قارئین!مسئلہ کشمیر اس قدر گنجلک
اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اس وقت کشمیر ایشو کو عالمی برادری تیسری
عالمی جنگ کی سلگتی ہوئی چنگاری سے تعبیر کرتی ہے عالمی برادری کے بڑے بڑے
معتبر رہنما اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر جنرل کونسل تک اپنے
خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس تشویش کو الفاظ کی شکل دے چکے ہیں کہ بھارت
اور پاکستان جیسی دو ’’جذباتی جوہری قوتوں‘‘ کے درمیان 66سال سے حل طلب
قضیہء کشمیر کو اگر ڈائیلاگ کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو اس ایشو پر ان دونوں
ممالک کی جنگ پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اس حوالے سے ریسرچ کرنے
والے کئی اداروں نے تو ایٹمی کشمیر جنگ کی صورت میں تباہ اور متاثر ہونے
والے علاقوں کے نقشے تک دنیا کے سامنے پیش کر دیئے ہیں اور یہاں تک خطرے کا
اندیشہ ظاہرکیا ہے کہ اس جنگ سے تین ارب کے قریب انسان یا تو ہلاک ہو جائیں
گے اور یا پھر کئی نسلیں ایٹمی تباہ کاری کا نشانہ بنتی رہیں گی۔ اس حوالے
سے سائنسی تجزیہ کرنے والے ان اداروں نے امریکہ کی طرف سے جاپان کے شہروں
ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کے نتیجے میں پھیلنے
والی تابکاری کی وجہ سے آج تک متاثر ہونے والے انسانوں کا جائزہ بھی پیش
کیا ہے اور ان اداروں نے یہ خوفناک منظر بھی اعدادوشمار کی مدد سے ایک
انتہائی ہولناک سکیچ کی شکل میں کھینچا ہے کہ امریکہ کی طرف سے جاپان پر
گرائے جانے والے ایٹم بم پاکستان اور بھارت کے موجودہ ایٹم بموں کا عشر
عشیر بھی نہیں تھے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کشمیر کی وجہ سے جنگ
ہوئی تو وہ روایتی جنگ نہ ہوگی اور ایٹم بم لازماً استعمال ہونگے اور یہ
ایٹم بم اتنے طاقتور ہیں کہ پورے کرہء ارضی کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے
کافی سے بھی زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام بین الاقوامی کھلاڑی یہ خواہش
رکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیاء میں سلگنے والے اس آتش فشاں کی ہلاکت آفرینی سے
بچنے کے لئے کسی بھی طریقے سے پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر
اکٹھا کیا جائے یہی وجہ ہے کہ ٹریک ٹوڈپلومیسی سے لے کر گفت وشنید کے مختلف
فورمز انہی بین الاقوامی طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے عوامی سطح سے لے کر
سربراہان مملکت تک کی ملاقاتیں کروانے میں پیش پیش ہیں دوسری جانب
افغانستان میں ماضی میں روس کی آمد اور اخراج اور اس کے بعد مختلف وارلارڈز
کی خانہ جنگی کی کیفیت اور بعد ازاں 9/11کے واقعات کے بعد پاکستان ہی کی
مدد سے افغانستان میں برسراقتدار آنے والے طالبان کو القاعدہ اور اسامہ بن
لادن کی سرپرستی، میزبانی اور نگہداشت کرنے کے جرم میں امریکہ کی طرف سے
’’دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ‘‘ میں براہ راست نشانہ اور ٹارگٹ قرار
دینے کے عمل سے دائروں کا وہ سفر شروع ہواہے کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے
رہا اس سب صورتحال میں پاکستان کی کیفیت ’’آگے کنواں پیچھے کھائی‘‘سے بھی
کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ ایک طرف کئی سو کلو میٹر پر مشتمل افغانستان کا
بارڈر ہے اور ملک کے دوسرے سرے پر بھارت کے ساتھ ملنے والی بارڈر لائن ہے
جہاں عساکر پاکستان بری طرح دباؤ کا شکار ہو رہی ہیں ۔
قارئین! اسی حوالے سے ہم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول
ترین پروگرام’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں اسٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد
شکیل کی ہدایت پر ایک خصوصی مذاکرہ رکھا مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے کشمیر
کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے کہاکہ یورپ کے 28ممالک سمیت پوری
دنیا میں آباد کشمیری اور پاکستانی دوہری شہریت رکھنے والے تارکین وطن اپنے
وطن کی خوشحالی اور کشمیر کی آزادی کے لئے بے پناہ تڑپ رکھتے ہیں بھارت اس
وقت عالمی منظر نامے پر بہت بڑی معاشی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے اور تمام
بین الاقوامی کھلاڑی بھارت کی معاشی اہمیت کی وجہ سے کشمیر ایشو پر اس
طریقے سے کھل کر کشمیریوں کی حمایت نہیں کر رہے جس طرح اس کا حق بنتا ہے اس
تمام مشکل صورتحال میں پوری دنیا میں آباد دوہری شہریت رکھنے والے تارکین
وطن کشمیریوں اور پاکستانیوں نے تمام چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے کشمیر کیس
خود پوری دنیا کے سامنے ایک رضاکار سفارتکار کی حیثیت سے پیش کیا لاکھوں
کشمیریوں کے خون سے رنگین کشمیر کیس ان کشمیری وپاکستانی تارکین وطن نے جب
بین الاقوامی برادری اور مہذب دنیا کے سامنے اجاگر کیا تو ان تمام ممالک کی
سول سوسائٹیز نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے
بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا
اور جس کی وجہ سے کشمیر کیس بین الاقوامی سطح پر آج بھی زندہ ہے پروگرام
میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق چیف سیکرٹری خالد عزیز، آل جموں وکشمیر
مسلم کانفرنس برطانیہ کے رہنما چوہدری جمیل احمد تبسم، ماہر قانون دان سید
نشاط کاظمی ایڈووکیٹ، کشمیر پریس کلب میرپور کے سینئر نائب صدر سید قمر
حیات شاہ اور ایکسپرٹ پینل کے سربراہ سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے بھی
گفتگو کی۔ علی رضا سید نے کہاکہ یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان
اور آزادی کے بیس کیمپ کشمیر سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں بیرون ممالک
میں بھی اپنے اپنے ونگ قائم کر کے کام کر رہی ہیں دوسری جانب بھارت، ترکی،
بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک کی روشن مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ جو
بیرون ممالک میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر کام کرتے ہیں۔ کشمیری اور
پاکستانی تارکین وطن کو چاہیے کہ وہ وطن سے باہر جن جن ممالک میں آباد ہیں
وہاں کی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوں اور وہاں کی سیاست میں انتہائی اہم
مقام حاصل کریں تاکہ کل جب وہ مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لئے لابنگ کی طرف
جائیں تو ان کی آواز میں وزن ہو علی رضا سید نے کہاکہ میں نے صدر آزاد
کشمیر سردار یعقوب خان سے بھی یہی اپیل کی تھی کہ کشمیریوں کو ایک پلیٹ
فارم پر اکٹھا کرنے کیساتھ ساتھ بیرون ممالک آباد کشمیریوں کو ملک میں
سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے اعتماد سازی کی جائے کیونکہ بدقسمتی سے
ان تارکین وطن دوہری شہریت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ وطن میں کچھ اچھا سلوک
نہیں کیا جاتا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف سیکرٹری خیبر
پختونخواہ خالد عزیز نے کہاکہ اس وقت عالمی برادری یہ سمجھ چکی ہے کہ
پاکستان اور ہندوستان دو ایسی جوہری قوتیں ہیں جو ماضی میں بھی اسی تنازعے
کی وجہ سے چار جنگیں لڑ چکی ہیں اور مستقبل میں بھی پورے خطے کو اگر کوئی
ایشو ڈی سٹیبلائزکر سکتا ہے تو وہ کشمیر ایشو ہے اس وقت جرمنی ہی کی ایک
ایجنسی کوشش کر رہی ہے کہ ایران، پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی میز
پر اکٹھا کیا جائے اور افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے
والے خلاء کو کسی تباہی کا سبب بننے کی بجائے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ
خطے میں امن کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہاکہ پوری دنیا میں
آباد تارکین وطن نے یقینا انفرادی سطح پر پاکستان اور کشمیر کا کیس مضبوط
کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیری
اپنی آزادی کی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور عالمی برادری تسلیم کر چکی ہے کہ
کشمیر میں اندرونی تحریک ہے اور پاکستان یا کوئی اور ملک یا قوت آزادی کی
اس تحریک کی مدد یا سرپرستی نہیں کر رہے ۔ خالد عزیز نے کہاکہ پاکستان
مضبوط ہو گا تو کشمیر کیس بھی مضبوط ہو گا پاکستان عرصہ دراز سے علاقائی
صورتحال کی وجہ سے انتہائی کٹھن مراحل سے گزر رہا ہے پہلے تو افغانستان پر
روس نے یلغار کی روس کا مقابلہ کرنے کے لئے مجاہدین کو منظم کیا گیا روس کے
انخلاء کے بعد خطے میں ایک عرصے تک خانہ جنگی کی کیفیت کی وجہ سے انسانی
جانیں ضائع ہوئیں اس کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی اور بعد ازاں امریکہ
نے خطے میں طالبان کے خلاف اپنی لڑائی شروع کر دی اب مستقبل قریب میں
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد ایک بڑا چیلنج ابھر کر سامنے
آسکتا ہے اس حوالے سے سکیورٹی رسک کا مقابلہ کرنا ضروری ہے خالد عزیز نے
کہاکہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر خطے میں امن کا قیام دیوانے کے خواب جیسا ہے
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چوہدری جمیل احمد تبسم رہنما مسلم کانفرنس
برطانیہ نے کہاکہ علی رضا سید جس طریقے سے یورپ میں ون ملین دستخطی مہم چلا
رہے ہیں صرف اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ وطن کو آزاد کرانے کے
لئے اور کشمیریوں کی آزادی کے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے کتنی محنت کر رہے
ہیں۔کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اتفاق واتحاد کی رسی کو پکڑیں اور مجاہد اول
سردار عبدالقیوم خان کے تحریر کردہ لٹریچر کا مطالعہ بھی کریں ماہر قانون
دان نشاط کاظمی ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا
کہ کشمیری تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں اور برطانیہ سے لے کر یورپ
کے تمام ممالک اور پوری دنیا میں تارکین وطن میں سیاسی تنظیموں کی طرف سے
اپنی اپنی جماعت کی شاخ قائم کرنا اجتماعیت کو نقصان پہنچا رہا ہے علی رضا
سید اور ان جیسے لوگ ایسے غازی ہیں جو حق کی خاطر جہاد کر رہے ہیں کشمیر
پریس کلب میرپور کے سینئر نائب صدر سید قمر حیات نے کہاکہ ماضی کی حکومتوں
سمیت آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے کشمیر کیس کے نام پر کھربوں روپے کی
کرپشن کی ہے ان لوگوں نے لاکھوں کشمیری شہداء کے مقدس خون کی توہین کی ہے
سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ میں حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے
پندرہ روزہ دورے سے واپس آیا ہوں اور میں انتہائی فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں
کہ سری نگر سے لے کر جموں تک آباد کشمیری آزادی کے لئے ایک زبان ہیں اور وہ
اپنے محسنوں اور علی رضاسید جیسے مجاہدوں کو بھی پہچانتے ہیں کہ جو گزشتہ
28سال سے ان کشمیریوں کی آزادی کا کیس برسلز اور یورپ سے لے کر پوری دنیا
کے تمام بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر لڑ رہے ہیں کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہو
گا حال ہی میں علی رضا سید ہی کے ایک قریبی ساتھی اور دوست ڈاکٹر سجاد حیدر
کریم ممبر یورپین پارلیمنٹ نے یورپ میں پاکستان کو تجارتی میدان میں جی ایس
پی پلس کا سٹیٹس دلوایا جس سے پاکستان کو سالانہ پانچ ارب یورو سے زائد کی
مارکیٹ ملی ہے کشمیر کی آزادی کے لئے پاکستان کا معاشی اور عسکری لحاظ سے
مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے انشاء اﷲ پاکستان موجودہ چیلنجز سے کامیابی سے
باہر نکلے گا اور کشمیری بھی بہت جلد آزاد ہونگے ۔
قارئین یہ تو وہ تمام گفتگو ہے جو ہم نے ایک سمری کی شکل میں ایک کالم کی
صورت میں آپ کے سامنے رکھ دی ہے کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید
اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق چیف سیکرٹری خالد عزیز نے جن باتوں کی طرف
واضح اشارے دیئے ہیں ان پر غور کرنا بہت ضروری ہے امید ہے کہ پاکستانی
وکشمیری قوم ان اشاروں کو ’’ہیر رانجھے کی داستان‘‘ سمجھ کر سر دھنتے ہوئے
لطف اندوز ہو کر بھول نہیں جائیگی بلکہ ان سے سبق حاصل کرے گی ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
بازار سے گزرتے ہوئے ایک غیر ملکی نے دیکھا کہ ایک مزدور روایتی طریقے سے
سڑک بنانے کے لئے ہتھوڑے سے پتھر توڑ رہا ہے غیر ملکی نے اچانک دیکھا کہ
پتھر توڑتے توڑتے مزدور نے اچانک ایک زور دار چیخ ماری اور فضا میں تین
الٹی قلا بازیاں کھاتے ہوئے واپس زمین پرآکر دوبارہ پتھر توڑنے شروع کر
دیئے
غیر ملکی نے مزدور کے پاس جا کر اسے کہاکہ ہم تمہیں سو ڈالر دیں گے تم دو
بارہ یہ تین قلا بازیاں لگا کر دکھاؤ
مزدور نے زور سے سر نفی میں ہلاتے ہوئے انکار کیا اور کہا
’’صاحب تم ہمیں چاہے ہزار ڈالر کا لالچ دو ہم دوبارہ اپنے پاؤں پر ہتھوڑا
نہیں مارے گا‘‘
قارئین! پاکستان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ انکل سام کی دھمکی، لالچ
اور جھانسے میں آکر پاکستان نے اپنے پاؤں پر ہتھوڑا مارا ہے امید ہے
پاکستان دوبارہ یہ غلطی نہیں کرے گا۔ |