قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری
غلام عباس کی 46 ویں برسی کے موقع بنگلہ دیش کی نام نہاد اسلامی حکومت کی
طر ف سے جماعت اسلامی کے رہنماء ملا عبدالقادر کو پھانسی پرلٹکائے جانے کے
خلاف شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ۔ صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور ممبر قومی اسمبلی اسد عمر سمیت تقریباً
تمام کے تمام مقررین نے ملاعبدالقادر کو شہید پاکستان قرار دیتے ہوئے
مطالبہ کیا کہ انہیں بعد از شہادت پاکستانی ڈکلیر کرتے ہوئے نشان امتیاز
دیا جائے۔ مقررین نے اس سفاکانہ عمل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اس بارے میں
حکومت پاکستان کی بے حسی اور بے حمیتی پر نہ صرف تاصف کا اظہار کیا گیا
بلکہ وزرات خارجہ کے ترجمان کے بیان کی پر زور الفاظ میں مذمت بھی کی گئی ۔جلسہ
عام میں اتفاق رائے سے منظور ہونے والی قرارد داد کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
قرار داد میں کہا گیا کہ عبدالقادر ملا کو یہ سزا 1971 میں اقوام متحدہ کے
رکن ملک پاکستان کی جائز قانونی حکومت کا ساتھ دینے ، قوم کی ماؤں بہنوں
اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کو بھارتی مداخلت کامکتی باہنی کے مسلح غنڈوں سے
بچانے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سر بلندر کھنے کے جرم میں دی گئی۔
عبدالقادرملا کا اصل جرم متحدہ پاکستان کی حمایت دفاع وطن کے لئے اپنا سب
کچھ قربان کرنے ، مادر وطن کا دفاع اور اس کی حفاظت اور آئین پاکستان سے
وفاداری ہے۔
قرار داد کے مطابق اس ہولناک اور دل کو لرزادینے والے واقعہ پر نہ صرف ہر
پاکستانی کا دل زخم خوردہ ہے ،قوم سکتے کے عالم میں ہے ۔دنیا بھر میں اس
صریح ظلم کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے یہاں تک کہ ترکی، برطانیہ، یورپ سے بھی
صدائے احجاج بلند کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہومن
رائٹ واچ،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ بھی چیخ اٹھا
حتی کہ خود بنگلہ دیش میں انسانی حقو ق کے اداروں اور آزاد وکلاء نے اس
ٹربیونل کو ایک ڈھونگ اور بین الاقوامی قانون کی نظر میں اس عدالتی قتل کو
سیاسی انتقام اور ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال قرار دیا ہے۔ لیکن اسلام
کے نام پر بننے والے پاکستان اور پاکستان کو بنانے والی مسلم لیگ کے وزیر
اعظم خاموش ہیں۔ حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ 18 کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی
حامل قومی اسمبلی ملا عبدالقادر کے حق میں فاتحہ خوانی اور واقعہ کی مذمت
سے بھی محروم رہی۔بدقسمتی سے ہمارے پاکستان کی بے خبر وزارت خارجہ کو اس
معاہدے کے بارے میں بھی علم نہیں جو 1972 میں لاہور میں اسلامی سربراہی
کانفرنس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے وقت ہوا تھا جس پر سعودی عرب کے شاہ
فیصل کی موجودگی میں مجیب اور بھٹو نے دستخط کئے تھے اس معاہدے میں کہا گیا
تھا کہ پاکستان اس شرط پر بنگلہ دیش کو تسلیم کرے گا کہ دونوں ممالک ایک
دوسرے کے شہریوں کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کریں گے۔
قرار دادا کے ذریعے یہ اجتماع بنگلہ دیش میں نام نہاد اسلامی حکومت کے اس
اقدام کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں کی توجہ
مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت کو بین الاقوامی
مواعید کی پابندی، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر پر عمل درآمد اور1972 میں
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے معاہدے کا پابند بنائے ۔
قرارداد میں کہا گیاکہ یہ اجتماع پاکستان کی وزرات خارجہ کی طرف سے ملا
عبدالقادر کی پھانسی کو بنگلہ دیش کااندرونی /داخلی معاملہ قرار دینے کے
بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی موقف سے روگردانی ، محب وطن
پاکستانیوں کے دل کے زخموں پر نمک پاشی ، توہین اور شکست خوردگی کی علامت
قرار دیتے ہوئے اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اوروزیر اعظم پاکستان
میاں محمدنواز شریف سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا موقف واضح
کرتے ہیں کہ ملا عبدالقادر کی پھانسی کا معاملہ بنگلہ دیش کی حکومت کا
اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی کھلم کھلا خلاف
ورزی ہے۔ حسینہ واجد نے 1972 ء ہونے والے بین الاقوامی معاہدے کی دھجیاں
اڑا کے رکھ دی ہیں۔یہ اجتماع ملا عبدالقادر کی پھانسی کے خلاف ترکی کے وزیر
اعظم کے رد عمل ،موقف کی بھر پور تائید و حمایت اور اُن کے کردار کو خراج
تحسین پیش کرتا ہے۔
یہ اجتماع وزارت خارجہ کے بیان کو مسلح افواج ، قوم اور اسلام کے نام پر
بننے والے ایٹمی طاقت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیتا ہے۔ وزرات خارجہ
کے اس بیان سے پاکستان کی محبت میں شہید ہونے والوں کے جذبات کی توہین کی
گئی ہے۔اس بیان سے سری نگر میں پاکستانی جھنڈا سر بلند کرنے اور کشمیر بنے
گا پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔اس بیان سے بلوچستان
اور فاٹا میں پاکستان کی افواج کا ساتھ دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان وزرات خارجہ میں بیٹھے ہوئے
ہندوستان کے مفادات کے لئے کام کرنے والے ترجمان کے بیان واپس لیں ، ترجمان
کو برطرف کریں اور ملا عبدالقادر کو پاکستانی ڈکلیئر کرتے ہوئے اُن کو
پاکستان کا سب بڑا قومی نشان امتیاز دینے کا اعلان کریں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان پسپائی اور معذرت خواہی کا رویہ ترک
کر کے اس معاملے کو فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس اور عالمی عدالت
انصاف اور اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے۔ |