خیرسے کروڑپتی ہوں ، پر مانگنامیری عادت ہے..بول گاڑی
کتنے کی ہے...؟
ہرزمانے میں داناکابس ایک یہی کہنارہاہے کہ اِنسان کی اصل دولت اِس کے دل
ودماغ میں ہوتی ہے جیب میں نہیں، دل و دماغ کی دولت کو کوئی تم سے چھین
نہیں سکتاجبکہ جیب کی دولت اِنسانوں کے درمیان فتنہ پیداکرنے کی سبب بنتی
ہے، جو ایک ہاتھ سے نکل کردوسرے کے ہاتھ میں چلی جانے کو اپنی خصلت سے
تعبیرکرتی ہے، اور یہی اِس کی خصلت اِنسانوں کو اپناگرویدہ بنائے رکھتی ہے،
کہنے والوں نے تویہ تک کہہ دیاہے کہ دنیاکی ہر شے دولت سے خریدی جاسکتی ہے
، مگرعزت ، پیاراور خُلوص اِس روئے زمین پر بسنے والے اِنسانوں کی تمام
دنیاوی دولت سے عظیم ترہیں جو دولت کے عوض بھی نہیں ملتے ہیں،اور جب عزت،
پیاراور خُلوص ایک مرتبہ خراب ہوجائیں تو پھراِنہیں دوبارہ نہیں
بنایاجاسکتاہے، آج دنیا میں بہت سے ایسے افرادہیں جو دولت مندتو بہت ہیں
مگرمعاشرے میں اِن کی کوئی عزت و قدرنہیں ہے، یکدم اُس پیسے مانگتے شخص کی
طرح (جس کا میں اگلی سطور میں تذکرہ کروں گا)جو کروڑپتی تو ہے مگرمعاشرے
میں اُس کی کوئی عزت نہیں ہے، کیوں کہ اُس شخص بغیرمحنت کیے دوسروں سے پیسے
مانگ کر کروڑ توجمع کرلیئے ہیں مگریہ شخص محنت کرنے سے کتراتاہے جبکہ دولت
تو محنت سے حاصل ہوتی ہے، مانگنے اور چھیننے سے جمع توہوسکتی ہے مگرایسی
دولت کسی کام کی نہیں ہوتی ہے اور وہ شخص جس کا دل ودماغ ہی گداگرکا ہووہ
امیر بھی کہلانے کا مسحتق نہیں ہوتاہے۔
اہلِ علم اپنے مشاہدے کے بعدایک شخص کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ”ایک کامیاب بزنس مین کا کہناہے کہ مجھے کروڑوں ڈالرکمانے میں اتنی تکلیف
تمام عمرنہیں ہوئی جتنی پہلاہزارڈالرکمانے میں ہوئی، اِس کے بعدروپے کو
روپیہ کھینچتارہا“( اوراِنکا اِس موقع پر یہ بھی کہناہے کہ ”لیکن دنیامیں
ایسے اِن گنت لوگ بھی آبادہیں جن کے پاس زندگی میں کئی بارہزارڈالرکے
برابریا اِس سے بھی زیادہ رقم آئی لیکن وہ کچھ نہ کرسکے“ اِس میں اِن کی
قسمت سے زیادہ اِس کی سمجھ اور نااہلی کا زیادہ عمل دخل ہے، وہ آئی ہوئی
دولت کو قسمت کا کھیل سمجھتے رہے اور اِس کا بے دریغ استعمال کرکے کچھ نہ
کرسکے،اگریہ لوگ اِسے اپنی قسمت کے ساتھ ساتھ عقل کی کسوٹی سے بھی پرکھتے
تووہ بھی دولت کے دھنی کہلاتے مگراُنہوں نے ایسانہیں کیا،دولت سے متعلق
دانشمندوں کا خیال یہ ہے کہ دولت محنت سے حاصل ہوتی ہے، کفایت شعاری سے
قائم رہتی ہے اور کوشش واستقلال سے بڑھتی ہے،
اگرچہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دولت وقت کی طرح بے وفاہوتی ہے مگرہر دورکا
اِنسان ہے کہ اِس کے سِحرمیں گرفتارہاہے ،گرفتارہے اور گرفتاررہے گااور
اِسی طرح آج اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیاکا ہرفردجس چیزکے پیچھے بھاگ
رہاہے وہ دولت ہے، اور اِس روئے زمین پر کچھ ایسے بھی لوگ بستے ہیں جو دولت
کے حصول کے خاطراپناتن من اور دین دھرم اور وہ سب کچھ داؤ پر لگادیتے ہیں
جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ جان چلی جائے مگراِن کی حرمت پرکوئی آنچ نہ
آئے، مگرافسوس ہے کہ آج کا اِنسان دولت جمع کرنے کے چکرمیں پڑکراُس نہج پر
پہنچ چکاہے ، جس پر اِنسانیت بھی شرماجاتی ہے، آج ایک اِنسان دولت کو
اپناخُداسمجھتاہے تو دوسرااِس کے حصول کے چکرمیں اپناسب کچھ(چمڑی )بھیفروغ
کردینے کی منصوبہ بندیاں کرتانہیں تھکتا ہے۔
ایڈہاؤ کا کہناہے کہ” جب کسی کو یہ کہتے سُنیں کہ دولت سب کچھ کرسکتی ہے تو
سمجھ جایئے کہ اِس آدمی کے قابو کبھی کوئی دولت نہیں آئی ہے“ ایڈہاؤ کا یہ
قول اپنی جگہہ ٹھیک ضرورہے مگردوسری طرف اِس کے اِس قول پر پورااُترنے والے
اِنسانوں کی بھی کچھ کمی نہیں ہے جو کہ ایڈہاؤ کے اِس قول پرپورے نہ اُترتے
ہوں، اور اِن لوگوں میں وہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں جو دولت کو اپناسب کچھ
سمجھتے ہیں مگردولت اِن کے قابومیں نہیں آتی ہے۔
بہرحال ..!آج دنیا میں جہاں حقیقی ضرورت مندوں نے دولت کمانے کے لئے فقیری
کا پیشہ اپنارکھاہے تو وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو کچھ نہ کرکے بھی
(صرف فقیری اور لوٹ مارو کرپشن کے ہی بل بوتے) دولت مندبننے کے خواب دیکھتے
ہیں اوراِن میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے ،جو محنت سے جان چراتے ہیں، اور
اِن کا پیشہ اور جرائم یہ ہے کہ یاتو یہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاکر پیسے مانگ
کر اپناگزربسرکرتے ہیں یا پھر یہ اسلحے کے زورپردولت مندوں سے بھتہ خوری،
ڈکیتی یالوٹ مارکرکے فوری دولت مندبننے کے خواہشمندہوتے ہیں۔
اَب میں ذکر کررہا ہوں اپنے شہر کی ایک معروف و مصروف ترین سڑک پر اپنے
ساتھ ایک روز پیش آئے اُس واقعے کا آج جس نے مجھے اِس کالم کو لکھنے کے لئے
متحرک کیا الغرض مختصراََ عرض یہ ہے کہ میں ابھی جس کا ذکرکررہاہوں اِس پر
جیسے ہی ٹریفک سگنل کی بتی سُرخ ہوتی تو اِس دوران گاڑیوں کی لمبی لمبی
قطاریں لگ جاتی اور اِن ہی قطاروں کے درمیان دوڑتاہوا ایک فقیر
چلاآتااورانتہائی احترام کے ساتھ ہاتھ پھیلائے پیسے مانگنے لگتا،پہلے تو
میںاِسے ہٹاکّٹا سمجھ کر جھڑک دیاکرتااور اِسے پیسے نہیں دیتاتھا(یہاں میں
اپنے قارئین کے لئے واضح کرتاچلوں کہ میرے نزدیک بھیک کالفظ صرف حکمرانوں
کے لئے مختص ہوگیاہے ،جو اپنی اور مُلکی ضروریات کو اپنی محنت اور وسائل سے
پوراکرنے کے بجائے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن گداگروں کی
طرح ہیں جو بغیر محنت کئے اغیارکے تلوے چاٹ کر اور اِن کی جی حضوری کرکے
پیسے مانگتے ہیں اور اِن سے اپنی حکومتیں چلانے کے لئے مشورے بھی لیتے ہیں
اور اِن بھی ڈرون حملوں کی صورت میں لب کشائی نہ کرنے کا بھی وعدہ شامل ہے،
یعنی یہ کہ اغیاراپنے مقاصدکے لئے ڈرون سے اِن کے بندے مارے جائیں مگر
ہمارے حکمران ملنے والے ڈالروں اور بھیک کے عوض بھی کچھ نہ کہیں حالانکہ یہ
سب کچھ کرسکتے ہیں مگر بغیر محنت کئے ملنے والی اغیارکی بھیک نے اِن کے
ہونٹ سی دیئے ہیں ، اوراِن کی آنکھیںاور کان بندکررکھے ہیں ، مگرہاتھ
کھلااِس لئے رکھاہواہے کہ یہ اغیارسے صرف کشکول اٹھاکراور اِنہیں
پھیلاکرڈالروں کی بھیک مانگ سکیں جبکہ میں عام پاکستانیوں اور شہریوں سے
شاہراہوں، بازاروں، گلی اور محلوںمیں گھوم گھوم کراپنی ضرورت کی اشیااور
کچھ مانگنے والوںکے لئے ضرروتمندکا لفظ استعمال کرنازیادہ
بہترسمجھتاہوں)سوایک روزمجھ سے پیسے کے طالب اِس شخص کو میں نے اِس کی اِس
حرکت پر کچھ زیادہ ہی ناگواری کااظہارکرتے ہوئے اِسے جھڑک دیاکرتاتھااور
سگنل کھلنے کا انتظارکرنے لگا مجھے نہیں معلوم کہ میرے دونوں اطراف اور
پیچھے کھڑی ہوئی گاڑیوں والوں نے اِس کے ساتھ کیا سلوک کیاہوگا ، مگرمیں نے
تواُس روزبغیرکچھ دئے اُسے جھڑک دیاتھا، جس کا مجھے بعد بہت افسوس ہوا، اور
میں نے ذہن بنالیاتھاکہ میں کل (یعنی اگلے روز)ضروراِس کا ازالہ کردونگا،
اور اِسے دودن کے پیسے ایک ساتھ ہی اداکرکے اِس سے اپنے گزشتہ دن کے روئے
کی معافی بھی مانگ لوں گا،خیر بات آئی گئی ہوگی اور میں اپنے معاملاتِ
زندگی میں مصروف ہوگیا۔
حسب ِ معمول اگلے روزجب میں اِس مقام پر پہنچاتو سُرخ بتی پر سگنل
بندتھاگاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کے درمیان وہی پیسے کا طالب شخص
پھردوڑتاہواچلاآیا،مگرآج میں اِسے دیکھ کر قدرے حیران تھااور مجھے یہ احساس
ہورہاتھاکہ جیسے اِس شخص کوبھی مجھ سے گزشتہ روزپیش آئے واقعے کا بدلہ دینے
کا شدت سے انتظارتھا، قبل اِس کے کہ میں اِس کے طلب کرنے پر پیسے دیتااِس
شخص نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں تھامے ایک سفیدرنگ کی گتے کی ایک شیٹ کو
میری جانب بڑھادیاجس پر جلی حروفوں میں کچھ یوں درج تھاکہ” بھیک دینی ہے
تودے دو، مگرجھڑکنانہیں، خیرسے میں کروڑپتی ہوں,پرمانگنامیری مجبوری ہے،
اور اِسی کے ساتھ ہی نیچے لکھاتھااے گاڑیوں والوں بول تمہاری گاڑی کتنے کی
ہے ...؟میں سب خریدلوں گا،مگراپنی عزتِ نفس پر کسی کو انگلی اُٹھانے نہیں
ہرگزنہیں دوں گا“یہ پڑھتے ہی میں نے اِس کی جانب دیکھااور مسکرادیا، میرے
مسکرانے پر اِس کے چہرے پر بھی اطمینان دکھائی دیاکہ اِس نے اپنی کل کی
ہونے والی بے عزتی کا بدلہ لے لیاہے، مگرپھر بھی یہ شخص مجھ سے دوروزکے
پیسے لئے بغیرنہیں کھسکا۔
قارئین حضرات ..!اَب اِس واقعے کو پڑھنے کے بعد آپ کیاسوچ رہے ہیں وہ
بتائیں اور اِس واقعے اور اِس سے ہی منسلک اپنے ساتھ پیش آئے ایک واقعے کے
بعد جو میں سوچ رہاہوں اِس کا تذکرہ میں اپنے اگلے کالم میں کروں گاآپ
اپناخیال ضروررکھیں اور اپنی تمام تر اچھی سوچیں اپنے مُلک کی تعمیروترقی
اور اِس کی خوشحالی سمیت اپنے بہترین مستقبل کی فکر میں صرف کریں تب تک کے
لئے اللہ حافظ... |