بنگلہ دیش کے حالات پر ہماری خاموشی؟

ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اپنی آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی ساری دنیا میں ایک خاص شہرت کا مالک تھا۔ پنڈت جواہر لاہر لال نہرو کی خارجہ پالیسی ہی ہمارے ملک کی شناخت تھی لیکن ان کے بعد ہماری خارجہ پالیسی مصلحتوں کا شکار رہی اس کے بعد (راجیو گاندھی کے زمانے سے ہی ہماری خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات ملک سے باہر طے ہونے لگے۔ نرسمہا راؤ سے لے کر تاحال منموہن سنگھ تک کی حکومتوں نے ’’غیر جانبداری‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا اور ہم امریکہ کے کیمپ میں شامل ہوکر امریکہ کے ہم نوا ہی بلکہ تابعدار ہوکر رہ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے تعلقات اپنے تمام پڑوسیوں سے ویسے نہیں رہے ہیں جیسے کہ نہرو یا کسی حدتک اندرا گاندھی کے دور میں ہوا کرتے تھے (پاکستان سے بے شک ہمارے تعلقات کسی بھی دور میں اس طرح خوش گوار نہیں رہے جیسے کہ ہونے چاہئے تھے۔ پاکستان کے سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پنڈت جی کے زمانے پاکستان سے ہمارے تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس دور میں پاکستان امریکہ کا بہت زیادہ تابعدار تھا۔ فوجی امداد اور فوجی معاہدوں نے اسے امریکہ سے بری طرح وابستہ کررکھا تھا لیکن وہ آج بھی امریکہ کا ہی تابعدا ر ہے اور اہم بھی اب امریکہ کے تابعدار ہیں لیکن ان دونوں تابعداروں میں تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں امریکہ بہادر نہیں چاہتے ہیں کہ اس کے دونوں دوست ؍ ہم نوا؍ حلیف (دراصل تابعدار) آپس میں دوستی کریں۔ پاکستان کو اگر ہم دہشت گردی کا علمبردار جارحانہ مزاج کا لڑاکو پڑوسی قرار دیں تو جائز ہے۔

ہمارے دوسرے پڑوسیوں سے بھی تعلقات دوستانہ نہیں ہیں۔ چین بھی پاکستان کی طرح جارحانہ مزاج کا ہے۔ سری لنکا اور نیپال قدرے قابل ذکر اور اہم ملک ہیں لیکن بھوٹان اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک سے بھی ہم سے خوش نہیں ہیں۔ پڑوسیوں کو خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ملک بلکہ عالمی طاقت نہ سہی ایشیائی طاقت ہونے کے ناطے پڑوسی ممالک (چین اور پاکستان نہ سہی) پر ہمارا اثر و رسوخ یا تو مفقود ہے یا پڑوسی ممالک میں ہورہی زیادتیوں کو روکنے بلکہ رکوانے میں ہمارا رول خاصہ اہم ہوسکتا ہے لیکن ہم یا تو پڑوسی ممالک میں چل رہے فسادات، تنازعات اور بدامنی سے لاتعلق ہیں یا کئی ممالک میں ہم خود ایک پارٹی کی حمایت کررہے ہیں اور ملک کے دوسرے فریق ہمیں مطعون کررہے ہیں اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مانمار میں انسانیت کو شرما دینے والے مظالم پر احتجاج اور مذمت کے تک روادار نہیں ہیں۔

پڑوسی حکومتوں کے مظالم اور زیادتیوں پر ہماری خاموشی یا بعض صورتوں میں اپنے مفادات کی خاطر ظالم کی حمایت ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون بن گیا ہے لیکن فی الحال ہم اس تحریر کو صرف پڑوسی ملکوں کی حدتک محدود رکھتے ہیں۔ نیپال اور مالدیپ میں ہماری مداخلت بے جا پر اکثر اعتراض ہوا ہے لیکن جہاں ہماری مداخلت ضروری اور واجبی ہے وہاں تو ہم خاموش رہتے ہیں اور جہاں ہم خود کو الگ تھلک رکھ سکتے ہیں وہاں ہم سرگرم عمل ہیں۔

امریکہ کی تابعداری نہ سہی امریکہ کی خوشنودی کے علاوہ ہندوتوا کے نظریات پر کسی نہ کسی حدتک عمل کرکے یا نر ہندوتوا پر عمل ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے مظالم اور قتل غارت گری کے باوجود امریکہ کی مذمت تو دور کی بات ہے افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے معاہدے کرکے امریکہ کی خواہش کی تکمیل کو ہندوستانی مفادات کا نام دیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ سے طالبان کی حکمرانی کا خاتمہ ناممکن ہے اور طالبان سے ہمار تعلقات کا خوش گوار رہنا ہمارا امریکہ کا حلیف ہونے کے ناطے تقریباً ناممکن ہے لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں ہند۔پاک مسابقت جاری رہے تو دوسری طرف خوش فہمی کی شکار اور پاکستان سے مسابقت کی خواہش مند ہماری ’’افسر شاہی ‘‘کی بھی خواہش مند ہے کہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات کی خاطر افغان حکومت اور عوام پاکستان کو مسترد کردیں گے اس کی جگہ اگر افغانستان اور پاکستان کے مظلوم شہریوں پر امریکہ کے ڈرون حملوں کو روکنے کا امریکہ سے مطالبہ کیا جاتا تو دونوں ملکوں کے عوام کا ہندوستان دل موہ لے لیتا۔

برما میں بدھ مست کے پیرو حکومت کی مدد اور تعاون سے مسلمانوں پر مظالم اور ان کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہماری حکومت کی انسانیت کو شرما دینے والے مظالم پر خاموشی حیرت انگیز ہے وجہ یہی ہے کہ ہماری حکمت عملی ترتیب دینے والی افسر شاہی پر ہندوتوادیوں کا قبضہ ہے۔ اس بات کا ثبوت کسی حدتک یہی ہے کہ ہماری وزارت امور داخلہ کے معتمد (سکریٹری) آر کے سنگھ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں ٹی وی کے مباحثوں میں شریک ہونے والے وزارت خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدیداروں کی گفتگو سے اسرائیل نوازی، امریکہ کی حمایت اور پاکستان سے کشیدگی بڑھانے والی باتوں پر مرکوز رہتی ہے۔ سری لنکا میں منعقد ہونے والی دولت مشترکہ چوٹی کانفرنس میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کی عدم شرکت کی وجہ ٹاملناڈو کی ٹامل جماعتوں کو خوش کرنا تھا اس طرح سری لنکا سے تعلقات خوش گوار رکھنے کا موقع ضائع کردیا گیا ۔ ٹاملوں کی بغاوت کچلنے کے سلسلے میں سری لنکا کی حکومت پر مغربی دنیا کے لگائے جانے والے الزامات کے سلسلے میں ہماری پالیسی غیر حقیقی ہے۔ مالدیپ میں اسلام پسندوں کے مقابلے میں خود کو سیکولر کہنے والے ٹولے کی ہم نے تائید کرکے ملک کے مفاد کو نقصان پہنچایا لیکن مخالف اسلام ہندوتوا وادی اسلام پسندوں کی مخالفت کو ہی ملک کی بھلائی اور نیک نامی کا سبب مانتے ہیں۔

آج کل بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں اور اسلام دشمن حسینہ واجد حکومت کی اندھی تائید کی جارہی ہے اور اس تائید کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ حسینہ واجد ہندوستان کو بڑی اہمیت دیتی ہیں۔ ہندوستان سے دوستی بلکہ ہندوستان سے کسی حدتک دب کر ہمارے مفادات اور خواہشات کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ مندرجہ بالا وجوہات تو اپنی جگہ اہم ہیں لیکن حسینہ واجد کی خاص خوبی سیکولرازم کے نام پر اسلام سے ان کی دوری بلکہ بیزارگی اور اور اسلامی تحریکات کو کچلنے سے ان کی دلچسپی ربلکہ سرگرمی ہے! حسینہ واجد کی ذہنیت آمرانہ اور جابرانہ ہے۔ اقتدار کی بھوکی یہ عورت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی بھی حدتک پستی میں گرسکتی ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی، عدلیہ سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے حاصل کرنا بلکہ عدلیہ کو اپنے مخالفین خاص طور پر اسلام پسندوں کو کچلنے ، ان کو کمزور کرنے اور اپنے اہم مخالفین کو موت کی سزا دے ان سے نجات پانا ہی ان کی حکمرانی کے اہم مقاصد ہیں بلکہ بنگلہ دیش کی متحدہ پاکستان سے علاحدگی کے لئے چلائے جانے والی تحریک کے مخالفین سے انتقام لینا بھی ان کا اہم مقصد ہے اور اب تو وہ جمہوری اصولوں کو پامال کرکے دھاندلیوں کے ذریعہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لئے جنوری میں ہونے والے انتخابات کو بھی انہوں نے ایک طرح سے یر غمال بنالیا ہے۔ اس کالم نویس نے صرف چند ہفتے قبل ہی لکھا تھا کہ یہ اسلام دشمن عورت بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لئے بھی خطرہ ہے۔ اور موجودہ حالات حسینہ واجد کے کردار کے تاریک پہلووں کو ثابت کردیا ہے۔

مخالف بنگلہ دیش تحریک کے مخالفین کو سزا دینے بلکہ ان سے بھیانک انتقام لینے کیلئے ان کو جنگی مجرم قرار دیا گیا اور ان پر مقدمہ چلانے تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر نام نہاد ٹریبونل قائم کیا گیا ۔ ان ٹربنوبلس کا قیام، ان کا اختیار سماعت اور ان کے طریقہ سماعت کو حقوق انسانی کے بین الاقوامی اداروں نے مسترد کردیا تھا لیکن اس کے باوجود ٹربنوبلس کے فیصلوں کو حسینہ واجد نے بہ عجلت ممکنہ روبہ عمل لایا حال ہی میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر اور ان کے افراد خاندان کو رحم کی اپیل تک کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا اور ان کی لاش کی تدفین کے امور سے ان کے اہل خاندان اور احباب کو دور رکھا گیا۔ اس واقعہ نے ہم کو شہید افضل گرو کی تدفین پر ہماری حکومت کی ظالمانہ روش یاد آگئی۔ کسی نے ہم سے سوال کے کیا کہ عبدالقادر کی سزا پر ہندوستان نے کسی ردعمل کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ حسینہ واجد جنگی جرائم کے بہانے جو کچھ کررہی ہیں ہم بھی تو دہشت گردوں کو سزا دینے کے بہانے وہی کچھ کررہے ہیں جو حسینہ واجد کررہی ہیں۔

سنگھ پریوار کے زیر اثر کام کرنے والا ہمارا میڈیا تو تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی اسلامی دشمنی کا مداح ہے وہ بھلا حسینہ واجد کی مذمت کیوں کرے گا؟

بنگلہ دیش میں انتخابات ایک عارضی اور غیر جانبدار و غیر سیاسی حکومت منعقد کرتی ہے لیکن حسینہ واجد کو یقین تھا کہ اگر آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں تو دوبارہ کامیابی تو دور کی بات ہے زیادہ تر امیدواروں کی ضمانت بچانا ہی مشکل ہوگا۔ اس لئے عارضی یا عبوری حکومت کا کانٹا ہی حسینہ نے نکال پھینکا اور جب حزب مخالف کی جماعتوں نے انتخابات کے مقاطعہ کا فیصلہ کیا تو بہ کمال بے شری و بے غیر تی کہا کہ بغیر حزب مخالف کے بھی انتخابات ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں تاکہ حسینہ کی عوامی لیگ کے زیادہ تر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوجائیں اور جمہوریت کی ایسی تیسی کرکے ایک طرف دوبارہ برسر اقتدار آنے کی تیاری ہے تو دوسری طرف سارے بنگلہ دیش میں شہید عبدالقادر پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر شدید مظالم ہورہے ہیں اور حکومت ہند اورہمارا قومی میڈیا خاموش ہے۔ کیوں؟
’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘‘
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.