چند ماہ قبل معلوم ہوا کہ قائد کشمیر چودھری غلام عباس ؒ
کے مزار واقع فیض آباد راولپنڈی کے ایک حصے پر ملحقہ ایک پلازے والوں نے
قبضہ کر کے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ چودھری غلام عباس ؒ کا انتقال
18؍دسمبر1967ء( بوقت 11بج کر25 منٹ)کو ہوا ۔اس وقت جنرل ایوب خان کی حکومت
سے سیاسی تعلقات ٹھیک نہ تھے۔ایوب حکومت چودھری غلام عباسؒ کی پاکستان میں
تدفین میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔اس سے کشمیریوں میں تشویش اور ناراضگی کی
کیفیت پیدا ہوئی اور قائد کشمیر کی تدفین آزاد کشمیر میں کرنے کی بات بھی
ہوئی۔چودھری غلام عباس ؒ کے قریبی ساتھی مرزا غلام رسول بیگ (مرحوم)کے
فرزند واحد رسول بیگ بتاتے ہیں کہ مرزا غلام رسول بیگ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی
کے ہمراہ چودھری غلام عباسؒ کی تدفین کی جگہ کے انتخاب کے لئے گاڑی میں
نکلے۔ چودھری غلام عباسؒ نے وصیت کی تھی کہ مجھے پاکستان میں ایسے مقام پر
دفن کیا جائے جہاں سے راستہ کشمیر کی طرف جاتا ہو۔ چودھری غلام عباسؒ کی اس
وصیت کے پیش نظر مرزا غلام رسول بیگ صاحب نے کمیٹی چوک میں اس جگہ کا
انتخاب کیا جہاں اب چلڈرن پارک قائم ہے۔جنرل ایوب حکومت کی طرف سے چودھری
صاحب اور مسلم کانفرنس کی سیاسی مخالفت کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر کی ہمت نہ
ہوئی کہ وہ حکومت کے مخالف لیڈر کی تدفین کے لئے سرکاری جگہ الاٹ کرے۔حکومت
کے اس غیر مناسب روئیے سے کشمیریوں میں اشتعال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور
آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں کے لوگوں نے اپنے اپنے علاقے میں چودھری صاحب
کی تدفین کا مطالبہ شروع کر دیا۔مرزا غلام رسول بیگ صاحب اس وقت مسلم
کانفرنس راولپنڈی ڈویژن کے صدر تھے اور اپنی وفات(28جنوری 2002ء) تک اس
عہدے پر فائز رہے۔ان کے دور میں کشمیری سیاست کے مرکز راولپنڈی میں مسلم
کانفرنس کو پاکستانی سیاسی جماعتوں میں بھی بڑا مقام حاصل تھا اور مسلم
کانفرنس کشمیر کاز کے علاوہ پاکستان کے امور میں بھی راولپنڈی میں سرگرم
اور موثر کردار ادا کرتی رہی۔ان تمام امور میں مرزا غلام رسول بیگ مرحوم کا
کردار نمایاں تھا۔
جنرل ایوب حکومت کے اس غیر مناسب روئیے کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی
جناحؒ کے ایک قریبی ساتھی میاں حیات بخش( مرحوم) بانی ادارہ انجمن فیض
الاسلام کی سربراہی میں انجمن فیض الاسلام کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں
چودھری غلام عباس ؒ کی تدفین کے لئے فیض آباد میں چار کنال زمین دینے کی
منظوری دی گئی۔انتقال کے اگلے روز قائد کشمیر کی نماز جنازہ لیاقت باغ میں
ادا کی گئی ،نماز جنازہ میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہؒ نے پڑھائی۔اس
کے بعد فیض آباد میں واقع انجمن فیض الاسلام کی عمارت کے عقب میں واقع عطیہ
کی گئی چار کنال آراضی میں چودھری غلام عباس ؒ کی تدفین ہوئی۔یہ بات بھی کم
افراد کو معلوم ہے کہ چودھری غلام عباس ؒ کی کوشش سے ہی ادارہ انجمن فیض
الاسلام کو جگہ الاٹ ہوئی تھی۔چودھری غلام عباسؒ اور میاں حیات بخشؒ دونوں
کا شمار قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے ۔یوں انجمن
فیض الاسلام کے بانی جناب میاں حیات بخش ؒ نے قائد کشمیر کی تدفین کے لئے
جگہ فراہم کر کے کشمیریوں اور پاکستان کے درمیان دوری پیدا کرنے کی ایک
کوشش کو ناکام بنا دیا۔اسی وجہ سے کشمیریوں میں محترم میاں حیات بخش ؒ کے
لئے وسیع پیمانے پر گہرا احترام پایا جاتا ہے۔
میاں حیات بخش ؒ نے قائد کشمیر کی تدفین کے لئے چار کنال زمین فراہم کرتے
ہوئے عطیہ کردہ اس چار کنال زمین کی ملکیت کے کاغذات مرزا غلام رسول بیگ
صاحب کے نام تیار کرائے ۔یوں قائد کشمیر چودھر ی غلام عباس ؒ کے مزار کی
جگہ کی رجسٹری کے کاغذات مرزا غلام رسول بیگ کے نام پر ہیں۔آزاد کشمیر کے
سرکاری دفاتر میں چودھری غلام عباس ؒ کی تصویر آویزاں ہے ۔زاد کشمیر میں
قائد کشمیر چودھری غلام عباس ؒ کی برسی کے موقع پر ہر سال 18دسمبر کو
سرکاری تعطیل ہوتی ہے،مزار قائدکشمیر پہ آزاد کشمیر پولیس کا دستہ سلامی
پیش کرتا ہے،آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم بھی پھولوں کی چادریں چڑہاتے
ہیں،قرآن خوانی اور اجتماعی دعا کی جاتی ہے اور مسلم کانفرنس کے زیر اہتمام
جلسہ منعقدہوتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت بھی سیکرٹری سروسز کی نگرانی میں
انتظامی کمیٹی قائم کرتی ہے ۔حکومت کی طرف سے برسی کے دن سے پہلے ہنگامی
طور پر لاکھوں روپے لگا کر جگہ کو درست کیا جاتا ہے۔سردار عتیق احمد خان نے
اپنی وزارت عظمی کے دور میں پولیس کا ایک دستہ مستقل طور پر مزار پہ رکھنے
کے احکامات دیئے تھے چناچہ آج بھی مزار قائد کشمیر پہ آزاد کشمیر پولیس کا
ایک دستہ بغیر مناسب سہولیات، دن رات موجود رہتا ہے۔اسی دور میں مزار قائد
کی آراضی پہ ایک شایان شان عمارت(کمپلکس) بنانے کا زبانی منصوبہ بھی بنا
لیکن مزار قائد کشمیر پہ کمپلکس تعمیر کرنے کا منصوبہ تحریری شکل بھی
اختیار نہ کر سکا۔
میرے والدمرحوم خواجہ عبدالصمد وانی کی دفتر میں ان کی کرسی کے پیچھے دیوار
پر تین تصویریں لگی رہتی تھیں،ایک قائد اعظمؒ کی ،دوسری علامہ اقبالؒ اور
تیسری چودھری غلام عباس ـ ؒ کی۔والد محترم کی وفات کے بعد ان کے گاؤں
صفاپور کے بچپن کے ایک دوست ،کشمیر صحافی شیام کول (آنجہانی) نے اپنے ایک
مضمون میں لکھا کہ جب تمام کشمیر میں شیخ عبداﷲ کا طوطی بول رہا تھا اس وقت
عبدالصمدوانی شیخ عبداﷲ کے بجائے چودھری غلام عباس کے پرجوش حامی
تھے۔پاکستان ہجرت کرنے کے بعد وانی صاحب کو قائد کشمیر کا خصوصی اعتماد
حاصل رہا اور وہ چودھری غلام عباس ؒ کے سیکرٹری کے طور پر ان کے ساتھ پڑھنے
لکھنے کا تمام جماعتی کام کرتے رہے۔قائد کشمیر چودھری غلام عباس ؒ کے کہنے
پر ہی والد محترم خواجہ عبدالصمد وانی نے یکم جنوری 1966ء سے ہفت روزہ ’’
کشیر‘‘ جاری کیا۔
ہر سال جب18دسمبر کا دن قریب آتا ہے تو آزاد کشمیرحکومت کو اس بارے میں
اخبارات میں مضامین شائع کرانے اور سرکاری انتظامی کمیٹی بنانے کی ضرورت
پڑتی ہے۔18دسمبر کا برسی کا دن گزر جاتا ہے تو اہل قلم کی ضرورت بھی ختم ہو
جاتی ہے اور حکومت کو قائد کشمیر کا مزار ،ان کی خدمات ،ان کا مقام بھی
بھول جاتا ہے۔اس سے پہلے کہ کوئی قائد کشمیر کے مزار کی جگہ پہ قابض ہو
جائے،یا کوئی مزار قائد پہ مجاور بن کر بیٹھ جائے،اشد ضروری ہے کہ آزاد
کشمیر حکومت کی سرپرستی میں ’’قائد کشمیر چودھری غلام عباس ؒ ٹرسٹ‘‘ قائم
کیا جائے۔اس ٹرسٹ میں قائد کشمیر کے فرزند،مرزا غلام رسول بیگ مرحوم( جن کے
نام پر ہی انجمن فیض الاسلام نے یہ جگہ منتقل کرائی ہے)کے ورثاء اور قائد
کشمیر کے قریبی افراد کو اس میں شامل کیا جائے۔حکومت آزاد کشمیر پر لازم ہے
کہ’’قائد کشمیر چودھری غلام عباس ٹرسٹ‘‘ قائم کرتے ہوئے اسی ٹرسٹ کے ذریعے
مزار قائد کشمیر پہ شایان شان کمپلکس تعمیر کرائے۔اس وقت مزار قائد میں
مقبرہ،مسجد اور امام مسجد کا گھر تعمیر ہے،،مقبرے کے ساتھ ہی چودھری غلام
عباس ؒ کی اہلیہ محترمہ کی قبر ہے جبکہ باقی جگہ خالی ہے۔قائد کشمیر چودھری
غلام عباس ؒ کی تحریک آزادی کشمیر،کشمیر کاز،آزاد کشمیر اور پاکستان کے لئے
شاندار بے مثال قربانیاں، جدوجہد اور خدمات تاریخ کا حصہ ہیں،اگر آزاد
کشمیر حکومت اس کا احساس نہیں کر سکتی تو اسے کیا معنی دیئے جا سکتے
ہیں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ مظفر آباد میں یادگار شہداء کے منصوبے کی طرح مزار
قائد کشمیر کا یہ منصوبہ بھی ہوا میں معلق رہے۔ |