً ہر شعبے پر اسلام دشمن لابی حاوی ہے۔
اخبار دبدبۂ سکندری میں شایع ایک تحریر میں امام احمد رضا فرماتے
ہیں:’’عوام میں اشاعت خیالات کا سہل ترذریعہ اخبارات ہیں، بہ استثنا بعض وہ
خود آزادی کے دل دادہ ہیں۔ بد مذہبی بلکہ لامذہبی کے خیالات آئے دن شایع
ہوں وہ نہ جھگڑا ہے نہ نفسانیت مگر حق کی تائید اور اس کے لیے اپنا کوئی
صفحہ دینا جھگڑے میں پڑنا اور نفسانیت پر اڑنا ہے۔‘‘ (کلیات مکاتیب رضا،
دوم، ص۳۴۵)
متوسلین رضا کا صحافتی پس منظر
فکر رضا کے صحافتی نکتے پر عہد رضا میں متوسلین رضا نے کسی قدر توجہ مرکوز
کی اور عملاً کام بھی کیا۔ امام احمد رضا نے اسلامی صحافت کی آبیاری خود
بھی کی اور اس کی رگوں کو تازہ خون بھی فراہم کیا۔ متوسلین رضا جنھوں نے
صحافت کی وادی کو زرخیز بنایا اور اپنے اخبارات و رسائل کے توسط سے اشاعت
دین و اصلاحِ مسلمین کا کام لیا، ان کی ایک مختصر فہرست اس طرح ہے:
(۱) ہفت روزہ دبدبۂ سکندری، رام پور (۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں جاری ہوا، کام یابی
کے ساتھ قریب ایک صدی جاری رہا۔)
(۲) اخبار روز افزوں، بریلی (برادرِ رضا مولانا حسن رضا خاں کی سرپرستی میں
جاری ہوا۔)
(۳) اخبار الاسلام افریقا (۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں خلیفۂ رضا مولانا احمد مختار
میرٹھی نے جاری کیا، اخبار کا مزاج داعیانہ تھا۔)
(۴) ہفت روزہ الفقیہ امرت سر (۱۹۱۸ء میں خلیفۂ رضا مولانا محمد شریف کوٹلوی
نے جاری فرمایا۔)
(۵) ہفت روزہ اہل فقہ امرت سر(۱۳۲۴ھ میں جاری ہوا۔)
(۶) ماہ نامہ الرضا بریلی(صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے زیر اہتمام
اورمولانا حسنین رضا کی ادارت میں ۱۳۳۸ھ میں جاری ہوا۔)
(۷) ماہ نامہ انجمن نعمانیہ لاہور (انجمن نعمانیہ کے صدر ثانی مولانا شاہ
محرم علی چشتی ،امام احمد رضا سے قلبی وابستگی رکھتے تھے، دینی و قومی اور
فکری معاملات میں رہ نمائی لیتے تھے۔)
(۸) ماہ نامہ السوادالاعظم مرادآباد (۱۳۳۸ھ میں خلیفۂ رضا مولانا سید محمد
نعیم الدین مرادآبادی نے جاری فرمایا، اسلامی اصولوں پر سیاسی رہ نمائی کی
اور حمایت دین میں نگارشات کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا ساتھ ہی دیابنہ اور
آریاؤں کے اعتراضات کے بروقت جوابات شایع کیے۔)
(۹) ماہ نامہ تحفۂ حنفیہ پٹنہ (اس کا اجرا خلیفۂ رضا مولاناقاضی عبدالوحید
فردوسی نے ۱۳۱۵ھ میں فرمایا، ادارت کے فرایض مولانا ابوالمساکین محمد ضیاء
الدین نے انجام دیے، اس رسالے نے عقائد اہل سنت کی حمایت میں موثر کردار
ادا کیا، امام احمد رضا کی درجنوں علمی و تحقیقی تصانیف کی با ضابطہ اشاعت
کی۔)(یادگاررضا،۲۰۱۱)ان رسائل و اخبارات نے اسلامی صحافت کو فروغ دیا، بر
صغیر میں انگریز کے زیر اثر وجود پانے والے لا دینی نظریات کا دنداں شکن
جواب دیا۔ لیکن افسوس کہ اپنوں کی بے اعتنائی نے ان کی رگوں کو خونِ تازہ
فراہم نہیں کیا، ان میں کچھ تو کم مدت میں دم توڑ گئے اور بعض کافی آگے تک
پہنچے اور ہندوستان میں اسلامی صحافت کی ایک مثال قائم کر گئے۔(یادگاررضا)
ضرورت اس بات کی ہے کہ امام احمد رضا کے افکار پر عمل کر کے قوم کی صحیح رہ
نمائی اور فکری تربیت کی جائے ،ذرایع ابلاغ کا استعمال اسلام کی اشاعت کے
لیے کیا جائے تو فکر کے گلستاں میں بہار آجائے گی اور عقیدہ و ایمان تازہ
ہو اٹھیں گے۔ |