امام احمد رضا مجدد بریلوی

امام احمد رضا مجدد بریلوی ، ان کی مذہبی ،ملی اور قومی شیرازہ بندی کی مساعی اور عصر حاضر میں ہم

عبقری شخصیت ،عظیم فقیہ اسلام اور عاشق رسول امام احمد رضا محدث بریلوی کی ولادت:10 شوال ا لمکرم1272 ھ ۔مطابق14جون 1856ء ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے شہربریلی کی سرزمین پر ہوئی اور جیساکہ آپ کے آبا و اجداد میں جد اعلی ( داداجان) علامہ نقی علی خان علیہ رحمۃا لرحمان(ولادت : 1224ھ وصال: 1282ھ ) اپنے زمانے کے اکابر علمائے اہل سنت سے تھے، فتویٰ نویسی ، درس و تدریس ،رشد و ہدایت ، اور تصنیف و تالیف کے فرائض انجام دیتے تھے ،سرزمین بریلی میں بہت سے علما و فضلا نے آپ کی بارگاہ سے علم و حکمت کا فیضان حاصل کیا اور آپ کے والد ماجد مولانارضا علی خان علیہ رحمۃ ا لمنان ( ولادت : 1246ھ وصال 1297ھ) مشہور عالم علمائے اسلام، صاحب فتاویٰ اور ولی کامل تھے، آپ وارث علوم مصطفی تھے آپ کی گراں قدر تصنیفات میں ’’ تفسیر سورہ الم نشرح ‘‘ تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل آپ کی یاد گار ہے ۔( فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد ص 224) ۔ اسی لئے بلند پایہ علمی ،دینی اور صالح ماحول میں امام احمد رضا کی پرورش بھی ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی رحمۃ ا ﷲ علیہ سے حاصل کی ۔چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پاک ختم کیا۔ 6سال کی ننھی عمر میں ایک نووارد عرب سے نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ عربی زبان میں گفتگو کی۔8سال کی قلیل مدت میں عا لمیت کورس کے تیسرے سال میں چلنے والی عربی گرامر کی عربی کتاب ’’ہدایۃ ا لنحو ‘‘ کی عربی میں آپ نے شرح ( گائڈ) لکھی ۔ 10سال کی عمر میں علامہ محب ا لدین بہاری علیہ ا لرحمہ کی فن اصول فقہ میں نہایت اہم کتاب’’مسلم ا لثبوت ‘‘کی بڑی بسیط شرح (تفصیلی گائڈ) تصنیف کی( مقدمہ حیات اعلی حضرت جلد اول )۔ اور اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے 13سال 10ماہ 5 دن کی عمر میں 14شعبان ا لمعظم 1286 ھ 1869ء کو تمام مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کی اور باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا ۔ اسی تاریخ میں آپ پر نماز فرض ہوئی (یعنی بالغ ہوئے ) اور اسی سال آپ نے رضاعت سے متعلق فتویٰ لکھ کر والد ماجد مولانا نقی علی خان کی بارگاہ میں پیش کیا اور اس کے بعد والد ماجد مولانا نقی علی خان نے باقاعدہ آ پ کو ’’منصب افتا’‘‘ کی ذمہ داریاں سپرد کردیں(الملفوظ کامل ص 42حصہ اول ، دہلی)قریب دوتین سال تک آپ فتوی لکھ کر والد ماجد کے پاس اصلاح کے لئے پیش کرتے رہے اس کے بعد والد ماجد نے فرمایا کہ آپ کو فتوی لکھ کر دیکھانے کی ضرورت نہیں مگر آپ اپنے والد ماجد کے احترام میں ان کی اخیر زندگی تک فتاوے دکھاتے رہے‘‘ ( فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد ص 224) آپ کی فقہی بصیرت و بصارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معروف مفکر ومحقق ڈاکٹر اقبال آپ کے متعلق کہتے ہیں کہ’’ ہندوستان میں آپ کے جیسا فقہ حنفی میں ماہر پیدا نہیں ہوا آپ جس معاملے میں رائے قائم فرمالیتے اس سے دوبارہ پھرتے نہیں تھے آپ اپنے زمانے کے گویا امام ابو حنیفہ تھے ‘‘ آپ نے تادم حیات لاکھوں فتاوے شرح و بسط کے ساتھ تحریر فرمایا جس کی زندہ مثال بارہ ضخیم جلدوں میں اور ہر جلد بڑے سائز میں قریب پانچ سو صفحات پر مشتمل فقہ حنفی کی عظیم انسائکلو پیڈیا ’’ العطایا النبویہ فی ا لفتا و ا لرضویہ ‘‘ اور فقہ حنفی کی عظیم کتاب ’’ جد ا لممتار، اور رد ا لمحتار وغیرہ تصنیف آپ کی فقہی معلومات کا عظیم ثبوت ہے(فتاویٰ رضویہ سب سے پہلے حضور حافظ ملت علامہ عبد ا لعزیز( بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ ) ،آپ کے دوتلمیذ(شاگرد)مفتی بحر ا لعلوم علامہ عبد ا لمنان ، اورعلامہ زمان عبد ا لرؤف رحمۃ ا ﷲ علیہم کی کوششوں سے سنی دارا لاشاعت اشرفیہ مبارکپور سے شائع ہوئی)۔اور آج اس بارہ ضخیم جلد وں کی تخریج ، عربی فارسی عبارتوں کے ترجمے اور نئی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر 30جلدوں میں ہمارے’’ علمائے اہل سنت‘‘ کی کوششوں سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

امام احمد رضا نے تحصیل علوم و فنون کی تکمیل کے بعد اپنی پوری زندگی قوم مسلم کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی تھی ا ٓپ قوم وملت کے سچے بہی خواہ اوردرد مند تھے ہمہ وقت قوم مسلم کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے ان کی ترقی کے لئے ہمہ د م جد و جہد کرتے ۔ ان کا ہر قدم ملت کی فلاح کے لئے اٹھتا ۔وہ امت مسلمہ کو باہم متحد و متفق دیکھنا چاہتے تھے اسی لئے امت مرحومہ کے اتحاد واتفاق کی دیوار میں نقب زنی کرنے والوں سے ہمیشہ بر سر پیکار رہے اورمسلمانان عالم کو باہم متحد رکھنے کے لئے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہے اورملت کا شیرازہ منتشر کرنے والوں کا آپ نے بھر پور محاسبہ کرکے حقائق کو طشت از بام کیااور امت مسلمہ کی درست رہنمائی کا مقدس فریضہ انجام دیا۔در حقیقت آج بھی مام احمد رضا جیسے قائد اسلام کی قیاد ت و سیادت کی زمانے کو شدید ضرورت ہے جو مسلمانوں کی درست رہنمائی کرکے ان کے شیرازہ کو متحد کرنے کی کو شش کرے کیوں کہ امام احمد رضا محقق بریلوی نبی آخر ا لزماں صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اس دین حنیف کے داعی اور مبلغ تھے جو عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کے زندگی بخشنے کو پوری انسانیت کی زندگی قرار دیتا ہے جو اختلاف و انتشار اور افتراق و تشدد سے روکتا ہے اور خدا و رسول پر ایمان لانے اور باہمی اتحاد و اتفاق کی دعوت سعید دیتا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم اہل ایمان کو اتحاد و یکجہتی کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے (اور تم اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو) اور حدیث میں مسلمانوں کو ایک اور نیک ہو کر رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاگیا (تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،باہم جھگڑا نہ کرو ،ایک دوسرے سے بغض نہ کرو اور اے اﷲ کے بندوں رشتہ اخوت و محبت میں بندھ جاؤ )۔

اس تناظر میں حقیقت پسندانہ زاویہ نگاہ سے جب امام احمد رضا کی زندگی کامشاہدہ کرتے ہیں توجہاں آپ امام علم و فضل، منبع اخلاص و ﷲیت اور تصنیف و تالیف میں بے مثال تھے وہیں امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے زبردست داعی اور مبلغ دین متین نظر آتے ہیں اور امت مرحومہ کی دینی ،ملی ،اقتصادی اور سماجی زندگی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی اور کامرانی کا راز خدا و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری اور باہمی اتحاد و یکجہتی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کو موتیوں کی لڑی کی طرح متحد اور مربوط دیکھنا چاہتے تھے۔ ملت میں نقب زنی کرنے والوں کا سخت تعاقب فرماتے تھے یہی وجہ تھی کہ بر صغیر ہند و پاک میں جب انگریزوں نے اپنے مفاد کی تکمیل کے لئے کچھ گندم نما جو فروشوں کو خریدا ، اسلام اور مسلمانوں کی طاقت و قوت اور ملی اتحاد و اتفاق کو متزلزل کرنے کی جد و جہد کی اوردیکھتے ہی دیکھتے مسلمان اپنے چودہ سو سا لہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے بر گشتہ ہوکر نت نئے اصول و عقائد اختراع کرنے کے ساتھ فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہو نے لگے کسی فرقہ کے بانی نے اﷲ پاک کے جھوٹ بولنے کو ممکن کہا تو کسی نے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے علم پاک کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دی تو کسی نے حضور کے آخری نبی کا انکار کرتے ہوئے ایک دوسرے نئے نبی کے آنے کا قول کر دیا۔ کسی نے فرقہ نیچریہ کی بنیاد ڈالتے ہوئے ہر اس چیز کا انکار کردیا جو عقل کے خلاف معلوم ہورہی تھی مثلاً فرشتوں ، جنوں،جنت ،دوزخ نبوت اور معجزہ آسمان کا انکار کیا اور ان چیزوں کے ثبوت میں وارد آیات قرآنیہ کی ایسی تاویل کی جس نے ان کو ان معانی سے خارج کردیا جو دور سالت مآب ﷺ اور صحابہ کرام سے آج تک ملت اسلامیہ میں مشہور و معروف تھے اور زمانے کی ہرچیز کو( Nature)یعنی فطرت کی جانب پھیر دیا ۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی ( ولادت1839ء یا 1840ء وصال 26مئی 1326ء ) اور اس کے ہم نواؤں نے انگریز سامراج کے اشارے پر ( 1298ھ / 1880ء )ایک جماعت بنائی جس کا نام قادیانی ’’احمدی فرقہ‘‘ رکھا۔ اس تحریک سے مسلمانوں کا شیرازہ کو منتشر کرنے کے لئے طرح طرح کے شریعت مخالف عقائد گڑھے مثلاًحضور ﷺ کے آخری نبی ہونے ( الاحزاب: آیت 40) کا انکار کیا ( انجام آتھم ص : 78) اور غلام احمد قادیانی دعوائے نبوت کرکے خود ہی نبی بن بیٹھا (ازالۃ ا لاوہام ص :533 ) بہت سے انبیا کرام کی شان میں گستاخی کی ( ازالۃ ا لاوہام ص : 629 ) اور ان کے خلاف طرح طرح کی کتابیں لکھ کر اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو داغ دار کرنے کی کوشش کی غرض کہ اسلامی موروثی عقائد و نظریات بازیچۂ اطفال بن گئے اور ان بے بنیاد عقائدو نظریات کی وجہ سے متحدۂ ہندوستان میں امت مسلمہ اتنے خانوں میں تقسیم ہوگئی کہ ایک سادہ لوح انسان مذہب حقہ کے تیئں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گیا کہ وہ کس مذہب کو ترک کرے اور کس کا انتخاب کرے ؟ گویالٰہی تیرے سادہ دل یہ بندے کدھر جائیں ؟

ایسے پر فتن دور میں امام احمد رضا محدث بریلوی اور آپ کے معاصر علماء نے اپنی خداداد صلاحیت و لیاقت کا بھر پور استعمال کر تے ہوئے مذہب اسلام کے اصول و آئین اور اس کے مسلمہ عقائد و نظریات کو قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں دلائل و براہین سے ثابت فرمایا اورملت کو متحد رکھنے کی بھر کوشش فرمائی ۔ ملت کو گروہوں او ر فرقوں میں منقسم کر نے والوں کا سخت محاسبہ فرمایا۔ اور ملی شیرازہ متحد کرنے اور ان کی فتنہ سامانیوں کا رد بلیغ فرمانے کے لئے ’ ( 1)ا لسوء و العقاب علی ا لمسیح ا لکذاب ــ ‘‘ ( 1320ھ) ’’ ( 2)الجراز ا لدیانی علی ا لمرتد ا لقادیانی‘‘ ( 1336ھ ) ( 3) المبین ختم ا لنبیےن ( 4)جزا اﷲ عدوہ باباۂ ختم ا لنبوۃ ‘‘تصنیف کی جس میں اس کی اور اس کے حواریوں کی خبر لی اور ان کے معاملے کی وضاحت کرنے کے بعد خاص ان کی تردید کے لئے ایک مجلہ بنام ’’ قھر ا لدیان علی مرتد بقادیان ‘‘( 1323ھ) جاری کیا جس میں’’احمدی فرقہ ‘‘ کے کفریات کو اجاگر کیا اور ناقبل تردیددلائل و براہین کے ذر یعہ سب سے پہلے ان پر حکم کفر عائد کیا جس کی تصدیق علمائے حرمین نے ان کی کتاب ’’ ا لمعتمد ا لمستند ‘‘ اور حسام ا لحرمین ‘‘ میں کی۔ اورباطل عقائد و نظریات کی حامل’’ فرقہ نیچریہ ‘‘کے رد میں(1) صمصام جدید ( 1355 ھ / 1887ء) ( 2 )لمعۃ ا لضحیٰ فی اعفاء ا لحی ( ٰ 1315ھ 1897/ء) ( 3)تمھید ایمان بایات قرآن( 1326ھ 1908 ء) وغیرہ کتابیں تصنیف فرمائیں جس میں امت مسلمہ کے ملی شیرازہ کو منتشر کرنے والے دہریوں کا شد و مد سے رد کرکے ان پر قدغن لگا یا اورمسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائی اس کا نتیجہ یہ ہواکہ نیچری فرقہ کا وجودقریب معدوم ہو گیا ۔اور امکان کذب باری تعالیٰ کے خلاف ’’سبحان ا لسبوح عن عیب کذب المقبوح‘‘ تصنیف فرمائی۔

آپ نے ملت کی اس وقت بھی شیرازہ بندی کی سعی مشکور کی جب جنگ آزادی 1857ء کے بعد وطن عزیز ہندوستان میں انگریز سامراج کی دہشت گردی سے مسلمانوں کا شیرازہ سیاسی اور قومی لحاظ سے منتشر ہوگیا اور مسلمان ہر محاذ پر ابنائے وطن کے مقابل پسماندہ ہوتے گئے تو اس کا فائدہ اٹھا کر گاندھی جی سمیت کچھ مسلم لیڈر بھی ہندو مسلمانوں کے باہمی اتحاد کا اعلان کرنے لگے اور یہ بتا نے لگے کہ دونوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہند و مسلمان ایک ہیں اس کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان قشقہ ( ماتھے پر ٹیکا) لگوانے لگے تھے اور’’ گاؤ کشی‘‘ جس کو شریعت نے حلال کیا ہے( البقرۃ آیت67 ) اس کی مخالفت میں مولانا ابو ا لکلام آزاد جیسے ’’جہاندیدہ‘‘ لوگ بھی ہندو بھائی چارگی کے فروغ کے لئے آ گے آگئے تھے اور اس سلسلے میں گاندھی جی نے اعلی حضرت علیہ ا لرحمۃ سے ملنے کی درخواست بھی کی لیکن امام اہل سنت نے انہیں خاطر میں نہ لاکر ملنے سے انکار کردیا کیوں کے ہندو مسلم موالات کے پس پشت اس با ت کا شدید خطرہ لاحق تھا کہ مسلمانوں کا تشخص اور ان کااسلامی شعار کچھ دنوں کے بعد سرزمین ہند سے فنا ہوجائے گا اور قوم مسلم کا شیرازہ ایک بار پھر منتشر ہوجائے گا ارو اس لئے بھی کہ ہندوؤں کی یہ خفیہ پلاننگ بھی تھی کہ مسلمان انگریزوں سے لڑکر مرکرتباہ ہوجائیں اور ہندوستان کے آزادی کے بعد ہم ہی اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہونگے ۔ایسی صورت میں امام احمد رضا (جو انگریزوں سے اس د ر جہ متنفر تھے کہ ان کا ڈاک ٹکٹ الٹا لگا تے تھے انہوں )نے امت مرحومہ کو ان معاملات سے واقف کرنے اور ملت مرحومہ کو شرعی امور میں متحد کرنے کے لئے 1339ھ مطابق 1920ء میں زبردست تحریک چلائی اور اردو زبان میں ایک کتاب بنام ’’ المحجۃ ا لموتمنۃ فی آیات ا لممتحنۃ‘‘ تحریر کی جسے برصغیر میں مستقل اسلامی سلطنت کے لئے پہلی اینٹ اور مضبوط بنیاد ہونے کا فخر حاصل ہے اس میں آپ نے شریعت کا حکم اجاگر کرتے ہوئے ہندؤوں کے ساتھ ’’ترک موالات‘‘ کا حکم دیا اور انھیں بتا یا کہ جب سامراجی جو ’’کتابی‘‘ ہیں ان سے موالات جائز نہیں تو اس طرح کفار و مشرکین سے تمام امور میں موالات کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ ( ماخوذ از : مصری صحافت میں امام احمد رضا کے جلوے ص: 46 ,45)۔ااس طرح امت مرحومہ کاایمان ضائع اور برباد ہونے سے محفوظ رہا۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ امام احمد رضا اسلامی عقائد و نظریات سے بھٹکے ہوئے آہوؤ ں کو سوئے حرم لے جانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے اتحاد امت کے جذبوں سے سرشار سو سے زائد علوم و فنون میں ایک ہزار سے زائد اسلامی کتب ورسائل پر مشتمل نادر و نایاب علمی ،دینی ، ملی اورتحقیقی مساعی کا محور و منشاء ہی عالم اسلام کو عشق رسول کا سرمایا عطا کرنا،اسوء رسول کو عملی زندگی میں نافذ کرنااور باہمی اتحاد و یگانگت کی دولت سے مالا مال کرنا تھا۔ اور اس طرح فرقہ بندی کر نے والوں کی بھر پور حوصلہ شکنی فرمائی اور ملی کاز کو مستحکم رکھنے کے لئے وحدت ملی پر زور دیا۔ صیہونی اور سامراجی حکومت کے آلہ کار وں کی نت نئے فتنہ سامانیوں کی وجہ سے عصمت مصطفی ﷺ ، فقہ حنفی اور اسلامی اصول و آئین پر ہورہے زبردست حملے سے عشق رسول ا ﷲ ، فقہ حنفی اور اسلامی اصول و آئین کی مدافعت کی۔ اس دین حنیف کی حمایت میں بیش بہا خدمات انجام دی ۔موجود باطل قوتوں کا قلع قمع کیا اور مسلمانوں کو اختلاف و انتشار کی بھٹی میں جھونکنے والوں کا زبردست تعاقب کرکے مسلمانوں کے ایمان و عقائد کی حفاظت فرمائی ،بدعات و خرافات کا رد فرمایا اور ملت اسلامیہ کو ہزارہاں کتب و رسائل دے کر یہ بتا دیا کہ دونوں جہان کی کامیابی مصطفی جان رحمت ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی اتباع میں ہے اس لئے آپ خدا ورسول اور سلف صالحین کی شان میں توہین و تنقیص کرکے امت کو طبقات اور گروہوں میں تقسیم کرنے والوں کی جو سر کوبی فرمائی و ہ اتحادامت کے لئے بنیادی حیثیت کی حامل ہے ۔ آپ دینی اور عصری علوم و فنون کے سنگم تھے ۔آپ نے اس علم کی خدمت کر کے ہم تک دین و دنیا کا علم پہونچایا ۔ قوم کو فکردیا ان کی ذہن سازی کی کہ اگر دنیا مین زندہ رہنا ہے؟ اپنے سماج اور معاشرے سے جہالت کا خاتمہ اور ہر فرد کو تعلیم یافتہ بنانے کی سعی کرنا ہے؟ تو علم و عمل کی دولت سے ہمکنار ہونا پڑے گا ، حسد جلن اورنفاق سے برگشتہ ہوکر باہمی اتحاد و یکجہتی کی زندگی گزارنا پڑے گا ۔اگر کوئی راستہ فلاح و بہبود سے ہمکنار کرسکتا ہے تو وہ شریعت مصطفوی کی روشنی میں حاصل ہونے والی علم کی دولت ہے جسے اپنا کر ہم زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملت بیضا ء کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ورنہ تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

امام احمد رضامجدد بریلوی نے اسلام اور خاص پیغمبر اعظم ﷺ کی شان میں ذرہ برابر بھی اہانت کا پہلو دیکھا شان اقدس میں گستاخیاں دیکھیں جس سے ملت کا شیرازہ منتشر ہو سکتا تھا اور مسلمان کے خانوں اور فرقوں میں بٹنے کا قوی اندیشہ تھا توآپ نے اپنے اور پرائے کا خیال کئے بغیر ان گستاخان اسلام و مسلمین کی سرزنش فرمائی اوران کے فتنہ سے امت کو آگاہ کرکے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں اہم کردار ادا کیا ۔ کیا ہم بھی ان کی روش پر چل کر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے والوں سے بر سر پیکار ہیں ؟؟ کیاعہد حاضر میں ملت کے شیرازہ کو متحد اور باہم مربوط کرنے اور اہل سنت و جماعت کو انتشار و پسپائی کے دلدل سے نکالنے کے لئے واقعی ہمارے علما اور پیران عظام امام احمد رضا کی زندگی کے انمول پہلوؤں کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں موجود پاتے ہیں ؟ کیا ملت کے زخموں کو مندمل کر نے اور فکر رضا کو عام کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرتے ہیں ؟کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم محض ان کے نام کا نعرہ بلند کرکے اپنی’’ حلق سوکھانے ‘‘ کے بجائے ان کی داعیانہ زندگی کے اسلوب اپنائیں؟ کیاہم سب کو یہ عہد نہیں کرلینا چاہئے کہ’’ ذاتی مفاد‘‘ سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کی شیرازہ بندی کریں؟ ، ملت کے نو نہالوں میں دینی اور دنیوی علوم و فنون کی شمع عام کرنے کی سنجیدہ مساعی کریں؟قرآن و احادیث اور اقوال سلف صالحین کی روشنی میں ان کے بتائے ہوئے درست طریقہ کار کو اپنائیں ؟ ۔ کام وہ لے لیجئے تم کو جو راضی کرے ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروروں درود۔( مولانا ) محمد عارف حسین مصباحی بہرائچی کنوینر تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ ہوڑہ و استاد دارا لعلوم قادریہ حبیبیہ فیل خانہ ہوڑہ
MD Arif
About the Author: MD Arif Read More Articles by MD Arif: 32 Articles with 57550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.