فیصلہ عوام کرے گی۔۔۔!

یہ 1801ء کی بات ہے جیمز مارشل امریکی چیف جسٹس بنے اس وقت امریکی معاشرے میں لاقانونیت سر چڑھ کر بول رہی تھی اس معاشرے کو وحشیوں کا معاشرہ کہا جاتا تھا عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کے ساتھ تو کیا کہیں دور کھڑی بھی نظر نہیں آتی تھی۔جیمز مارشل آگے بڑھے اور عوام کی آواز بن گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے برابرلا کھڑا کر دیا۔ آج کہ امریکی معاشرے کی تصویر یکسر مختلف نظر آتی ہے آج ماضی کے وحشی معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہے۔برطانوی قانون دان جون کک کی مثال دیکھیں وہ بدعنوانیوں کے خلاف بولتے رہے یہاں تک کہ انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا آج تاریخ جون کک اور جیمز مارشل کے کردار کی گواہ بن چکی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ آف پاکستان کے بیسویں چیف جسٹس تھے 9مارچ 2007ء کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت اعظمٰی کے منصف اعظم کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر معطل کیا گیا تھا۔معطلی کے خلاف افتخار چودھری نے عدالت اعظمٰی میں مقدمہ دائر کیا۔ 20 جولائی 2007ء کو عدالت نے تارٰیخ ساز فیصلے میں افتخار محمد چوہدری کو عہدے پر بحال کر دیا اور صدارتی ریفرنس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے نتیجہ میں افتخار چودھری اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہو گئے۔

انھوں نے نے سپریم کورٹ کو مظلوم عوام کی امید بنایا۔ انہوں نے خود کوآئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے والوں کو قانون کے نیچے لانے کے لیے متعدد اہم فیصلے کیے اور سب کو عدالت کے سامنے جواب دہ کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد سے 850سے زائد فیصلے تحریر کیے اور اپنے ان دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلوں سے پاکستان کی عدلیہ کو اتنا با وقار اور سربلند کر دیا ہے آج شاہراہ دستورپر ایستادہ سفید عمارت سپریم کورٹ پاکستان کے مجبور اور پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید بن چکی ہے۔ فوجی ڈ کٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سامنے ان کے تاریخ ساز انکارسے قانون کی بالادستی کی تحریک شروع ہوئی اور نظریہ ضرورت پر چلنے والی عدلیہ ایک عظیم خود مختار اور طاقت ور ادارے میں بدل گئی۔ اعلیٰ عدلیہ نے ڈکٹیٹر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا، اسے غاصب قرار دیا تو وہیں آج کی سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے تاریخی کوڈ آف کنڈ کٹ بنا کر کہ کوئی جج فرد واحد کا حلف نہیں اٹھائے گا فوجی آمریت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔قانون کی حکمرانی کا نعرہ بلند کرنے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دو مرتبہ ان کے عہدے پر فرائض ادا کرنے سے خلاف آئین روکا گیا گھر پر بھاری نفری تعینات کر کے کئی ماہ بچوں سمیت نظر بند رکھا گیا گیا لیکن قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حصول کے لیے تڑپتے پاکستان کے عوام نے بے مثال جدو جہد کے ذریعے قانون کا مذاق اڑانے والوں کو شکست دی بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جوڈیشل ایکٹوزم کے ذریعے بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کے عادی لوگوں میں تھر تھلی مچا دی، عدلیہ کے خوف سے کھلم کھلا لوٹ مار کا کلچر دم توڑنے لگا، ظلم و بربریت کے اس بازار میں جہاں حکومت عوام کے مسائل سے لاتعلق تھی، سینکڑوں معاملات کا ازخود نوٹس لے کر جہاں عوام کو انصاف دیا وہیں حکومت کو اس کی ذمے داریوں کا احساس بھی دلایا۔چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں انسانی حقوق سیل قائم کیے گئے، ظلم کے شکار عوام کی داد رسی کی گئی، لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا گیا، سپریم کورٹ کے اقدامات سے قوم کے لوٹے گئے اربوں روپے واپس قومی خزانے میں آئے، پسند نا پسند کی بنیاد پر ٹھیکے سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹوں کے غیر قانونی فیصلے منسوخ کیے، منظور نظر بیوروکریٹس کی ترقیاں اور تقرریاں واپس ہوئیں، کیا صدر کیا وزیر اعظم کیا جرنیل، کیا جج، کیا بیوروکریٹ کیا ایف آئی اے، کیا نیب، سب کو آئین قانون اور عدالت کے سامنے جوابدہ بنایا۔ایک مرتبہ پوری قوم کو پیغام دے دیا کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور قانون کے کٹہرے میں سب برابر ہیں۔

افتخار چودھری حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں، اور دوسری بے قاعدگیوں پر ازخود اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں مشہور ہیں۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بطور چیف جسٹس پاکستان اپنے فیصلوں سے یہ بنیاد رکھ دی ہے کہ کوئی آئین سے بالا تر نہیں نا کوئی قانون سے بڑا ہے وہ کڑے سے کڑے امتحان میں سے سرخرو ہو کر سپریم کورٹ سے رخصت ہو رہے ہیں ۔۔۔ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی جدو جہد کرنے والی عہد ساز شخصیت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس پاکستان اپنے عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہیں،۔۔لیکن آج جب وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔۔۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر بے شمار الزامات بھی لگے جن میں ارسلان افتخار کا معاملہ سر فہرست ہے اس دوران آپ کا سر جھکانے کے لئے مختلف مہم چلائی گئیں لیکن آپ نے ثابت کر دیا سچ نہ تو بکتا ہے اور نہ ہی جھکتا ہے۔۔۔سارے الزامات ایک طرف چلیں یوں کہہ لیجیے ہر شخصیت میں خوبیاں اور خامیاں موجود ہوتی ہیں اور راقم الحروف پہاڑ جیسی خوبیوں کو دیکھنے کے بعد خامیاں دیکھنے سے قاصر ہے۔جیسے ہی سابق چیف جسٹس اپنی مدت ختم کرتے ہیں پھر سے کیچڑ اچھالا جاتا ہے ٹاک شوز میں زبانیں سر عام زہر اگلنا شروع کر دیتیں ہیں۔یقین کیجیے جیسے ہی افتخار چوہدری نام لیا جاتا ہے مجھے انیس کروڑ عوام کی آنکھوں میں چمک نظر آتی ہے عدلیہ کے گرتے ہوئے گراف کو آسمان کی بلندیوں پر لیجانے کا سہرا آپ کے سر ہے۔چیف جسٹس افتخار چوہدری اب سابق ہوچکے ہیں ان کا دور میں کتنا انصاف ہوا ؟اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں برا نہ مانیں تو ان ’’فرشتہ نما دانشوروں‘‘ سے ایک سوال پوچھوں آپ یہ فیصلہ کرنے والے ہوتے کون ہیں۔۔۔؟

Farrukh Shahbaz Warraich
About the Author: Farrukh Shahbaz Warraich Read More Articles by Farrukh Shahbaz Warraich: 119 Articles with 126987 views


فرخ شہباز

پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایٹ ہیں۔انٹرنیشنل افئیرز میں مختلف کورسز کر رکھے ہیں۔رائل میڈیا گروپ ،دن میڈیا گروپ اور مختلف ہ
.. View More