تحریر : محمد اسلم لودھی
ایک سکھ پاکستان آیا اس نے کراچی جانا تھا لیکن وہ سوار راولپنڈی جانے والی
ٹرین میں ہوگیااور برتھ پر چڑھ کر سو گیا چند گھنٹے بعد جب اس کی آنکھ کھلی
تو اس نے نیچے بیٹھے ہوئے مسافر سے پوچھا کراچی آنے میں کتنا وقت اور لگے
گا ۔ مسافر نے جواب دیا سردار جی اب تو راولپنڈی آنے والا ہے آپ کراچی کی
بات کررہے ہیں ۔ یہ سن کر سردار ہکا بکا رہ گیا اور کہا واقعی پاکستان نے
بہت ترقی کرلی ہے نچلی سیٹ والے راولپنڈی جا رہے ہیں اور برتھ والے کراچی
جارہے ہیں۔ کچھ یہی انداز پاکستانی حکمرانوں کا ہمیشہ سے رہا ہے حکمران
کوئی بھی ہو کسی کو بھی نہ خدا کی گرفت کا خوف ہوتاہے اور نہ عوام کے
احتساب کا ۔نواز شریف نے پہلے پیپلز پارٹی کو جی بھر کی کرپشن کی اجازت
دیئے رکھی اور اب زرداری یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم
تمہارے ساتھ ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ کتیا واقعی چوروں سے
مل چکی ہے عوام سے کسی کو بھی ہمدردی نہیں ہے ۔ شہبازشریف اپنے سابقہ دور
میں ببانگ دہل یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ مرکز میں حکومت بنا کر آصف
زرداری سمیت لٹیروں کو چراہوں میں پھانسی کے تختے پرالٹا لٹکائیں گے لیکن
اب جبکہ عوام نے انہیں ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں پرقابض کردیا ہے تو نہ
ان کو لیٹرے نظر آرہے ہیں اور نہ ہی پھانسی پر لٹکانے کے وعدے انہیں یاد
ہیں اس پر نواز شریف کا یہ بیان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ وہ
آئی ایم ایف سے قرضہ شوق سے نہیں لے رہے بلکہ پیپلز پارٹی کے دور میں جو 18
ارب ڈالر قرض لیا گیا تھا اسے واپس کرنے کااہتمام کر رہے ہیں ۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھاکہ جنہوں نے قرض لیا تھا ان کی جائیدادیں ضبط ٗ ملکی اور غیر ملکی
بنک اکاؤنٹس منجمد کرکے لوٹی ہوئی رقم واپس لی جاتی لیکن نواز شریف نے
لیٹروں کو تحفظ فراہم کرکے چھری عوام کے گلے پر ہی چلانا بہترخیال کیا ہے ۔
غیر ملکی بنکوں میں جمع پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر واپس لاکرپاکستان کے
تمام معاشی و مالی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں لیکن وہ نواز شریف جو کل
پاکستانی عوام کے غم میں آنسو بہاتا ہوا جلسوں سے خطاب کیا کرتا تھا آج
اپنے ہاتھ میں مہنگائی کی چھری لے کر خود عوام کو ذبح کرنے میں کوئی
ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا ۔اس پر یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر مزید نمک
چھڑکا جارہاہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے مجسٹریٹوں کی
سربراہی میں کمیٹیاں قائم کررہی ہے واہ نواز شریف واہ ۔ ایک عام آدمی بھی
یہ سمجھتا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی اشیائے خورد نوش سمیت تمام
چیزوں کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں لیکن نہ نوازشریف کو اس بات کی سمجھ
آرہی ہے اور نہ ہی دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو ۔ جو اٹھتے بیٹھتے معاشی
انقلاب کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔وفاقی وزیر پٹرولیم فرماتے ہیں پٹرول
کی قیمت میں اضافہ حکومت نہیں اوگرا کرتی ہے لیکن وہ یہ بھی تو بتا دیں کہ
65 روپے فی لیٹر خرید کیا جانے والے پٹرول کو113 روپے لیٹرکیوں فروخت کیا
جارہا ہے روزانہ عوام کی جیب سے براہ راست نکلنے والے چالیس سے پچاس ارب
روپے کس کی جیب میں جاتے ہیں اور حکومت کیوں اصل قیمت خرید پر عوام کو
پٹرول فراہم نہیں کرتی ۔بجلی دوسری بنیادی ضرورت ہے جس کی قیمت میں پے درپے
اضافوں نے مہنگائی کو آسمان پر مزید پہنچا دیا ہے ہر صارف کے بل میں بجلی
کی قیمت کے ساتھ ساتھ کتنے سرچارج اور ڈیوٹیاں کیوں شامل کردی جاتی ہیں پھر
سیلزٹیکس میں مزید اضافے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی
کی حکومت عوام دشمن تھی تو موجودہ مسلم لیگی حکومت کونسی عوام کی ہمدرد ہے
اب یہ بات ہر زبان پر آچکی ہے کہ مسلم لیگی حکومت مسائل حل کرنے کی بجائے
اپنی غلط اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف الجھارہی ہے بلکہ عوام
کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں قربانی کے جانوروں کی طرح ذبح بھی کرنا چاہتی
ہے۔ خدا کی پناہ یہی وہ انقلاب تھا جو نواز شریف پانچ مہینوں میں اپنے
بدترین اقدامات کی شکل میں لا چکے ہیں ۔اس وقت مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے
کہ آلو 80 ٹماٹر ٗ120ٗ ادرک 200ٗ لہسن 200 ٗ پیاز 60ٗ مٹر80 ٗ گوبھی 60
روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ چھوٹا گوشت 700 روپے کلو ٗ بڑا گوشت 400 روپے اور
سب سے اہم چیز آٹا40 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے کیا نواز شریف کو عوام نے
اس لیے ووٹ دیئے تھے ایک جانب حکومت سیلز ٹیکس ٗ پٹرول ٗگیس کی قیمتوں میں
اضافہ کرکے عوام کے گلے پر چھری چلارہی ہے تو دوسری جانب پیاز ٗ ٹماٹر اور
پھلوں کو آنکھیں بند کرکے برآمد کرنے قیمتیں آسمان کوچھونے لگی ہیں ۔ افسوس
تو اس بات کا ہے کہ نہ نوازشریف کے کانوں تک عوام کی فریاد پہنچ رہی ہے اور
نہ ہی شہباز شریف کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا کچھ احساس ہے وہ ایک بار پھر
بلدیاتی الیکشن میں عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ لینے کے جتن کررہے ہیں ۔اگر
نوازشریف اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو عوام کا ذرا سا بھی احساس ہوتا تو
وہ بے رحم احتساب کرکے لیٹروں سے لوٹی ہوئی کھربوں روپے کی رقم واپس لے کر
عوام کو سہولت فراہم کرسکتے تھے ایک رپورٹ کے مطابق 630 ارب روپے ریلوے پی
آئی اے ٗ واپڈا ٗ سٹیل مل جیسے ادارے کھا رہے ہیں نوازشریف کو چاہیے تھا کہ
ان اداروں میں دیانت دار افسروں کا فوری تقرر کرکے خسارے پر نہ صرف قابو
پاتے بلکہ جو بھی شخص ان قومی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار تھا اسے کیفر
کردار تک پہنچاکر عبرت کی مثال بنادیتے لیکن عوام کو ذبح کرنے اور لیٹروں
کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چیر مین نیب کے عہدے کے لیے
ایسے شخص کاانتخاب کیاگیا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے جرائم پر
پردہ ڈال سکے اب سپریم کورٹ کے حکم پر وہ بھی چھٹی پر جاچکے ہیں ۔گویا پانچ
مہینوں بعد بھی انہیں 18 کروڑ لوگوں میں سے کوئی ایمان دار شخص چیرمین نیب
کے عہدے کے میسر نہیں آسکا اور نہ ہی موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے کرپٹ
افراد کے خلاف کوئی سخت کاروائی کا ارادہ رکھتی ہے ہر ظالمانہ اقدام کا رخ
عوام کی طرف ہے جس کو جتناچاہو ذبح کرلو ۔ کمیٹیاں قائم کرنے سے مہنگائی
ہرگز نہیں رکے گی بلکہ مہنگائی کم کرنے کے لیے اصل قیمت خرید پر پٹرول کی
فروخت یقینی بنائی جائے ۔ جو 630 ارب روپے خسارے میں رہنے والے قومی اداروں
کو سالانہ دیئے جارہے ہیں وہی رقم نصف قیمت پربجلی اور گیس فراہم کرنے پر
صرف کی جائے تو مہنگائی خود بخود کم ہوجائے گی لیکن حکومت نہ اپنے غیر ملکی
دوروں سے باز آرہی ہے نہ صاحب حیثیت افراد سے ٹیکس ہی وصول کرنا چاہتی ہے
اور نہ ہی اپنے اور پیپلز پارٹی کے لیٹروں کو قانون کے شکنجے میں جکڑنا
چاہتی ہے ۔ رہ گئی عوام تو اس کا نہ پہلے کوئی والی وارث تھا اور نہ اب ہے
۔مسلم لیگی حکمران پہلے سے زیادہ بے رحم ہوکر عوام کو ذبح کررہے ہیں۔بے بس
اور مجبور عوام پیٹ کیسے بھریں گے حکمرانوں کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت
نہیں ہے ۔ |