میرا سے سبق سیکھیں

پاکستان میں اس وقت آباد ی کم و بیش آٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اس میں پاکستان کے چار صوبے ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر بھی شامل ہے یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے نقشے میں یا دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے اس کو ایک الگ ریاست یا بیس کیمپ کا درجہ دیا گیا ہے اصل میں یہ ہے پاکستان کی ہی لونڈی،یہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو پاکستان میں ہوتا ہے،یہاں وہی قانون،اصول سیاست،کرنسی،طریقے کار یہاں تک کے سانس لینے کا طریقہ بھی وہی ہے جو پاکستان میں ہے اس لئے اس کو کوئی الگ حصہ کہنا بس ایک ڈرامہ ہے،ہاں جب تک یہ آزاد ہو کے خود مختار نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کو پاکستان ہی کہا جائے تو بہتر ہے،تو بات ہو رہی تھی کہ پاکستان نام کا ایک اسلامی ملک ہے بلکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے دو قومی نظریہ اس کی بنیاد ہے اس کی اکثریت آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے کتابی ا عداد و شمار کے مطابق اس کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے باقی تیس فیصد شہروں میں ،کتابی عداد و شمار کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ یہاں پر جو بھی ہوتا ہے یا زیر بحث لایا جاتا ہے وہ کتابی ہی ہوتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،اس کی قومی زبان اردو ہے اس کے علاوہ لوکل ہر علاقے کی اپنی ایک زبان اور انداز گفتگو ہے ۔اردو قومی زبان ہونے کے باوجود بھی پورے ملک میں نہ بولی جاتی ہے اور نہ سمجھی جاتی ہے صوبہ سندھ اور پنجاب،خیبر پختون خواہ کے بہت سے دیہات ایسے ہیں یہاں پر اردو کا نام و نشان نہیں وہاں کے سکولوں میں بھی اردو برائے نام کی ہوتی ہے، مگر وہاں پر بھی وہی کچھ سنا جاتا ہے وہی قانون ہے جو ملک بھر میں ہے،اس کے علاوہ اگر عام شہروں اور بڑی آبادی والے دیہاتوں کی بات بھی کی جائے تو وہاں ہمارے والدین، بوڑھے، بزرگ اردو کو کم ہی سمجھتے ہیں مگر یہ ہماری قومی زبان ہے اس کو نہ سمجھنا یا اس پر توجہ نہ دینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کی کمزوری ہے جنہوں نے اپنے بچے تو دنیا کے مہنگے ترین سکولوں میں داخل کروا رکھے ہیں مگر عام آدمی کو سادہ تعلیم حاصل کرنا بھی میسر نہیں،اس ملک کی اسمبلیوں میں جو بھی بیٹھیں ہیں وہ ان کی ہی ووٹوں کی وجہ سے بیٹھیں ہیں چاہے وہ زبر دستی کے ہوں یا پھر دھاندلی کے نام تو ان کے لگا کر ڈالے جاتے ہیں،جب اس ملک کے ناخدا منتخب ہو کر آتے ہیں تو عوام بے چین ہوتی ہے ان کی آواز سننے کو ان کی تقریر سننے کو وہ یہ سوچتے ہیں کہ یہ بولیں گے تو شاید پھول جڑیں گے،مگر اس ملک کی عوام بھی سادہ اور معصوم ہے اسے اس بات کا اندازہ نہیں یا پھر وہ یہ جانتی نہیں کہ جن لوگوں کے ذہین غلام ہوں جو دوسروں سے متاثر ہونا اپنا اعزاز سمجھتے ہوں ان کو بلا کیا لگے کہ وہ اپنے کلچر کو اپنائیں،ہماری اسمبلیوں میں جب ان لیڈروں سے حلف لیا جاتا ہے تو وہ انگلش میں لیا جاتا ہے یعنی جس چیز کی بنیاد ہی کسی اور کے کندھے پر ہو تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی طاقت سے قائم رہے،میرے خیال میں حلف تو اردو میں بھی نہیں بلکہ عربی میں ہونا چاہئے ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری مذہبی زبان ہے ہم اگر اس کو عام طور پر بول نہیں سکتے تو حلف اٹھانے کے لئے سیکھ تو سکتے ہیں،جب ہمارے سیاست دان کسی نہ کسی طرح دھونس دھاندلی سے منتخب ہو کر اپنی کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو خبر آتی ہے کہ فلاں دن اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک عوام سے خطاب فرمائیں گے عوام اس دن اپنے اپنے کاموں سے چھٹی کرتے ہیں مزدور بھی یہ آس لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ آج ہمارے آقا کا خطاب ہے،بازار،پارک،ہوٹل،دفتر ہر جگہ پرریش ہوتا ہے لوگ بے تاب ہوتے ہیں،جیسے ہی صاحب اقتدار تمام تر پروٹوکول کے ساتھ اسٹیج پر آتے ہیں تو ان کی تقریر عام زبان میں نہیں نہ ہی اردو میں بلکہ وہ انگلش میں ہوتی ہے،جس سے یہ تاثر تو مل سکتا ہے کہ یہ صاحب کہیں نہ کہیں سے انگریزی کی کلاس لے کر آئیں ہیں،یہ تو لگتا ہے کہ انگریزوں کو سب سمجھ آتی ہوگی کہ یہ کیا بول رہا ہے مگر اپنے ملک کی عوام جن کی پرچی سے یہ یہاں تک آئے ہیں ان کو بھی سمجھ آتی ہے کہ نہیں ۔وہ لوگ ،وہ عوام جو مختلف جگہوں پر جمع ہوتے ہیں تقریر شروع ہوتے ہی وہ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک ادھ لفظ سمجھنے والا اگر کوئی بات بتا دے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے یہ کہا تو سب اس کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں کہ بتانا یہ کیا کہئے گا کیا ہماری تنخواہ بڑھائی ،کوئی پوچھتا ہے پنشن میں اضافہ ہوا،کیا کیا سستہ کیا،۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک کے رہنما سربراہ اصل میں اپنی عوام کے لئے نہیں بلکہ برطانیہ ،امریکہ والوں کو سنانے کے لئے تقریر کرتے ہیں ان کو کہتے ہیں سنو ہم کیا کہہ رہے ہیں اپنی عوام کو کیسے بے وقوف بنا کے آپ کے ایجنڈے پر کام کرنے آئے ہیں،ہمارے لوگوں کو سمجھ تو آتی نہیں ،جو کوئی سمجھتا بھی ہے اس کو بھی کونسا پورا ترجمہ کرنا آتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے تمام اداروں کے سربراہ اپنی ان پڑھ اور کم پڑھی لکھے ملازموں سے انگریزی میں خطاب کرتے ہیں ،فوج کا چیف اپنے سپائیوں سے انگلش میں بولے گا ان کو سمجھ آئے نہ آئے اردو ہماری قومی زبان کیوں قرار دی ہے جب اس کو بولنا نہیں ہے ،دفتروں میں بھی یہی رائج ہے ، کیا اپ کے سامنے چین ،جاپان،روس،ایران،اور دوسرے ممالک کی مثالیں سامنے نہیں ۔اگر ہمارے حکمرانوں کو ان ممالک کے رہنماوں سے کوئی سبق نہیں ملتا تو کم از کم اپنی ادا کارہ میرا سے ہی سیکھ لیں وہ چند دن پہلے برطانیہ میں کسی چندہ مہم پر گئی جب واپس آئی تو اس نے ائرپورٹ پر یہ وعدہ کیا کہ میں آئندہ انگلش نہیں بولوں گی اردو میری قومی زبان ہے میں نے یہی بولنی ہے ،مجھے اب اردو سے پیار ہو گیا ہے یہ ہماری پہچان ہے۔ اس ملک کے رہنماوں ،سربراہوں،عوام کے نا خداو،سیاہ سفید کے مالک کرسی اقتدار پر چپٹے لوگو، جاو میرا سے پوچھو کی اس نے وہاں جا کر ایسا کیا کھایا کہ اسے اپنی زبان،اپنے ملک،اپنے بولی سے پیار ہو گیا،تم بھی وہی کھا لو۔یہ اسمبلیاں یہ ایوان تو عوام کی آواز ہوتے ہیں کیا آپ یہ آواز عوام تک پہنچاتے ہو،کیا عوام کو آپ کی بات سمجھ آتی ہے،جو قومیں اپنی زبان بھول جاتیں ہیں ،جو دوسروں کا البادہ اڑنے میں اپنی ترقی سمجھتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔عام آدمی کی بات چھوڑ دو اگر تم آج اپنے لکچر کو اپناو کل یہ ملک سار ا تمہارے نقش قدم پر چلے گا ،تم عوام کو سستی روٹی نہیں دے سکتے،سستہ سفر نہیں دے سکتے،نوکریاں نہیں دے سکتے ،ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کو ان کی زبان تو دے تو ان کو ان کے الفاظ تو دے دو تاکہ ان میں اتنا تو اساس ہو کہ ہماری سرکاری زبان ہماری قومی زبان ہے ،ہم سے انٹرویو اپنی زبان میں لیا جائے گا۔ہم سے بات اپنی زبان میں کی جائے گی۔جب تک اپنی میراث کو نہیں اپناو گے تب تک ترقی ممکن نہیں۔۔۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69534 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.