حضرت داتا گنج بخش، برصغیر پاک و
ہند کے اولین مبلغین ِ اسلام میں سے وہ عظیم شخصیت ہیں ،جنہوں نے جہالت
وگمراہی میں ڈوبے ہوئے یہاں کے لوگوں کو توحید و رسالت کے انوار سے روشناس
کروایا۔آپؒ کے درس و تدریس،وعظ وتبلیغ، اجتماعی و انفرادی کوشش،تصنیف و
تحریر اور روحانی قوت سے ہند میں نہایت ہی تیزی سے اسلام کی روشنی پھیلنا
شروع ہوئی اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔آ پؒ جواں
عمری ہی میں علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے۔ آپؒ کے علمی مقام کا اندازہ اس
واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی کی موجودگی میں
حضرت داتا علی ہجویر یؒ کاایک ہندی فلسفی سے مناظرہ ہوا، تو آپؒ نے اپنی
علمی قابلیت سے اس کو ساکت و صامت اور لاجواب کردیاحالانکہ اس وقت آپ کی
عمر زیادہ نہ تھی کیونکہ اس مناظرے کو سلطان محمود غزنوی کی زندگی کے آخری
سال میں بھی فرض کیا جائے، تو اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً20 سال بنتی
ہے۔ حضر تِ داتا گنج بخش ؒ نے حصولِ معرفت کی خاطر بے حد ریاضت و عبادت کی
حُصولِ علم کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔رضائے الٰہی کے لئے اُونی
لباس پہنا۔محبت ِ الٰہی میں فقرو فاقہ اختیار کیا اور عشقِ حقیقی میں ثابت
قدمی کی خاطر مصائب و مشکلات میں صبروضبط سے کام لیا ۔ آخرکار اللہ تعالیٰ
کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمیل ہوئی۔جب آپؒ کے پیر و مرشد حضرت ابوالفضل
محمدبن حسن خُتلی ؒ کی نظرِ ولایت نے دیکھا کہ میرے مرید ِخاص کے علمِ
ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے اور ان کی صحبت سے فیض پانے کا
وقت آگیا ہے، تواُنھوں نے حکم دیا کہ تم (مرکز الاولیاء) لاہور روانہ ہوجاؤ
اور وہاں جا کر رُشد و ہدایت کا فریضہ انجام دو۔ حضرت داتا علی ہجویریؒ نے
مرشد کاحکم سن کر عرض کی : ’’حضور! وہاں تو پہلے ہی میرے پیر بھائی اور آپؒ
کے مریدحضرت شاہ حسین زنجانی قدس سرہ النورانی موجود ہیں اور وہ تو قطب بھی
ہیں ،تو پھر مجھے وہاں روانہ کرنے کی کیا حکمت؟‘‘پیر صاحب نے فرمایا :’’تم
اس بات کو رہنے دو اور فوراً (مرکزالاولیاء) لاہور روانگی کی تیاری
کرو‘‘۔اس زمانہ میں غزنی سے لاہور تک کا راستہ کافی دشوار گزار تھا۔لہٰذا
آپؒ مرشد سے رخصت ہو کر پہلے اپنے وطن غزنی آئے اور وہاں سے حضرت احمد
حمادی کرخی اور حضرت ابو سعید ہجویری کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلہ کی
صورت میں مرکزالاولیاء لاہور کی طرف چل دیئے اوربڑی مشقتوں سے پہاڑی راستے
طے کرتے ہوئے پہلے پشاور اورپھر مرکزالاولیاء لاہور میں آپؒ کی آمد ہوئی،جس
دن آپؒ نے مرکزالاولیا لاہور شہر میں قدم رکھا، اسی دن آپ نے ایک جنازہ
دیکھا۔ لوگوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ جنازہ (مرکزالاولیاء)لاہور
کے قطب حضرت شاہ حسین زنجانی قدس سرہ النورانی کا ہے۔اس وقت آپ کو اپنے اس
سوال کا جواب مل گیا کہ جب(مرکزالاولیا)لاہور میں پہلے ہی ایک قطب موجود
ہیں ،تو میرے جانے کی کیا ضرورت اورمرشد کے حکم کی حکمت بھی معلوم ہوگئی ۔
(پیشکش : مجلس ِ نشر واشاعت،دعوتِ اسلامی) ٭…٭…٭
جنوبی ایشیا بالخصوص بر صغیر پاک و ہند کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے
پتا چلتا ہے کہ اگر چہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے اشاعت اسلام کا
سلسلہ شروع ہو گیا تھا تا ہم بھر پور طریقے سے اسلام کی تبلیغ و تعلیم
اولیاء کرام اور صوفیاء عظام کی یہاں تشریف آوری سے شروع ہوئی۔ان بوریا
نشینوں نے متاثر کن حکمت عملی کے تحت اسلام کی دعوت اخلاقی ،روحانی اور
انسانی بنیادوںپر پیش کی، جس کے باعث لاکھوں غیر مسلم افراد نے اسلام قبول
کر لیا اور ہند میںعظیم اسلامی انقلاب برپا ہوا ۔ عرب، ترکی، افغانستان
عراق اور دیگر خطوں سے آنے والے صوفیاء کرام کی کوشش سے دین متین خوب
پھیلا ۔صوفیاء کرام اس قدر با عمل اور عظیم البرکت تھے کہ ہندو اور غیر
مسلم لوگ ان کی زیارت کرتے ہی کلمہ طیبہ پڑھتے اور مسلمان ہو جاتے تھے ۔اس
سے موجودہ خطے پاکستان، ہندوستان،بنگلہ دیش میں اسلام کو بڑی تقویت ملی
۔اسلام کی ابتدائی پانچ صدیو ں میں جن اولیاء کرام اور صوفیاء عظام کے وعظ
و تبلیغ سے دین متین کو وسیع بنیا دو ں پر فروغ ملا، اُن میں مخدوم
الاولیاء حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویری رحمتہ اللہ علیہ بڑے
نمایاںاور قابل فخر ہیں۔آپ ؒ جتنے بڑے صوفی اور ولی تھے اتنے ہی بڑے عالم
بھی تھے ۔حضرت داتا صاحب یہ حقیقت بخوبی جانتے تھے کہ اصحاب ِصفہ میں سے ہر
ایک پاک دیدہ و پاک ہیں ،توکل و رضا کا پیکر تھا۔تاریخ اسلام میںانہی نفوس
قدسیہ کو صوفیاء کرام کہا جاتا ہے ۔صحابہ کرام اور اصحابہ صفہ رضی اللہ
عنہم میں سے ہر ہستی انہی اوصاف حمیدہ اور فضائل کی آئینہ دار تھی۔ ٭نام
نامی اسم گرامی: داتا گنج بخش ؒ کی اپنی تحریر کے مطابق آپکا نام نامی اسم
گرامی ،علی بن عثمان جلابی یا علی بن عثمان بن علی الجلابی الغزنوی ہے ۔آپ
ؒغزنی کے نواحی گائوںجلاب و ہجویرکے رہنے والے تھے ۔بر صغیر پاک و ہند
میںداتا گنج بخش کے لقب سے مشہو ر و معروف ہیں۔ گنج بخش کا لقب حضرت خواجہ
غریب نواز ؒ نے مزار مبارک پر چلہ کشی کے بعد الوداعی منقبت میںپیش کیا تھا
۔ ٭سلسلہ نسب :سوانح نگا روںاور محققین نے اس طرح سلسلہ نسب پر اتفاق کیا
ہے۔ حضرت علی ہجویری بن سید علی بن عبدالرحمٰن بن شجاع بن ابو الحسن اصغر
بن زید ؒ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی
طالب اس طرح آپ کا سلسلہ نسب آٹھویںپشت میں حضرت علی ؓسے ملتا ہے۔ ٭ولادت
با سعادت:آپؒ کی ولادت کی تاریخ بارے مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے، عام
طور پر آپ کا سال ولادت400ھ تسلیم کیا گیا ہے۔ ٭اساتذہ :حضرت داتا گنج
بخشؒ نے ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت ابو العباس محمد شقانی ؒ کا ذکر کیا ہے،
تو بڑے ادب سے ان کا نام لیا ہے اور ان کی مہربانیوں اور عنایتوں کو یا د
کیا ہے۔ داتا صاحب اپنے پیر و مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مرشد شیخ ابو
الفضل محمد بن حسن ختلی ؒ ہیں ،جو علم تفسیر وروایات (حدیث)کے جید عالم
تھے۔ اپنے مرشد کے بارے میں داتا صاحب فرماتے ہیں ’’ وہ صوفیائے متاخرین
میں زینت اوتاد اور شیخ عباد ہیں۔اپنے مرشد گرامی سے ،جو تعلق خاطر حضرت
علی ہجویریؒ کو تھا اس کا اندازاہ اس امر سے ہوتا ہے کہ حضرت ابو الفضل ؒ
کا جب وصال ہوا، تو سر علی ہجویری قدس سرہ کی گود میں تھا۔ ٭حضرت داتا گنج
بخش ؒ کے ہمعصر مشائخ اپنے دل کی لگی آگ بجھانے اور تشنگی باطن کو دور
کرنے کیلئے بے شمار اسلامی ممالک کا سفر اختیا ر فرمایا آپ کا عظیم مقصد
یہ ہی تھا کہ قرب الہی عزوجل اور عشق ِرسول ﷺ کے جام سے اپنے دماغ کو معطر
کروں۔ اس سفر میں آپؒ نے جن مشائخ عظام سے استفادہ کیا ، حضرت ابو القاسم
بن علی بن عبداللہ گرگانی، حضرت امام قاسم القشیری صاحب رسالہ القشریہ،
حضرت ابو سعید ابو الخیر ، شیخ ابو احمد المظفر بن احمد رحمتہ اللہ علیہ
اور دیگر اکابرین شامل ہیں۔ ٭آپ ؒ کی ازواجی زندگی:آپؒ کی مشہور زمانہ
تصانیف ’’ کشف المجوب‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپؒ نے ایک شادی کی اور جب
کچھ مدت کے بعد ان سے مفارقت ہو گئی، تو پھر آپؒ نے تا زیست دوسری شادی
نہیں کی۔ ٭مرکز اولیاء (لاہور) آمد :جب آپؒ نے لاہور شہر کا قصد فرمایا
اس سلسلہ میں بہت سی دل آویز حکایتیں ہیں۔بس اتنا کہا جاتا ہے کہ وہ دور
سلطان مسعود بن سلطان محمود غزنوی( ۴۳۱ھ) لاہور کا حاکم تھا، لیکن سال
ورودکا تعین دشوار ہے۔ آپؒ کے ورودِ مسعود نے لاہور کے قالب میںایک نئی
جان ڈال دی ۔آپؒ کے قیام کے دوران گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے ہزاروں
لوگوں نے آپؒ سے ہدایت پائی اور ہزاروں مشرکوںکے دلوں سے کلمہ توحید پڑھا
کر زنگِ کفر و شرک کو دُور فرمایا ۔ ٭شجرہ طریقت:آپؒ کا شجرئہ طریقت اس
طرح ہے: شیخ علی ہجویری مرید شیخ ابو الفضل الختلی مرید شیخ خضری مرید شیخ
ابو بکر شبلی مرید حضرت جنید بغدادی مرید شیخ سری سقطی مرید حضرت داوٗد
طائی مرید حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہم مرید حضرت علی رضی ا للہ عنہ۔
٭علمی کارنامے :حضرت داتا گنج بخش ؒ، جس طرح بحر طریقت سے روشناس تھے ،اسی
طرح قرآن و حدیث اور فقہ پر بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے اور اسرار شریعت سے
بھی اسی طرح آگاہ تھے ۔اسلامی تصوف کے دور تبع تابعین میں نظری تصوف نے
علمی تصوف کی شکل اختیار کر لی تھی ۔تصوف نے جب علم کی دنیا میں قدم رکھا
تو رموزطریقت اور اسرار حقیقت پر بھی قلم اٹھایا گیا،لیکن اس دَور میں اس
موضوع پر جو لکھا گیاوہ عربی زبان میں تھا ۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کے معا
صرین میں امام ابو القاسم قشیری نے تصوف کے رموز پر جو رسالہ قشیریہ مرتب
کیا اس کی زبان بھی عربی تھی ۔فارسی مفتوحین نے جب تصنیف کی دنیا میں قدم
رکھا، تو انہوں نے بھی اسی زبان عربی کو اختیار کیا، جس کی تقدیس کا قرآن
و احادیث کی زبان سے اندازہ ہو سکتا ہے ۔مذہبیا ت میںعربی کے سوا کسی اور
زبان کو استعمال کرنا تقدیس کے منافی خیال کیا جاتا تھا۔فارسی نژاد علماء و
فضلائے اسلام کی گراں بہا تصانیف اس پر شاہد ہیں ۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ کی
مادری زبان بھی فارسی تھی، اگرچہ آپؒ کو عربی زبان پر بھی کامل عبور حاصل
تھا ،لیکن’’ کشف المحجوب‘‘ عوام کے افادہ کیلئے فارسی میں تصنیف فرمائی۔آپ
ؒکی باقی تصانیف: فناوبقا،اسرارلخرق والمونات، الرعایت بحقوق اللہ
تعالیٰ،کتاب البیان لاہل العیان، نحوالقلوب،منہاج الدین ،ایمان،شر ح کلام
منصورحلاج،اور دیوان اشعار معروف ہیں۔ ٭وصال :آپؒ کاوصالِ پُرملال اکثر
تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفرالمظفر465 ھ کو ہوا۔ آپ ؒکا مزار منبعِ انوار
و تجلیات مرکز الاولیاء لاہور (پاکستان) میں ہے ،اسی مناسبت سے لاہور کو
مرکز الاولیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے وصال کو تقریباً 900سال
کا طویل عرصہ بیت گیا ،مگر صدیوں پہلے کی طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے
اور آپ کا مزارِ فائض الانوار مرجعِ خاص و عام ہے، جہاں سخی وگدا، فقیر
وبادشاہ، اصفیا واولیااورحالات کے ستائے ہوئے ہزاروں پریشان حال اپنے دکھوں
کا مداوا کرنے صبح وشام حاضر ہوتے ہیں۔داتا صاحب کے فیضان کا اندازہ اس بات
سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ معین الاسلام حضرت خواجہ غریب نوازمعین
الدین سیدحسن چشتی سنجری اجمیر یؒ بھی ایک عرصے تک آپ ؒکے دربار پر مقیم
رہے اور منبعِ فیض سے گوہرِمراد حاصل کرتے رہے اور جب دربار سے رخصت ہونے
لگے تو اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں فرمایا : گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ
خدا ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما ٭…٭…٭ ٭…٭…٭ ٭…٭…٭ ارشادات: حضرت
داتاعلی ہجویر ی ؒ چونکہ تصوف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز عشقِ حقیقی سے سرشار
فنافی اللہ بُزرگ تھے۔ لہٰذا آپؒ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی
،مسلمانوں کی خیرخواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح سے متعلق پھول نظر آتے
ہیں آئیے، ان میں سے 9 اقوال ملاحظہ کیجئے: 1۔کرامت ولی کی صداقت کی علامت
ہوتی ہے اور اس کا ظہورجھوٹے انسان سے نہیں ہوسکتا۔ 2۔ایمان ومعرفت کی
انتہا عشق ومحبت ہے اور محبت کی علامت بندگی (عبادت)ہے۔ 3۔کھانے کے آداب
میں سے ہے کہ تنہا نہ کھائے اور جو لوگ مل کرکھائیں وہ ایک دوسرے پر ایثار
کریں۔ 4۔مسلسل عبادت سے مقامِ کشف ومشاہدہ ملتا ہے ۔ 5۔غافل اُمراء ،کاہل
(سُست)فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے ۔ 6۔سارے ملک
کا بگاڑ ان تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے ،حکمران جب بے علم ہوں،علماء جب بے
عمل ہوں اور فقیرجب بے توکل ہوں۔ 7۔رضاکی دوقسمیں ہیں ٭خداکا بندے سے راضی
ہونا ٭بندے کا خدا سے راضی ہونا۔ 8۔دنیاسرائے فساق وفجار (گنہگاروں کا
مقام)ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبت ِالٰہی ہے ۔ 9۔بھوک کو بڑا شرف حاصل
ہے اورتمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہے اس لیے کہ بھوکے کادل
ذکی(ذہین)ہوتاہے،طبیعت مہذب ہوتی ہے اور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر
کوئی شخص کھانے کے ساتھ ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کردے ،تو وہ ریاضت میں
اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کرلیتا ہے ۔ ٭…٭…٭
علامہ شاہد المدنی العطاری |