صدی کا لیڈر

صدی کا لیڈر! نیلسن منڈیلا اب اس دارِ فانی سے رخصت ہو چکا ہے۔نسلی امتیاز کے خلاف جد و جہد کا ایک عظیم باب بند ہوگیا۔ اطلاع کے مطابق ایک فقید المثال الوداعی تقریب کی صورت میں ان کی آخری رسوم 15؍دسمبر کو منعقد ہوگی۔ منڈیلا کو قید کے دوران ہی پھیپھڑوں میں انفیکشن کی شکایت لاحق ہو چکی تھی ، یہ بیماری آخر دم تک ان کے ساتھ چمٹی رہی اور بالا آخر اسی بیماری کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ نیلسن منڈیلا شہرت کے حامل بیسویں صدی کی آخری دہائی میں شہر ت کے اُفق پر ایک ایسا ستارہ بن کر چمکے جس کی چکا چوند سے دنیا کی آنکھیں خیرہ خیرہ ہو گئیں۔ ستائیس برس تک سفید فام حکمرانوں کے قید خانوں (جیل) میں صعوبتیں برداشت کرنے، قریب کے ساتھیوں کی جدائی کا غم اٹھانے اور ہم وطنوں پر ٹوٹنے والے مصائب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کے چہرے پر ہر دم پھیلی مسکراہٹ نے دولت درد کو دنیا سے چھپا دیا۔ایسا محسوس ہوتاہے جیسے موصوف آ ج کی دنیا کے واحد کردار ہیں جن سے شرق و غرب میں آباد لوگ گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ عصری سیاست پر نیلسن منڈیلا کی شخصیت اور فکر کی چھاپ تا دیر برقرار رہے گی۔ مصائب اور مشکلات سے عبارت ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے منڈیلا کو 1964ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں رہتے ہوئے ہی ان کا جواں سال بیٹا ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ چند ماہ بعد ماہ بھی چل بسیں لیکن کٹھور حکمرانوں نے انہیں ان لواحقین کے جنازے کو کندھا دینے کی اجازت بھی نہ دی۔عمرِ عزیز کے ۲۷؍برس قید خانوں کی زینت بنے رہے ۔ نسل پرست حکمرانوں نے ان کے عزم اور حوصلے کو توڑنے اور شخصیت کو مسخ کرنے کے لئے توہین اور تذلیل کا ہر حربہ استعمال کیالیکن اپنے مقصد میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔جنوبی افریقہ کے لوگوں پر گزرنے والی قیامت کی بھی عجیب کہانی ہے۔ صدیوں تک سفید فام اقلیت نے اکثریتی آبادی کو اچھوت بنائے رکھا۔ انہیں سرکار میں شراکت تو درکنار معمولی شہری آزادیاں اور انسانی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے سفید فام آبادی کو افریقن یا غیر سفید اقوام جنہیں رنگ دار بھی کہا جاتا تھا پر برتری دی گئی۔ سیاہ فام آبادی کے لیے پاس نامی شناختی کارڈ ساتھ رکھنا ضرور قرار دیا گیا۔ سیاہ فام لوگوں کی آبادیاں ، بازار، اسکول اور شفا خانے جدا جدا تھے۔ انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر سیاہ فام افراد کی تعیناتی کا تصور تک مفقود تھا۔ قانونی طور پر سیاہ فام آبادی کے مابین باہمی شادیوں کی ممانعت کی گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ بد ترین نسلی عصیبت کا مظاہرہ دنیا کی مہذب نسل کہلانے والے سفید فاموں کی جانب سے کیا گیا۔

ویسے تو جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کے حقوق اور نسل پرستی کے خلاف جد و جہد کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں ہوا۔ افریقی نیشنل کانگریس نے سیاسی حقوق کے حصول کے لئے اپنی جد و جہد میں بے بہا قربانیاں دیں۔ پولیس اور سیاہ فام مظاہرین کی جھڑپیں معمول کی بات بن چکی تھی۔ کتنے ہی شہری اس جد و جہد میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں اپنی جاں ہار گئے، ہزاروں زخمی ہوئے۔ جنوبی افریقی جیلیں اور عقوبت خانے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے جد و جہد کرنے والوں کا دوسرا گھر کہلاتا تھا۔ نوجوانوں کے ایک طبقے نے مسلح جد و جہد بھی شروع کی لیکن وہ سرکار کو سر جھکانے پر آمادہ نہ کر سکے بہت سارے بیرون ملک جاکر نسل پرستی کے خلاف سیاسی اور سفارتی محاذ پر سرگرم بھی ہوئے۔نیلسن منڈیلا جیل ہی میں تھے کہ انہیں حکومت کے ساتھ بات چیت کی دعوت دی گئی۔ ایک قیدی کو مذاکرات کی دعوت وہ بھی اس حال میں کہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشاورت کر سکتا ہے اور نہ انہیں اعتماد میں لے سکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی ایک چال بھی ہو سکتا ہے اور سنجیدہ پیشکش بھی۔ جولائی 2008ء میں ٹائم میگزین نے نیلسن منڈیلا سے ایک طویل انٹرویو کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شخص نے کس طرح اپنے حریفوں سے کامیاب مذاکرات کئے۔ تلخی اور تناؤ کے ماحول میں مفاہمت اور ایک دوسرے کو معاف کرکے ایک نئے ملک کی تعمیر کو ممکن بنایا۔ یہ ایک شاہکار کہانی ہے جس میں انہوں نے اپنی کامیابی کے آٹھ اصول بتائے ہیں جنہیں تفصیل سے ایک کالم میں پِرونا ممکن نہیں ہے لیکن چند ایک اہم نکات قارئین کی دلچسپی کے لئے درج کئے دیتا ہوں۔

نیلسن منڈیلا کہا کرتے تھے کہ یہ ممکن نہیں کہ حالات کے جبر کے ہاتھوں آپ پریشان یا خوفزدہ نہ ہوں لیکن آپ کو یہ خوف اپنے حامیوں پر ظاہر نہیں ہونے دینا ہے ایک بہترین قائد (لیڈر) وہ ہوتا ہے جو خود مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور اپنے حامیوں کو مشکلات کے سفر میں ساتھ لے کر چلتا ہے۔ منڈیلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ بسا اوقات رہنماؤں کو اصولوں پر ڈٹنے کے بجائے سیاسی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے ۔ ٹائم میگزین نے تو انہیں ماسٹر ٹیکٹیشین قرار دیا ہے۔ ان کی سیاست کا اصل محور دراصل جنوبی افریقہ سے نسل پرستی کا خاتمہ اور جمہوری نظامِ حکومت کا قیام تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ مقصد کے حصول میں مذاکرات ہوں یا کوئی دوسرا راستہ اسے اختیار کرنا یا نہ کرنا حکمتِ عملی سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ اصول سے۔

ایک اخبار نے جیل کے اُس کمرے کی تصویر بھی شائع کی ہے جہاں منڈیلا ستائس سالوں تک قید رہے۔ کمرے کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ منڈیلا کس قدر کسمپرسی کی حالت میں قید کاٹ رہے ہونگے۔ جہاں ایک بستر جو کہ زمین پر سونے کے لئے رکھا ہے اور ایک چھوٹی میز جسے عرفِ عام میں اسٹول کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ ایک پانی کا برتن رکھا ہوا نظر آتا ہے۔ منڈیلا نے تین شادیاں بھی کیں تھیں جن کے نام بالترتیب ایولین میس، وینی منڈیلا اور گریس میچل ہے۔

برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے اپنی اشاعت میں واضح کیا ہے کہ ان کی آخری رسومات جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے فٹ بال گراؤنڈ میں ادا کی جائیں گی۔ جس میں لگ بھگ پچانوے ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔ اور یہ وہی فٹ بال گراؤنڈ ہے جہاں انہوں نے ورلڈ کپ 2010ء کے فائنل میچ کی اختتامی تقریب کے شرکاء سے اپنی زندگی کا آخری تقریرکیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ سمیت برطانوی وزیراعظم اور دنیا بھر کے صدور و دیگر سربراہان ان رسومات میں شرکت کریں گے۔ منڈیلا کی جسدِ خاکی جنوبی افریقہ کے قومی پرچم میں لپیٹ کر ایک مقامی ایئر پورٹ سے ان کے آبائی گاؤں ’’قونو‘‘ تک لائی جائے گی۔ ان کی میت ان کے آبائی گھر کے صحن میں دفن کی جائے گی۔’’ قونو‘‘ وہی بستی ہے جہاں منڈیلا پیدا ہوئے۔ بچپن گزارا اور وہیں جانور چَرائے۔ افریکی حکومت کا کہنا ہے کہ منڈیلا کی آخری رسومات جنوبی افریقہ کی تاریخ کا ایک ایسا ریکارڈ ہوگا جو آج تک کسی لیڈر کو نصیب نہیں ہوا۔ اب دیکھیں کہ کیسا ہوتا ہے؟ یہ تقریب 15؍ دسمبر کو ہونا ہے۔ ویسے تو افریقہ کے لوگ منڈیلا کو احتراماً ’’ مادیبا ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ منڈیلا کے انتقال کا سرکاری طور پر اعلان جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے کی اور عوام سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اپنے عظیم رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے جلسہ گاہوں، چرچوں، مسجدوں اور مندروں میں پہنچیں۔ان کی پیدائش کے دن یعنی 18جولائی کو دنیا میں امن کے فروغ کے لیے’’ نیلسن منڈیلا ڈے‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے اورمنایا جاتا رہے گا۔

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.