معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر آفتاب
اصغر اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ برصغیر ہندو پاکستان کے اسلامی
عہد کی تاریخ پر جتنی گہری نظر علامہ اقبال کی تھی شائد ہی کسی بڑے سے بڑے
مرخ کی ہو۔ افسوس کہ مفکر پاکستان جیسی کثیر الجہات شخصیت کی اس نہایت اہم
جہت پر کماحقہ توجہ نہیں کی گئی۔ انہوں نے ہمیں جو ایک جداگانہ قوم کے اصول
پر پاکستان کا تصور دیا تھا اس کی بنیاد بھی ان کے اسی تاریخی شعور پر تھی۔
انہوں نے اپنے فارسی اور اردو کلام اور منشور نوشتہ جات میں مختلف شخصیات و
واقعات کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیا ہے اس سے ہم آج بھی راہنمائی
حاصل کر سکتے ہیں۔
حکیم الامت، علامہ محمد اقبال، نے اپنے ایک فارسی شعر میں فرمایا ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن،ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن۔(بنگال کا جعفر
اور دکن کا صادق ملت اسلامیہ کیلئے باعث ننگ ، دین اسلامی کے لئے باعث عار
اور وطن کے لئے باعثِ شرم ہیں)ایک اور جگہ پر فرمایا ہے:الامان از روح جعفر،
الامان،الحذر از جعفرانِ این زمان۔(خدا کی پناہ، جعفر کی روح سے، خدا کی
پناہ اس زمانے کے جعفروں سے گریز کر)اورنگ زیب عالمگیر کی وفات
(1707ء1118ھ(کے بعد، جن کو حضرت علامہ نے ترکش ما را خدنگ آخرین (ہمارے
ترکش کا آخری تیر) قرار دیا ہے عظیم مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو گئی۔ یہ وہ
سلطنت تھی جو عالمگیر کی رحلت کے وقت برما سے بدخشاں تک اور خلیج بنگال سے
بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ عالمگیر کے بدترین مخالف، سر جادو ناتھ سرکار،
نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اتنی وسیع سلطنت نہ کبھی مہاراجہ اشوک کے زمانے
میں تھی اور نہ ہی انگریزوں کے زمانے میں شہنشاہ اورنگ زیب کی وفات تک
انگریز، مرہٹے اور سکھ مرکزی حکومت کے سامنے سر نہ اٹھا سکے لیکن اس کے
فورا بعد ان تینوں طاقتوں نے ایک قیامت برپا کر دی جو بالآخر مغلیہ سلطنت
کے خاتمہ پر منتج ہوئی۔انگریز جو کہ برصغیر کی اکثر و بیشتر بندرگاہوں میں
تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کے بعد دبے پاؤں اندرون ملک میں پیشقدمی کر رہے
تھے۔ ڈیڑھ سو سال بعد 1857 میں جنگ آزادی کی بظاہر ناکامی پر دہلی (شاہجہاں
آباد) پر قابض ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ انگریز مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر کے اس
کے آخری مغل بادشاہ کو رنگون (برما) میں جلا وطن کرتے، دو انتہائی دور رس
اہمیت کے حامل واقعات پیش آئے جنگ پلاسی اور شہادت ٹیپو سلطان۔
جنگ پلاسی(1857ء)وہ جنگ ہے جس میں مرشد آباد( جہانگیر نگر، ڈھاکہ) کے
نوجوان نواب سراج الدولہ کو اس کے سپہ سالار، میر جعفر کی غداری کے باعث
شکست کا منہ دیکھنا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ شہید نواب کا یہی وہ غدار
سپہ سالار تھا جو عین اس وقت جب کہ جنگ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی
انگریز کمانڈر ، لارڈ کلائیو سے جا ملا۔ یہ وہی لارڈ کلائیو ہے جو آگے چل
کر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا گورنر جنرل بنا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے چند
ہی سال بعد جنگ بکسر میں بنگال کے میر قاسم، دہلی کے شاہ عالم ثانی اور
لکھن کے نواب شجاع الدولہ کی متحدہ افواج کو شکست دی جس کے نتیجہ میں نہ
صرف یہ کہ برصغیر پاک و ہند میں برٹش راج کی بنیاد پڑی بلکہ پورا بنگال
آئندہ نوے سال (1947 تک)کیلئے برطانوی قلمرو میں شامل ہو گیا۔ یہی وہ غدار
تھا جس کو پاکستان کے معنوی بانی، علامہ اقبال نے ننگِ ملت ننگ دین، ننگ
وطن کہا تھا اور اس کی روح بلکہ بدروح سے بچ کر رہنے کی تلقین فرمائی
تھیالامان از روحِ جفعر، الامان
دوسرا اہم واقعہ ٹیپو سلطان کی شہادت کا واقعہ ہے۔ یہ دردناک واقعہ 1799
میں اس وقت پیش آیا جب شیر میسور ٹیپو سلطان نے لارڈ ویلزلی کے بھائی آرتھر
ویلزلی (ڈیوک آف ولنگٹن) کے خلاف داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
شیر میسور ہی کا مشہور قول ہیشیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی
سے بہتر ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے ٹیپو سلطان کے اس مشہور قول کو یوں نظم
کیا ہے
شیر اچھا ہے جسے مہلتِ یک روزہ ملی،یا وہ گیڈر جسے بخشا گیا صدر سالہ خلود؟
جب ڈیوک آف ولنگٹن نے نپولین بونا پارٹ کو جنگ واٹر لو میں شکست دی، نظام
حیدر آباد اور مرہٹوں کی مشترکہ افواج کے ساتھ سرنگا پٹم کا محاصرہ کیا اس
سے پہلے اس کے اکثر امرا کو خرید لیا۔ ان غدار امرا کا سرغنہ میر صادق تھا
جس کے بارے میں حضرت علامہ نے فرمایا ہیجعفر از بنگال و صادق از دکن دکن سے
مراد سلطان خداداد میسور ہے جو جنوبی ہند(دکن یا دکھن) میں واقع تھی۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال نے اپنی زند جاوید فارسی مثنوی جاوید نامہ کے فلک
زحل کا عنوان ہے وہ ارواح رزیلہ کہ جنہوں نے ملک و ملت کے ساتھ غداری کی
اور جن کو دوزخ نے بھی قبول نہ کیا وہ بنگال کے غدار اعظم، میر جعفر اور
دکن (میسور) کے غدار اعظم، میر صادق کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ پوری قوم (مسلمانان
پاک و ہند( ان کی حرکت )غداری سے فتنہ و فساد میں مبتلا ہے۔ وہ قوم جس نے
ہر (مجبور و مقہور) قوم کی ہر گرہ کو کھول دیا۔ آج کیوں اس کا ملک اور دین
اپنے مقام سے گر پڑے! کیا تو نہیں جانتا ہے کہ خط ہندوستاں برصغیر پاک و
ہند جو کہ اہل دل لوگوں کو بہت عزیز ہے اور وہ ایک ایسا خطہ ہے جس کا ہر
جلوہ دنیا کو روشن کرنے والا ہے۔ ابھی تک خاک وخوں کے درمیان کیوں لوٹ پوٹ
ہو رہا ہے؟ اس سرزمین کی خاک میں غلامی کا بیج کس نے بویا؟ یہ سب ان ارواح
خبیثہ (ارواح جعفر و صادق))کا کیا دھرا ہے۔ اسی تاریخی حوالے سے دیکھیں تو
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں سینکڑوں افراد نے
قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف
پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے شدید احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے
لگائی جانے والی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشن کے ڈپلومیٹک
زون میں داخل ہو گئے اور اطلاعات کے مطابق ہائی کمشن کے باہر لگے سبز ہلالی
پرچم کو نذر آتش کر دیا اور پاکستان کے خلا ف شدید نعرے بازی کی، اس واقعے
کے بعد پاکستانی سفارتی عملے کی حفاظت کیلئے سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی۔
ہزاروں افراد شباگ اسکوائر سے پاکستانی ہائی کمشن تک احتجاجا مارچ کرتے
ہوئے پہنچے تو پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مظاہرین
مشتعل ہو کر تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشن
کے ڈپلومیٹک زون میں داخل ہو گئے۔
بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں بھی پاکستان کے خلاف مظاہرے ہوئے مظاہرین نے
پاکستانی پرچم اور عمران خان کے پتلے نذر آتش کئے جس سے کئی افراد زخمی ہو
گئے۔ مظاہرین نے پاکستانی ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے اور پاکستان سے بنگلہ
دیش کے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بنگلہ دیشی وزیر اطلاعات حسن الحق
انو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں
عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف قرارداد منظور کئے جانے سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ اس ملک نے ابھی تک اپنی سمت ٹھیک نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان سے
قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا اور اس گھسے پھٹے موقف کو دھرایا کہ
پاکستان 1971ء کے جرائم پر بنگلہ دیش سے معافی مانگے۔ ادھر پاکستان نے
بنگلہ دیش میں مظاہرین کی جانب سے پاکستانی پرچم کو نذر آتش کئے جانے اور
ہائی کمیشن کو نقصان پہنچائے جانے پر بنگلہ دیش کی حکومت سے شدید احتجاج
کیا ہے اور واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے کے عملے اور ساز و سامان کی حفاظت کو
یقینی بنایا جائے۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ
کو بریفنگ دینے کے بعد ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے صحافیوں کے ساتھ
بات چیت کرتے ہوئے کہا بنگلہ دیش میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا بغور
جائزہ لیا جا رہا ہے اور پاکستانی پرچم کو نذر آتش کئے جانے اور ہائی کمشن
کو مبینہ نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت کرتا ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے
مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستانی عملے اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں ارکان نے اس عزم
کا اظہار کیا کہ قومی اسمبلی ایک خودمختار ادارہ ہے اور یہ بنگلہ دیشی
حکومت یا مظاہرین کے تابع نہیں ہے اس لئے اس قرارداد کو واپس لئے جانے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش برادر
اسلامی ملک ہے اسے الزامات لگانے سے گریز اور دوطرفہ تعلقات مستحکم کرنے
چاہئیں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں چند طلبہ نے احتجاج کیا کوئی بڑا
مسئلہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی پرچم کی بے حرمتی نہیں
ہوئی پاکستانی ٹیم کے دورہ بنگلہ دیش سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ادھر بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ پاکستان کے حمایتیوں
کیلئے بنگلہ دیش میں کوئی جگہ نہیں۔ عبدالقادر ملا سے متعلق پاکستانی
اسمبلی قرارداد کو مسترد اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان
نے ثابت کر دیا کہ اس نے 71 کی جنگ میں بنگلہ دیش کی جیت کو قبول نہیں کیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے ز خم ابھی تازہ ہیں اور بنگلہ دیش نے بھارتی سازش
سے جو نام نہاد آزادی حاصل کی ہے اس کے بعد بھی اس کا جزبہ انتقام سرد نہیں
پڑا اور بھارتی اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح رقصاں بھارت نواز بنگلہ دیشی
قیادت نے تاریخ کے جبر سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔اگر بنگلہ وزیر اعظم
اپنی اداؤں پر غور کریں اور ان مناظر کو یاد کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے
والد شیخ مجیب الرحمٰن کی لاش کو ڈھاکہ کی گلیوں میں بے رحمانہ انداز میں
گھسیٹا گیا تھا ۔پاکستان کے حامیوں کو بنگالی نہ تو اپنے ملک سے نکال سکتے
ہیں نہ ہی ان کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکل سکتے ہے وہ لاکھ پھانسیاں دے
لیں ،بنگلہ دیش سے اٹھنے والی بنگلہ د یشی قیادت نامنظور تحریک کامیابی سے
ضرور ہمکنار ہوگی اور وہاں تبدیلی آکر رہے گی ۔معافی تو جنگی جرائم پر
بنگلہ حکومت کو ماننی چاہئے جہاں ڈھاکہ میں مسلمانوں کا بے رحمانہ انداز
میں خون بہایا گیا تھا ۔1971ء میں بنگلہ دیش کی جیت نہیں ہار ہوئی تھی اور
مغربی پاکستان سے ٹوٹنے والا مشرقی حصہ اگرچہ بنگلہ دیش تو بن گیا مگر اس
کے عوام کے خون میں ابھی تک پاکستانیت دوڑ رہی ہے۔پاکستان دشمنی کرنے والوں
سے قدرت نے انتقام لیا ہے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے تمام ذمہ دار پاکستان
اور بنگلہ دیش میں قدرت کے انصاف کا شکار ہوئے ہیں۔شاعر مشرق،حکیم الامت
ڈاکڑت علامہ محمد اقبال نے یوں ہی نہیں کہا تھا کہ ’’ جعفر از بنگال و صادق
از دکن ، ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن‘‘(بنگال کا جعفر اور دکن کا صادق
ملت اسلامیہ کیلئے باعث ننگ ، دین اسلامی کے لئے باعث عار اور وطن کے لئے
باعثِ شرم ہیں)
سلطان ٹیپو کی وصیت
تو رہ نورد شوق ھے ، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہمنشیں ہو، تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندوتیز
ساحل تجھے عطا ہو، تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز! گرمء محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوء پسند ھے، حق لا شریک ھے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
علامہ محمد اقبال
ضرب کلیم-1936
|